مومن کے تین عمل

؟؟؟

مہمان کی تواضع، پڑوسی کا خیال اور بے مقصد گفتگو سے گریز

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جو کوئی اللہ تعالیٰ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے مہمان کا اکرام کرے اور جو کوئی اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہو، اس کو چاہیے کہ وہ اپنے ہمسایہ کو تکلیف نہ پہنچائے اور جو اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہو، اس کو چاہیے کہ اچھی بات کہے یا خاموش رہے۔‘‘ اس حدیث پاک میں مومن کی تین صفات حمیدہ کا ذکر کیا گیا ہے اور فرمایا گیا ہے کہ جو اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتا ہو اور قیامت کے دن میں جزا اور سزا کا یقین رکھتا ہو، اس کو چاہیے کہ آنے والے مہمان کی عزت اور دل جوئی کرے اور اپنے قول و فعل سے اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ پہنچائے اور یا تو اچھی بات کرے جس میں اس کے دین و دنیا کا بھلا ہو، ورنہ خاموشی اختیار کرے۔

کیونکہ غلط اور معصیت والے کلام سے تو خاموش رہنا ہی ہزار درجہ بہتر ہے۔ مہمان کو اللہ تعالیٰ کی نعمت سمجھنا چاہیے۔ آنے والا مہمان اپنی قسمت کا کھاتا ہے اور میزبان کی بخشش کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ میزبان کو چاہیے کہ سرکار مدینہ کی سنت سمجھتے ہوئے اس کے ساتھ خوش خلقی سے پیش آئے۔

حضرت امام غزالیؒ ذکر فرماتے ہیں کہ حضورؐ نے ارشاد فرمایا کہ: ’’مہمان کو ناپسند نہ کرو، جو شخص مہمان کو ناپسند کرتا ہے اللہ تعالیٰ بھی اس شخص کو ناپسند کرتا ہے۔‘‘

حضورﷺ کے غلام ابورافعؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضورؐ کے پاس ایک مہمان آیا تو حضورؐ نے ایک یہودی کے پاس اپنی زرہ رکھ کر اس کی ضیافت فرمائی۔ حضرت امام غزالیؒ فرماتے ہیں کہ: ’’مہمان کی دعوت سے شہرت اور فخر کا ارادہ نہ کرے، بلکہ مہمان کو خوش کرنے اور حضورؐ کی سنت کو اپنانے کی نیت کرے۔‘‘ امام عبدالوہاب شعرانیؒ فرماتے ہیں کہ ’’جب کوئی مہمان آئے تو اس کی ضیافت کے وقت تمہارے دل میں یہ خیال نہیں آنا چاہیے کہ وہ تمہیں اس دعوت کے عوض کوئی چیز دے گا، تم اس سے کوئی دنیوی مطلب حاصل کرو گے، ورنہ اس دعوت سے اخلاص کی دولت نصیب نہ ہوگی او رنہ ہی سرکارِ دوعالم کی سنت حاصل ہوگی۔‘‘ ان کے آنے پر خوش ہو اور سنت نبوی کے مطابق ان سے حسنِ سلوک کرے اور ان کی خاطر تواضع مقدور بھر کرے۔ ایک حدیث شریف میں فرمایا گیا ہے کہ مومن کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ اپنے پڑوسی کو تکلیف دے۔ بلکہ ایک روایت میں ہے کہ آپؐ نے ارشاد فرمایا: ’’واللہ! وہ مومن نہیں جس کا پڑوسی اس کی اذیتوں سے بے خوف نہ ہو۔‘‘ ان احادیث میں اصل ایمان کی نفی نہیں کی گئی ہے۔ اس سے کمال ایمان کی نفی ہے۔ کیونکہ ایذاء معصیت ہے اور معصیت سے ایمان کامل نہیں رہتا۔ نفس ایمان کی نفی مراد نہیں ہے۔ ایک روایت میں ہے: حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ حضورؐ نے فرمایا: ’’جبرئیل ہمیشہ مجھے ہمسایہ کے متعلق نصیحت کرتے رہے یہاں تک کہ میں نے گمان کیا کہ وہ شاید ہمسایہ کو وارث قرار دے دیں گے۔‘‘

