مٹتا سایہ

محمد طارق، کولہا پور

اُس کی عمر کا سایہ لمحہ لمحہ بڑھ کر کافی لمبا ہوگیا تھا۔ کیوںکہ اس کی زندگی کا سورج اب ڈھل رہا تھا ۔
برسوں بعد پہلی بار اپنی عمر کے لمبے سائے کو بہ غور دیکھ کر وہ بری طرح گھبرا گیا تھا۔ دہشت سے اس کی آنکھیں کنپٹیوں تک پھٹ پڑی تھیں۔ اس کی عمر کے سائے میں ان گنت ہیبت ناک سانپ کنڈلی مارے، پھن پھیلائے، لپلپاتی زبان باہر نکال نکال کر اپنی چمکیلی آنکھوں سے اُسے گھور رہے تھے اور خوفناک بچھو ڈنک اٹھائے اس کے قدموں کی طرف آرہے تھے۔
اُس کی روح کانپ رہی تھی اور ذہن کے صحرا میں فکر کے بھوکے گدھ اس کے اندر کے وجود کو اپنی نوکیلی چونچوں سے نوچ رہے تھے۔
وہ خود کلامی کررہا تھا ’’میں اپنی زندگی کے ڈھلتے سورج کو کیسے روکوں، کیسے؟ کون ہے وہ جس کے قبضے میں میری زندگی کا سورج ہے؟‘‘
’’کیا کروں میں ؟؟ جب یہ سورج غروب ہوجائے گا تب عمر کا سایہ مٹ جائے گا—، شاید نہ بھی مٹے، شاید میرا سایہ سکڑ کر، سمٹ کر میرے قدموں سے لپٹ جائے اور … اور یہ سانپ، بچھو یہ تو بہر صورت میرے وجود سے چمٹ ہی جائیں گے۔ میں عمر کے سائے سے ان سانپوں اور بچھوؤں کو کیسے ہٹاؤں؟ آخر کیسے؟؟
فکر کے بھوکے گدھ اس کے وجود کو نوچے ہی جارہے تھے۔ وہ اندر سے چھلنی چھلنی ہوا جارہا تھا۔ لاچارو بے بس وہ اپنی بند آنکھوں سے صرف انھیں گھور ہی پا رہا تھا۔
بند آنکھوں سے اس نے کبھی خود کو نہیں دیکھا تھا۔ ہاں خواب دیکھے تھے، فریب دیکھا تھا مگر اپنے اندر کی حقیقت نہیں دیکھی تھی۔
آج زندگی کے آخری دنوں میں جب بند آنکھوں سے خود کو دیکھا تو اسے اپنے خود سروجود سے خود فراموشی کرنے کو جی چاہنے لگا، مگر وہ بے انتہا مجبور ہوگیا تھا۔
اُسے اتنا مجبور، بے بس کرنے والا کون ہے کہ وہ اپنے خود کو بھی خود سے نہیں بچاپارہا تھا۔
سانپ پھنکارتے ہوئے اس کی طرف رینگ رہے تھے۔ بچھو ڈنک اٹھائےبڑھ رہے تھے۔ مارے خوف کے اسے اپنی سانسیں سینے میں گھٹتی ہوئی محسوس ہونے لگیں۔ حرکتِ قلب دھیمی ہوگئی اور اس کے سارے بدن میں چیونٹیاں سے رینگنے لگیں۔
کون ہے اس کے قلب کا محرک؟
کون ہے اس کی ہر سانس کو کنٹرول کرنے والا؟
میں کیا کروں؟ جاؤں تو کہا ںجاؤں۔ اپنی عمر کے خوفناک سائے سے بھاگ کر، کہاں؟ آخر کہاں؟
کہیں سائے سے بھی چھٹکارا ممکن ہے!!
اپنی لاچاری اور بے بسی پر اس کی بند پلکوں سے آنسو بہ بہ کر چہرے کی جھریوں میں اترنے لگے جیسے پیاسی زمین کی دراڑوں میں پہلی برسات کا پانی اترتا ہے۔
بستر مرگ کے اطراف بیٹھے ہوئے اس کے بیٹے، بیٹیاں اور دیگر رشتہ دار ایک دوسرے کو خاموش تکنے لگے۔
