انسان کی زندگی میں ہر طرح کے حالات پیش آتے ہیں۔ کبھی غم اور مصیبت پیش آتی ہے تو کبھی خوش و مسرت ملتی ہے۔ کبھی تنگ دستی و غربت سے سابقہ پڑتا ہے تو کبھی خوشحالی نصیب ہوتی ہے۔ صحت بھی ملتی ہے اور بیماری بھی آتی ہے۔ ایک سچا مومن جو خدا پر ایمان و یقین رکھتا ہے، خدا کی ذات پر مکمل بھروسہ کرتا ہے اور خدا ہی کو اپنا واحد سہارا بنالیتا ہے۔ وہ ہر حال میں اللہ سے راضی و خوش رہتا ہے اور اس کے ہر فیصلے پر سر جھکا دیتا ہے۔ نہ وہ مال و دولت اور دنیا کی آسائش اور خوشیاں پاکر اپنے رب کو بھول جاتا ہے نہ دنیا پرست بن جاتا ہے۔ نہ ہی وہ تنگ دستی، بیماری اور آزمائشوں و پریشانیوں میں اپنے رب کا ناشکرا بن کر اس سے شکوہ و شکایت کرتا ہے۔ بلکہ مومن تو ہر حال میں صبر و رضا کا پیکر بنا رہتا ہے۔ اس کی روش یہ ہوتی ہے کہ جب فتح مندیاں، کامیابیاں اور خوشیاں اسے میسر ہوتی ہیں تو وہ اتراتا نہیں بلکہ اپنے مالک حقیقی کے سامنے سجدہ ریز ہوجاتا ہے۔ اسی طرح جب ناکامیاں، پریشانیاں اور آزمائشیں اس کے حصے میں آتی ہیں تو وہ حکمت ایزدی پر برہم ہونے کے بجائے صبر و رضا سے کام لیتا ہے اور اپنے مالک سے حالات کا رخ پھیرنے کی دعا کرتا ہے۔
ایک حدیث میں اللہ کے رسول ﷺ نے مومن کی اس کیفیت کو بیان فرمایا ہے آپؐ نے فرمایا: ’’ایمان دار آدمی کا معاملہ بھی عجیب ہے کہ ہر حال میں اس کے لیے خیر ہی خیر ہے اور یہ چیز سوائے مومن کے اور کسی کو میسر نہیں۔ اسے جب خوش حالی نصیب ہوتی ہے تو شکر کرتا ہے اور یہ اس کے لیے خیر ہے۔ اور جب اس پر تکلیف یا مصیبت آتی ہے تو صبر کرتا ہے اور یہ بھی اس کے لیے خیر ہے۔‘‘ (مسلم)
ایک مسلمان جب اس بات کا اعلان کرتا ہے کہ اس کا رب اللہ ہے اور وہی بلاشرکت غیرے اس کا خالق، مالک اور فرمانروا ہے تو اس کے ثبوت کے لیے اسے مختلف آزمائشوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ کبھی اس پر مال و دولت کی فراوانی ہوجاتی ہے اور دنیا کے عیش و آرام کے سامان حاصل ہوتے ہیں اس وقت اسے اپنے طرز عمل سے یہ ثابت کرنا ہوتا ہے کہ وہ ان مادی وسائل و اسباب کو اپنا الہ نہیں سمجھتا بلکہ وہ ان کا امین ہے۔ اور انہیں صرف اپنے رب کی خوشنودی کے لیے ہی خرچ کرتا ہے۔ کبھی اسے تنگدستی اور مصیبت میں مبتلا کردیا جاتا ہے اور وہ اپنے عمل سے یہ بتاتا ہے کہ یہ دنیاوی مصائب اصل مقصد سے اسے باز نہیں رکھ سکتے۔ بلکہ مقصد کے ساتھ وابستگی کو اور بڑھاتے ہیں۔ غرض مختلف طریقوں سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو آزماتا ہے اور خدا کے یہ فرمانبردار بندے اس کے فضل کے سہارے تمام مشکلات و آزمائشوں میں ثابت قدم رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:
’’کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ بس اتنا کہہ دینے پر کہ ہم ایمان لائے چھوڑ دئے جائیں گے اور انھیں آزمائش کی بھٹی میں تپایا نہ جائے گا؟ حالانکہ ان سے پہلے جو گزرچکے ہیں وہ ضرور تپائے گئے ہیں۔ ضروری ہے کہ اللہ دیکھے کہ سچے کون ہیں اور جھوٹے کون۔‘‘ (العنکبوت)
سورہ البقرہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’پھر کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ یونہی جنت کا داخلہ تمہیں مل جائے گا حالانکہ تم پر وہ سب کچھ نہیں گزرا جو تم سے پہلے ایمان لانے والوں پر گزر چکا ہے؟ ان پر سختیاں گزریں، مصیبتیں آئیں وہ ہلا مارے گئے حتی کہ وقت کا رسول اور اس کے ساتھی چیخ اٹھے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی؟ (اس وقت انہیں تسلی دی گئی کہ ہاں) سن لو! اللہ کی مدد قریب ہے۔‘‘
حضرت ایوب علیہ السلام نے جسمانی اور مالی مصائب کو جس تسلیم و رضا کے ساتھ برداشت کیا اس کی تعریف خود اللہ تعالیٰ نے فرمائی ہے:
’’ہم نے بلاشبہ ایوب کو صابر پایا، کیسا اچھا بندہ تھا۔ وہ خدا کی طرف رجوع ہونے والا تھا۔‘‘ (ص:۴۴)
اسی طرح جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے لخت جگر حضرت اسماعیل علیہ السلام سے مطالبہ خداوندی کا ذکر کیا تو انھوں نے حکم الٰہی پر پوری تسلیم و رضا کا اظہار کیا اور فرمایا: ’’ابا جان، جو کچھ آپ کو حکم دیا گیا ہے اس پر عمل کرڈالیے خدا نے چاہا تو آپ مجھے صابروں میں سے پائیں گے۔‘‘ (الصافات:۱۰۲)
حضرت لقمان علیہ السلام اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے اسی تسلیم و رضا کی طرف توجہ دلاتے ہیں: ’’نیکی کا حکم کرو اور برائی سے روکو اور جو مصیبت پیش آئے اس کو برداشت کرو۔ یہ بڑی پختہ باتوں میں سے ہے۔‘‘ (لقمان:۱۷۰)
قرآن مجید میں ایسے لوگوں کو خوش خبری دی گئی ہے جو تسلیم و رضا کے ساتھ راہ خدا میں برابر آگے بڑھتے اور خدا کی محبت اور اس کے دین کے لیے ہر طرح کی قربانیاں دیتے ہیں۔اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:
’’بے شک جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے پھر وہ اس پر جمے رہے تو ان پر فرشتے نازل ہوتے ہیں (خوش خبری لے کر) کہ تم نہ ڈرو نہ غم کھاؤ، بلکہ اس جنت کا مژدہ سنو جس کا کہ تم سے وعدہ کیا جاتا رہا ہے۔‘‘ (حم السجدہ: ۳۵)
دوسری جگہ فرمایا: ’’بے شک جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے پھر وہ جمے رہے تو (روز قیامت) ان پر نہ کوئی ڈر ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔‘‘ (احقاف: ۱۳)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’مومن مردوں اور عورتوں پر وقتاً فوقتاً آزمائشیں آتی رہتی ہیں کبھی خود ان پر مصیبت آتی ہے کبھی ان کی اولاد پر آتی ہے کبھی ان کا مال تباہ ہوجاتا ہے (اور وہ ان تمام مصیبتوں میں صبر اختیار کرتے ہیں اور اس طرح اس کے قلب کی صفائی ہوتی رہتی ہے اور وہ برائیوں سے دور ہوتا رہتا ہے) یہاں تک کہ جب اللہ سے ملتا ہے تو اس حال میں ملتا ہے کہ اس کے نامہ اعمال میں کوئی گناہ نہیں ہوتا۔‘‘ (ترمذی)
دوسری حدیث میں رحمت عالم ﷺ نے فرمایا: ’’جس کسی مسلمان کو کوئی قلبی تکلیف کوئی جسمانی بیماری، کوئی دکھ اور غم پہنچتا ہے اور وہ اس پر صبر کرتا ہے تو اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ اس کی خطاؤں کو معاف کرتا ہے یہاں تک کہ اگر اسے ایک کانٹا چبھ جاتا ہے تو وہ بھی اس کے گناہوں کی معافی کا سبب بنتا ہے۔‘‘ (متفق علیہ