کہاں سے ابتدا کیجیے بڑی مشکل ہے درویشو!
شاید شاعر نے یہ مصرعہ کسی ایسے وقت ہی کہا ہوگا۔ آج ماموں کے انتقال کو تیسرا دن ہے وہ ۶؍اپریل ۲۰۱۱ء کو 1:20 بجے ہمیشہ کے لیے ہمیں داغِ مفارقت دے گئے۔ مگر ایسا معلوم ہورہا ہے کہ وہ اب بھی ہمارے ارد گرد ہیں۔ دل کو کسی صورت، کسی پہلو قرار نہیں۔
مولانا محمد شفیع مونسؔؒ میرے حقیقی ماموں ہونے کے ساتھ ساتھ میرے محسن و مربی، سرپرست، والد، والدہ سبھی کچھ تھے۔ انھوں نے میری پرورش و پرداخت میں اپنی حیثیت سے زیادہ کوششیں کیں۔ ان کے احسانات کا شمار کرنا میرے لیے ناممکن ہے۔ میں اکثر اپنے احباب سے یہی کہتا ہوں کہ ان کے احسانات میرے اوپر اتنے ہیں جتنے میرے سر پر بال۔
میں بہت چھوٹا تھا والدین میں کچھ اختلاف ہوگیا اور والدہ مجھے اور میری بڑی بہن کو لے کر میکہ آگئیں۔ اسی روز سے ماموں نے ہماری کفالت شروع کردی تھی۔ دو سال بعد والدہ داغ مفارقت دے گئیں اور والدہ کی ذمہ داری ماموں ہی نے پوری کی۔
ماموں ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے، فرد واحد ہونے کے باوجود ایک جماعت، ایک تحریک تھے۔ جماعت اسلامی ہند سے ان کی وابستی ۱۹۴۴ء سے آخری سانس تک رہی۔جماعت اسلامی کے علاوہ بھی ملک کی دوسری جماعتوں تحریکوں سے بھی وابستہ رہے۔ مگر انھوں نے کبھی کسی عہدے، منصب کو جماعت اسلامی کے سامنے فوقیت نہیں دی۔ ملک کے کئی سیاسی لیڈران سے ان کے گہرے ذاتی مراسم رہے، خاص طور پر وی پی سنگھ، چندر شیکھر، نرسمہا راؤ، مادھو راؤ سندھیا وغیرہ۔ وی پی سنگھ سے بہت گہرے تعلقات تھے۔ انھوں نے وزیرِ اعظم بننے کے بعد اپنے ساتھ آنے کی پیش کش کی تھی مگر ماموں نے قبول نہیں کی۔ جماعت اسلامی کار نگ ان پر ایسا چڑھا کہ پھر کوئی اور رنگ ان پر چڑھ ہی نہیں پایا، وہ صبغۃ اللہ سے مزین رہے۔ تحریک کے لیے ان کا جذبہ اپنی مثال آپ تھا۔ ان کی زندگی کے ہزاروں واقعات ایسے ہیں کہ انھوں نے ہمیشہ اپنی ذات پر جماعت کو فوقیت دی۔ ماموں لکھنؤ میں امیر حلقہ تھے، ان دنوں ممانی پر فالج کا حملہ ہوا، جلیل اصغر بھائی (ماموں کے اکلوتے صاحبزادے) نے ممانی کی وجہ سے جدہ سے ایک خوبصورت ساٹیپ ریکارڈر بھیجا، میں اور میری ماموں زاد بہن بہت خوش ہوئے۔ دو دن بعد ماموں کی اس پر نظر پڑی، کہا میاں یہ تمہارے کس کام کا اور اٹھا کر نیچے دفتر میں لے گئے کہ یہ جماعت کے کام آئے گا۔ ممانی کے فالج زدہ ہونے پر ڈاکٹروں نے ممانی کے پاس رہنے کو کہا اور ہم لوگ بھی چاہتے تھے کہ ماموں کم سے کم دورے کریں، مگر ماموں نے کبھی بھی اپنے تحریکی دورے نہیں چھوڑے۔
اللہ تعالیٰ نے مرحوم کو اتنا سخت جاں بنایا تھا کہ بڑی سے بڑی دکھ کی خبر بھی آپ کو ہلا نہیں پاتی تھی، میں نے تین دفعہ آپ کو رنج و غم میں دیکھا، وہ بھی اپنے عزیزوں یا رشتہ داروں کے انتقال پر نہیں، بلکہ اپنے تحریکی لوگوں کی وجہ سے۔ مولانا مودودیؒ کے انتقال پر، مولانا ابواللیث اصلاحیؒ اور سید یوسف صاحب ایڈیٹر ریڈینس کے انتقال پر۔
مرحوم ۱۹۱۴ء میں موضع کلہڑی (چرتھاول) ضلع مظفر نگر، اترپردیش میں پیدا ہوئے تھے۔ ابتدائی تعلیم قصبہ چرتھاول ہی میں حاصل کی، آپ کے والد کسان تھے، آپ کی والدہ کا آپ کی تعلیم و تربیت میں خاص کردار رہا۔
آپ نے اپنی زندگی کی ابتداء درس و تدریس سے کی۔ غازی آباد اور اینگلو عربک اسکول دہلی کے بعد ملیح آباد اور پھر رام پور مرکزی درسگاہ اسلامی سے وابستہ رہے۔ درس گاہ اسلامی کے بعد سے آخری دم تک جماعت اسلامی کے مختلف اہم مناصب پر فائز رہے۔ نائب امیر جماعت، قیم جماعت (جنرل سکریٹری) آندھرا پردیش اور اترپردیش کے حلقہ کے امیر، مرکزی مجلس شوریٰ اور مجلس نمائندگان کے رکن اور جماعت اسلامی ہند کی طلبہ تنظیم SIO کے سرپرست اعلیٰ رہے۔ جماعت کے علاوہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اور دینی تعلیمی کونسل کے رکن اور آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے نائب صدر اور جنرل سکریٹری، FDCA کے سکریٹری جنرل ، فلاحِ عام سوسائٹی اترپردیش اور ادارہ ادب اسلامی ہند کے بانیوں میں رہے۔
مرحوم ۱۹۵۵ء میں جبل پور میں ہونے والے بھیانک فساد میں جماعت کے ریلیف ورک کے انچارج رہے۔ اس کے بعد جگہ جگہ جماعت کے ریلیف کے کاموں کی نگرانی کرتے رہے۔
آپ معروف شاعر بھی تھے۔ ادارہ ادب اسلامی ہند کے تقریباً پچاس سال مجلسِ اعلیٰ کے رکن رہے۔ دو شعری مجموعے بھی منظر عام پر آئے۔
بہت سے واقعات یاد آرہے ہیں جو گھریلو زندگی اور تحریک سے وابستہ ہیں مگر بقول شاعر:
ترے خیالوں کے ہاتھوں کچھ ایسا بکھرا ہوں
کہ جیسے بچہ کتابیں ادھر ادھر کردے
اس وقت قلم ساتھ نہیں دے رہا ہے انشاء اللہ جب صبر آجائے گا تو کچھ تفصیل سے تحریر کروں گا۔ ایک واقعہ پر بات ختم کرتا ہوں۔
ابوالفضل انکلیو میں مرکز کی زمین کی فراہمی مرحوم کا ایک بہت بڑا کارنامہ ہے۔ اور مرکز سے متصل بستی کو بنانے میں بھی آپ کا اہم کردار ہے۔ ایک واقعہ مرکز کی زمین کے سلسلے میں میرے ذہن میں ہے۔ اس وقت مرکز چتلی قبر پر تھا اور ماموں صبح ہی مرکز چلے جاتے تھے شام کو واپس آتے۔ تین دن تک ایک غیر مسلم ڈیلر مغربی حصے کی تاروں کی باؤنڈری توڑدیتا تھا۔ ماموں کو شام میں معلوم ہوتا تھا بتانے والے اس شخص کے بارے میں عجیب عجیب باتیں بتاتے تھے کہ وہ بہت بڑا غنڈہ ہے، بدمعاش ہے، بدتمیز ہے۔ ماموں نے کہا کل شام اسے مجھ سے ملاقات کے لیے کہو۔ جب وہ گھر آیا تو میں نے بتایا کہ دروازہ پر وہ ہے (نام ذہن میں اس وقت نہیں آرہا ہے) عام طور پر دروازے سے کمرے تک میں خود ہی لوگوں کو لے آتا تھا مگر اس روز ماموں دروازے پر خود اس کو لینے آئے۔ دروازے سے کمرے تک ماموں نے جو اس شخص سے کہا مجھے آج حرف بہ حرف یاد ہے کہ ’’میاں آپ کو تو لوگ معلوم نہیں کیا کیا بتارہے تھے، آپ تو ماشاء اللہ اچھے خاصے انسان ہیں۔‘‘ وہ شخص تھوڑی دیر تک ماموں کے کمرے میں رہا اور اگلے روز معلوم ہوا کہ خود باؤنڈری کرارہا ہے۔ وہ ماموں کا ایسا مرید ہوا کہ اس نے کچھ دنوں بعد کار خریدی اور گھر لے کر آیا۔ کہا مولانا اس کار کا ’ادگھاٹن‘ آپ ہی کو کرنا ہے۔ ماموں اس کی کار میں بیٹھ گئے تھوڑی دور چلے تھے کہ اس نے گانے کا ٹیپ آن کردیا جیسے ہی گانے کی تھوڑی آواز آئی ماموں نے فوراً کہا’’میاں اس کا ادگھاٹن کسی اور سے کرالینا۔‘‘ اور اس بے چارے نے فوراً ہی احتراماً ٹیپ بند کردیا۔
جیسا کہ میں تحریر کرچکاہوں کہ والدہ کا بچپن ہی میں انتقال ہوگیا تھا۔ والد صاحب کے انتقال کو بھی تقریباً پندرہ سال ہوچکے ہیں۔ بہت سے عزیز و اقارب کے انتقال سے دوچار ہوا ہوں مگر اب کے جو کیفیت ہے وہ بیان نہیں کی جاسکتی۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میں اب یتیم ہوا ہوں:
اک تری دیدی چھن گئی مجھ سے
ورنہ دنیا میں کیا نہیں باقی
——