دفعتاً اندرونی کرب نے اس کے لبوں کو ایک ہچکی بخشی اور تمام چہروں کی چوکھٹوں پر امیدوں کے چراغ جل اٹھے، جس کی روشنی سے ان کے چہروں پر عرصے سے چھائی ہوئی ناامیدی کی تیرگی چھٹنے لگی۔ سب آس بھری نگاہوں سے ایک دوسرے کی طرد یکھ کر اثبات میں سر ہلانے لگے۔
اس نے ہولےسے آنکھیں کھول کر آس پاس کے چہروں کو بہ غور دیکھا۔ اب کسی بھی چہرے پر اسے اپنائیت نظر نہیں آرہی تھی۔ سارے چہرے اجنبی، انجانے اور پرائے لگ رہے تھے۔
’’کون ہو تم لوگ؟!‘‘ اس نے بلند آواز میں چیخنے کی کوشش کی لیکن اس کی آواز جیسے سلب ہوگئی تھی۔
’’کہاں چلی گئی میری صدا کس نے چھین لی مجھ سے میری گرج دار آواز جسے سن کر سب دوڑ پڑتے تھے۔ ایک لمحہ بھی ضائع کیے بغیر، اپنے ضروری کام چھوڑ کر میرے حضور میں سر جھکائے چلے آتے تھے۔ وہ میری آوا زکس نے قید کرلی، کون ہے صیاد؟ کس کی حکومت ہے میری آواز پر؟
’’آؤ میرے اپنو! تمہارے چہرے کہاں ہیں؟  محبت، پیار، وفا کے رنگوں سے رنگے ہوئے چہرے۔
وہ اپنے سینے میں بے آواز چیخ رہا تھا۔ اس کی آنکھیں وحشت سے پھٹی جارہی تھیں۔ چہروں پر دھند چھانے لگی۔ مایوسی اور نا امیدی کی دھند، جو تقریباً دو سال سے ان کے چہروں پر چھاتی رہی تھی اور چھٹتی رہی تھی۔
وہ بے آواز چیختے چیختے تھک گیا۔ پھر ہولے سے پلکیں بند کرلیں اور اپنی عمر کے سائے کو دیکھنے لگا جو اب کافی لمبا ہوگیا تھا۔ سانپ او ربچھو بھی بڑے دکھائی دے رہے تھے اورخوفناک بھی۔
آہ! میں کیا کروں، اس ہیبت ناک سچائی سے بھاگ کر کہاں جاؤں؟ کہاں؟! اب میرے لیے پناہ کہاں ہے؟ کون مجھے بچائے گا، ان سانپوں سے اور بچھوؤں سے، میرے اپنے کہاں مرگئے سب کے سب، جن کی زندگیوں کو پر تعیش بنانے کے لیے میں نے وہ سب کیا جو مجھے نہیں کرنا چاہیے تھا؟
اُس نے اپنے بدن کی ساری قوت یکجا کرکے اٹھنے کی کوشش کی مگر صرف اس کا تھوڑا سا سر اٹھا اور ڈھلک گیا۔
اس کی زندگی کا سورج غروب ہوچکا تھا۔
اس کے اطراف بیٹھے ہوئے اس کے اپنوں کے بدن میں بجلی کی سی لہر دوڑ گئی فوراً انھوں نے اس کی لاش پر چادر ڈھانپ دی۔
سب کے چہروں پر مسرت کی ننھی سے کرن جگمگائی لیکن فوراً دوسرے ہی لمحے اس کرن کو سب نے ایک دوسرے کی نظریں چرا کر افسردگی اور رنجیدگی کے نقاب میں ’’تہذیب‘‘ سے چھپا لیا۔ ان کے چہروں کو دیکھ کر لوگ انھیں تسلیاں دینے لگے۔
’’غم نہ کرو، خدا نے جو کیا بہت اچھا کیا۔ بے چارے دو سال سے موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا تھے۔‘‘l

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں