دل کی گہرائیوں سے ہر فرد چاہتا ہے کہ اس کے گھر میں خوش نصیبی کا راج ہو اور اس کے گھر کے افراد میں باہمی خوشیوں اور شادمانیوں کا بسیرا ہو۔ لیکن وہ چیز جو اس خوش بختی کو تباہ کر دیتی ہے، خوشیوں کو بھگا دیتی اور غموں کو دعوت دیتی ہے، وہ عورت کا اپنے خاوند کے ساتھ اس طرح پیش آنا ہے جیسے وہ خاوند کی اطاعت صرف اسی معاملے میں کرتی ہے جو اس کی مرضی اور خواہش کے مطابق ہو۔ وہ ہمیشہ خاوند سے یہ چاہتی ہے کہ وہ اس کی خواہشات کی تکمیل کرتا رہے اور اس سے یہ امید رکھتی ہے کہ جن چیزوں کی وہ عادی ہوچکی ہے، انہیں ہرگز نہ بھولے اور جن باتوں اور کاموں سے اسے شغف ہے، وہ ان کا ضرور خیال رکھے۔ ایسی بیوی اپنے اسی اندازِ فکر سے اپنا گھر برباد کرلیتی ہے، ہنستے بستے گھر کو اجاڑ دیتی ہے اور اگر اولاد ہو تو اُسے آوارہ اور بدکردار بنا دیتی ہے۔
ایک عقل مند اور ذہین عورت وہ ہے جو اپنے گھر میں جھگڑے کا سبب اور اس کی بربادی کا باعث بننے والی چیز کو پہلے ہی بھانپ لیتی ہے۔ جس بات سے اس کا خاوند خفا ہوتا ہو، وہ اس سے گریز کرتی ہے۔ اگر عورت اس شعور سے بہرہ ور نہ ہو اور اپنے خاوند کے ساتھ اس کا رویہ ہمسروں جیسا ہو تو وہ اپنی ازدواجی زندگی کی نعمت کو عذاب میں بدل ڈالتی ہے۔
شادی ایک عظیم حکمت، نہایت بلند پایہ سماجی مقصد اور بقائے نسل کا وسیلہ ہے۔ یہ عبادات میں سے ایک اہم عبادت ہے، جس کے ذریعے سے ہر مسلمان مرد اور عورت کو اللہ تبارک تعالیٰ کا قرب حاصل ہوتا ہے۔ لہٰذا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ شادی مرد اور عورت پر اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک بڑی نعمت ہے۔ اسلام میں شادی کا اصل مقصد میاں بیوی کے درمیان باہمی محبت، الفت اور ایثار و قربانی کے جذبات پیدا کرنا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’اور یہ بھی اس کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہاری ہی جنس سے بیویاں پیدا کیں تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرو اور اس نے تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کردی، بلاشبہ اس میں ان لوگوں کے لیے عظیم نشانیاں ہیں جو غور و فکر کرتے ہیں۔‘‘ (الروم:۲۱)
اس محبت و الفت کو قائم و دائم رکھنے اور باہمی ازدواجی زندگی کو خوش اسلوبی سے برقرار رکھنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے میاں بیوی کے ایک دوسرے پر حقوق مقرر فرمائے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’اور دستور کے مطابق عورتوں کے مردوں پر ویسے ہی حقوق ہیں جیسے مردوں کے عورتوں پر ہیں اور مردوں کے لیے ان پر ایک درجہ اور فضیلت ہے۔‘‘ (البقرۃ:۲۲۸)
اسلام میں عورت کے لیے بہت سارے حقوق ہیں جنہیں ادا کرنا شوہر کا فرض ہے۔ اگر وہ یہ حقوق ادا نہیں کرے گا تو اللہ کے نزدیک نافرمان اور گناہ گار شمار ہوگا۔ اس وقت ہم خاوند کے بیوی پر حقوق میں سے ایک حق کا تذکرہ کر رہے ہیں۔ اس حق کی ادائیگی سے عورت اپنے رب کی جنت حاصل کرسکتی ہے۔ اور دنیا و آخرت میں سرخ رو ہوسکتی ہے۔ وہ حق یہ ہے کہ عورت کو اپنے خاوند کی اطاعت شعار بیوی ہونا چاہیے جو خاوند اس کے حقوق کا پاسدا رہو، اس کا استحقاق ہے کہ وہ اپنی بیوی سے ہمیشہ پاکیزہ اور میٹھی بات سنے اور بیوی کو ہر وقت اپنی حاجات و ضروریات پوری کرنے والی پائے۔
خاوند کے لیے بیوی اطاعت ہی ازدواجی زندگی کی کامیابی کی ضمانت ہے۔ جس قدر خاوند کو یہ احساس و شعور ہوگا کہ بیوی اس کا یہ عظیم حق بہ خوبی ادا کر رہی ہو، اسی قدر وہ اس کی عزت کرے گا اور اس کے دل میں تمہاری محبت بڑھے گی۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ سلم نے مومن عورتوں کو یہ تعلیم دی ہے کہ جنت کا راستہ اللہ تبارک و تعالیٰ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کے بعد خاوند کی اطاعت سے شروع ہوتا ہے۔
ذرا اس حدیث شریف پر غور کریں: ’’حضرت حصین بن محصنؓ روایت کرتے ہیں کہ ان کی پھوپھی اپنے کسی کام سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ سلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں۔ جب وہ اپنے کام سے فارغ ہوگئیں تو نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ سلم نے ان سے دریافت فرمایا: ’’کیا تم شادی شدہ ہو؟‘‘ انہوں نے عرض کی: جی ہاں! آپ نے پوچھا: ’’تمہارا اس کے ساتھ سلوک اور رویہ کیسا ہے؟‘‘ انہوں نے عرض کی: میں اس کی خدمت اور اطاعت گزاری میں کوئی کسر نہیں چھوڑتی، سوائے اس چیز کے جو میرے بس میں نہ ہو۔ آپ نے فرمایا: ’’اچھا یہ بتاؤ کہ تم اس کی نظر میں کیسی ہو؟ کیوں کہ بے شک وہ تمہاری جنت اور جہنم ہیـ‘‘
رسولِ اکرمﷺ کے اس ارشاد پر اچھی طرح غور کیجیے: ’’وہ تمہاری جنت اور جہنم ہے۔‘‘ یعنی اگرتم اس کی اطاعت کروگی تو وہ تمہارے لیے جنت کا سبب بن جائے گا۔
آپ کی مراد یہ تھی کہ جنت کے حصول کے دوسرے اسباب کی طرح یہ بھی تمہارے لیے جنت کے حصول کا سبب ہے جس طرح لوگ اللہ کی خوشنودی اور اس کی جنت تک پہنچنے کے لیے دیگر اسباب اختیا رکرتے ہیں:
اور صحابیہ کی اس بات پر بھی غور کیجیے: میں اس کی اطاعت اور خدمت میں کوئی کسر نہیں چھوڑتی۔‘‘
تمہیں اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہیے کہ شوہر کو راضی کرنے اور اس کے دل کو خوشی سے معمور کرنے کے لیے تیری کوشش اور محنت ان امور میں سے ہے، جن کا ہر مرد اپنی بیوی سے طلب گار رہتا ہے۔
تمہارے درمیان بسا اوقات لڑائی جھگڑا اور اختلاف بھی رونما ہوسکتا ہے، اس وقت تمہاری ذمیداری یہ ہے کہ تم اس جھگڑے کو ختم کرو اور صلح صفائی کے لیے ہر ممکن موثر طریقہ اختیار کرو۔ یقینا یہ بھی ممکن ہے کہ اس لڑائی میں درست موقف تمہارا ہی ہو اور کبھی اس کے برعکس تمہارے خاوند کا موقف بھی درست ہوگا لیکن ایسے موقع پر تمہاری ذمے داری یہ ہے کہ تم یہ احساس کرو کہ خاوند کسی ایسی حکمت کی بنا پر تمہارے موقف کی تائید نہیں کر رہا جو تمہیں معلوم نہیں۔ اس قسم کے مواقع پر تمہیں خاوند کے غصے اور جوش کو ٹھنڈا اور اختلاف کو رفع دفع کرنا چاہیے اور پھر کچھ دیر کے بعد جب اس کا دل مطمئن اور غصہ ٹھنڈا ہو جائے تو تم اپنی رائے اور موقف کی وضاحت کردو کہ تمہارا اصل مقصد تو باہمی خیر اور بھلائی کا تھا، لڑائی جھگڑا مقصود نہ تھا۔ بے شک وہ تمہارا شریک حیات ہے جس سے تم بے پروا نہیں ہوسکتیں۔
تم اس بات پر یقیناقادر ہو کہ جب بھی تمہارا خاوند کے ساتھ جھگڑا ہو، تم اسے فورا ختم کردو جب کہ تم یہ بھی اچھی طرح جانتی ہو کہ تمہاری شخصیت میں اپنے خاوند کو خوش کرنے کی بھرپور صلاحیت موجود ہے۔
جب تم اپنے خاوند کی ہر بات مانوگی اور اس کے ہر حکم کو بجا لاؤ گی تو تم بھی اپنے خاوند سے اپنی ہر آرزو پوری کرانے پر قادر ہوجاؤگی۔ تم سوچتی ہو کہ تمہارا خاوند تمہیں خوش و خرم رکھے اور تمہاری زندگی کو خوشیوں سے مالا مال کردے، تمہاری یہ خواہش بے جا نہیں مگر تم اپنے اس مقصد میں کیسے کامیاب ہوسکتی ہو جب کہ تمہیں اپنے شوہر کا دل موہ لینے اور اس کی پسند پر غالب آنے کا فن بھی نہیں آتا!!
نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے عورتوں کے لیے چند ایسے اعلیٰ اوصاف بیان فرمائے ہیں، جن کے ساتھ وہ جنت میں سلامتی کے ساتھ داخل ہوسکتی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
’’جب عورت پانچ نمازیں (باقاعدگی سے) ادا کرلے اور رمضان المبارک کے روزے رکھے اور اپنی شرم گاہ کی حفاظت کرے اور اپنے شوہر کی فرماں برداری کرے تو وہ (قیامت کے روز) جنت کے جس دروازے سے چاہے گی، داخل ہوجائے گی۔‘‘ لہٰذا خاوند کی اطاعت ان اسباب میں سے ایک سبب ہے جو تمہیں جنت میں داخل کرا دیں گے۔
بے شک بہترین عورت وہ ہے جو اپنے خاوند کو یہ احساس دلادے کہ وہ اس کے نزدیک بہت عظیم ہے اور اسے اپنے خاوند کی اسی طرح ضرورت ہے جیسے (زندہ رہنے کے لیے) اسے کھانے اور پینے کی ضرورت ہوتی ہے۔
بلاشبہ افضل عورت وہ ہے جو اپنے خاوند کے حقوق کی پاس داری کرے اور اسے اس کے لیے کسی تنبیہ اور وضاحت کی ضرورت پیش نہ آئے۔
بہترین عورت بخوبی جانتی ہے کہ اس کے خاوند سے بھی غلطی سرزد ہوسکتی ہے۔ کیوں کہ وہ غلطیوں سے معصوم نہیں ہے۔ لیکن وہ اپنی ذہانت اور ہوشیاری سے اپنے خاوند کو سنبھال لیتی ہے اور اپنے گھر میں پیدا ہونے والی مشکلات کا حل نکال لیتی ہے۔
اچھی بیوی کی ایک خوبی یہ ہے کہ وہ خاوند سے ہونے والی غلطی کی اصلاح کے لیے مناسب وقت اور موثر طریقہ اپناتی ہے۔
بہترین بیوی کشادہ دل ہوتی ہے، لہٰذا وہ خاوند کی بے شمار خامیوں اور عیوب کو نظر انداز کردیتی ہے جب تک معاملے کی نوعیت شدید ناگواری، پریشانی اور خوف تک نہ پہنچ جائے۔
اچھی بیوی کی یہ خوبی ہے کہ وہ جانتی ہے کہ اس کے خاوند نے اس سے محبت کی وجہ سے شادی کی ہے، اس لیے وہ یہ بات کبھی نہیں بھولتی کہ اس کے خاوند نے اس سے شادی اس شعور و احساس کے تحت کی ہے کہ اسے بیوی کی شدید ضرورت ہے اگرچہ بعض اوقات ان کے درمیان اختلاف رائے اور لڑائی جھگڑا بھی ہوجائے۔
بہترین عورت اپنے خاوند کے پسندیدہ امور پورے کرنے کے لیے بھرپور کوشش کرتی ہے اگرچہ ان میں سے کچھ اسے ناپسند بھی ہوں مگر وہ خاوند سے اپنے پیار کے اظہار کے لیے اس کے سارے احکام پورے کرتی ہے۔
اچھی بیوی میں یہ خوبی بھی ہوتی ہے کہ وہ ہر لڑائی اور اختلاف کے بعد اپنا محاسبہ کرتی ہے اور اپنے آپ سے سوال کرتی ہے: میرے خاوند نے جو کچھ کہا اور جو کچھ کیا، آخر اس کی وجہ کیا تھی؟ اور میں نے کیا کوتاہی کی تھی کہ معاملہ اس قدر بگڑ گیا؟ اس طرح وہ کسی دوسرے کے بتانے سے پہلے ہی اپنے عیوب اور غلطیوں کا کھوج لگانے کی کوشش کرتی ہے۔ اس خود احتسابی کے بعد وہ پھر اپنے آپ سے سوال کرتی ہے: کیا اس وقت خاوند سے تکرار کرنے کے بجائے خاموش رہنا مناسب نہیں تھا؟ کیا اس سے ٹھنڈے لہجے میں بات کرنا زیادہ موزوں نہیں تھا؟
اس اسلوب کے ساتھ ’’بہترین عورت‘‘ اپنے شوہر کے ساتھ یوں پیش آتی ہے گویا کہ وہ کسی حالت میں بھی اس سے بے نیاز اور بے پروا نہیں ہے۔
اسی طرح ہم اکثر دیکھتے ہیں کہ خاوند سے غلطی ہوجاتی ہے اور بات طلاق تک پہنچ جاتی ہے۔ اس حالت میں اگر بیوی صبر و ثبات کا مظاہرہ کرے، اپنی ناپسندیدگی، نفرت اور بغض و کینے کا اظہار نہ کرے تو خاوند بہت جلد نادم ہوجائے گا اور اپنی غلطی محسوس کرلے گا۔
یہ عورت کی ذمے داری ہے کہ وہ گھر میں پیدا ہونے والی ہر مشکل کا حل حکمت و دانائی سے نکالے تاکہ اس کا گھر آباد رہے، برباد نہ ہونے پائے۔
میرا خیال ہے کہ ازواجی زندگی خوشگوار بنانے کا سلیقہ اور گھروں کو آباد رکھنے کا صحیح طریقہ بالکل واضح ہوگیا ہے۔