پڑوسی یا ’’جار‘‘ میں مسلمان، کافر، عابد، فاسق، دوست، دشمن، مسافر، مقیم، دیہاتی، خیرخواہ، بدخواہ اور اپنے و پرائے کسی کی تفریق نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو بھی ہمسایہ ہو، مومن پر لازم ہے کہ ان کے حقوق کا لحاظ رکھے اور اس کی طرف سے قول و عمل کے ساتھ کوئی تکلیف نہ پہنچے۔ حضرت امام غزالیؒ فرماتے ہیں کہ پڑوسی کے حقوق میں سے یہ ہے کہ اس کو سلام کرے اور اس سے زیادہ دیر تک گفتگو نہ کرے۔ اس کے خانگی معاملات کی تفتیش نہ کرے، بیماری میں عیادت کرے، مصیبت میں اظہارِ ہمدردی اور موت میں تعزیت کرے اور تجہیز و تکفین میں شریک ہو۔ خوشی کے موقع پر اس کو مبارک باد دے اور اس کی خوشیوں میں شریک ہو، اس کے عیوب معلوم کرنے کی کوشش نہ کرے، اس کے گھر میں نظر نہ ڈالے، اس کی غیر موجودگی میں اس کے گھر والوں کا خیال رکھے اور اس کی خواتین سے گفتگو کرنی پڑے تو نظر نیچی رکھے، اس کے بچوں سے پیار کرے اور دین و دنیا کی بھلائی سے متعلق جو باتیں اس کے بچے نہ جانتے ہوں، ان کو بتلائے۔ حضورؐ نے ارشاد فرمایا: ’’اگر پڑوسی مدد طلب کرے تو اس کی مدد کرو، اگر قرض مانگے تو قرض دو، فقر و مرض میں اس کی عیادت کرو، مرجائے تو جنازے میں شریک ہو۔ خوشی کے موقع پر مبارک باد دو، اس کی اجازت کے بغیر اس کے مکان کے سامنے اتنا اونچا مکان نہ بناؤ، جس سے اس کی ہوا رک جائے یا بے پردگی ہو۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ حضورؐ نے ارشاد فرمایا: ’’جب تم سالن پکاؤ تو شوربہ زیادہ کردیا کرو تاکہ بوقتِ ضرورت پڑوسی کو دے سکو۔‘‘ نیز حضرت امام غزالیؒ بیان کرتے ہیں کہ پڑوسی تین قسم کے ہیں: اول وہ جو پڑوسی بھی اور رشتہ دار بھی اس کا حق سب سے زیادہ ہے۔ دوسری قسم عام پڑوسی، اس کا حق دوسرے درجے کا ہے اور اس کی تفصیل میں تمام احکام اسی سے متعلق ہیں۔ تیسری قسم کے پڑوسی غیر مسلم ہیں جو احکام مسلمانوں کے ساتھ خاص نہیں ہیں، ان تمام احکام اور حقوق کا غیر مسلم پڑوسی بھی حقدار ہے۔ (عمدۃ القادری، ج:۲۲، ص:۱۰۸)۔

تیسری چیز جس کا بیان اس حدیث میں ہے، یہ ہے کہ یا تو کلام خیر کرے یا خاموشی اختیار کرے۔ کلام خیر میں ہے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا، وعظ و نصیحت کرنا، کسی کو خلافِ شرع کام کرتے دیکھے تو اس کواحسن انداز سے منع کرنا۔ اس کو پیارسے سمجھانا جیساکہ حدیث شریف میں ہے: ’’جو خلاف شرع کام دیکھے اولاً ہاتھ سے روکنے کی کوشش کرے۔ اگر ہاتھ سے روکنے کی طاقت نہ ہو تو زبان سے منع کرے اور اگر یہ بھی استطاعت نہ ہو تو دل سے برا جانے۔ یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔‘‘

آپﷺ کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ ’’بات کرنی ہے تو وہ کرے جس میں اس کی اخروی بھلائی ہو ورنہ اس کے لیے خاموشی بہتر ہے۔‘‘ آج کل ہم وقت گزارنے کے لیے ہنسی مذاق کرتے رہتے ہیں۔ اپنے نفس کو بہلانے کو ’’دل لگی‘‘ کہتے ہیں۔اور یہ بھول جاتے ہیں کہ ہماری اس دل لگی سے کسی کو تکلیف پہنچ رہی ہے یا نہیں اور ہم کسی کی غیبت،توہین یا بے عزتی کے مرتکب تو نہیں ہورہے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو بڑے نقصان کی بات ہے ۔ اس طرح کے لایعنی، بیہودہ، لغو اور بے فائدہ کلام سے خاموشی بہتر ہے۔ جیسا کہ حدیث شریف میں ہے: ’’یعنی اسلام کی خوبیوں میں سے ہے لایعنی گفتگو کو چھوڑدینا۔‘‘ ایک دوسری جگہ ارشاد ہوا ہے: ’’جو خاموش ہوا وہ نجات پاگیا۔‘‘ حضرت شیخ فرید الدین عطارؒ فرماتے ہیں: ’’دل زیادہ بولنے سے مردہ ہوجاتا ہے، چاہے اس کا کلام عدن کے موتی ہوں۔‘‘

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں