اللہ نے ہر چیز کو پیدا کیا اور ہر چیز کا سرا کہیں نہ کہیں انسان سے جوڑ دیا اس لیے کہ اللہ کی تمام مخلوقات میں اشرف انسان ہی ہے لہٰذا اس کے مقام کا تقاضہ ہے کہ دنیا و مافیہا کی ہر چھوٹی بڑی شے کا تعلق کہیں نہ کہیں انسان سے ہونا ہی چاہیے۔ انہی مخلوقات میں ایک شے مچھر بھی ہے۔ سردیوں کے زمانے میں تو یہ اپنی آرام گاہ میں چلا جاتا ہے اور جہاں مسلسل سردی یا برف پڑتی ہے وہ اس کو اپنی رہائش کے لائق، بھی نہیں سمجھتا۔ ہوسکتا ہے اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو کہ سرد ممالک کے لوگ زیادہ فرض شناس محنت کش ہوتے ہیں اور انہیں چونکانے، کام پر لگانے اور محنت کی طرف مائل کرنے کے لیے اس مخلوق کی ضرورت نہیں۔ یہ تو گرم اور مرطوب آب و ہوا کے خطے ہی کے لیے ہے جہاں انسان محنت سے بھاگتا اور آرام طلبی کے مرض میں مبتلا رہتا ہے۔ دنیا سوتی رہتی ہے اور یہ چھوٹا سا جانور رات بھر اپنے کام پر لگا رہتا ہے ہر اس جگہ سے انسان کو اٹھانے کی کوشش کرتا ہے جو بہت حساس ہو۔ مچھر دانی لگا لیجیے یا گڈ نائٹ سے اپنی خواب گاہ کو محفوظ کرلیجیے وہ کہیں نہ کہیں سے اپنا راستہ نکال لیتا ہے اور جہاں موقع پاتا ہے اپنے خفیف انجکشن سے غفلت میں پڑے انسان کو اٹھانے کی کوشش کرتا ہے۔ کان پر تو بار بار حملہ کرتا ہے کہ کیا اب بھی نہیں جاگے گا۔
اس حقیر سی مخلوق نے دنیا میںکس درجہ ہلچل مچا رکھی ہے اور انسانوں کے روزگار کے مسئلہ کو کس طرح چومکھی انداز میں حل کررہا ہے اس کا اندازہ لگا نا مشکل ہی نہیں محال بھی ہے۔ سردیاں ختم ہوتے ہی شہر گاؤں قصبات میں مچھر دانیوں کا بزنس عود کرآتا ہے۔ مچھر دانی کے کپڑے بنانے والے مل حرکت میں آجاتے ہیں۔ ادھر فیکٹریوں سے آڈر آنے شروع ہوجاتے ہیں۔ گاؤں دیہات تک میں ایک کمزور بڑھیا تک کو اس تعلق سے کچھ نہ کچھ کام مل جاتا ہے۔ دوسری طرف مچھر بھگانے والی مختلف دوائیں اور اشیاء بننا شروع ہوجاتی ہیں اور سردیاں پوری طرح ختم نہیں ہوپاتیں کہ ان کی آخری اور چھوٹے دوکاندار تک سپلائی کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ ڈی ڈی ٹی، بی ایچ سی اور گیمکسین کے بڑے بڑے کارخانے بھی اسی ذات مچھر کے مرہون منت ہیں۔ ہم اس مچھر کو بچارا اور کمزور سمجھتے ہیں لیکن فی الواقع ایسا نہیں ہے، اس کی رسائی یو این او تک میں ہے، WHOمیں اس کو بہت اہم مقام حاصل ہے۔ ابھی چند سال قبل (جس کا چرچہ اب بھی کسی نہ کسی معنی میں جاری ہے) ڈبلیو، ایچ او کی نگرانی میں نیشنل ملیریا اریڈی کیشن پروگرام NMEPبڑے زور شور سے چل چکا ہے۔
اس مچھر نے لوگوں کو صحت کی اہمیت بتائی۔ ایک جھٹکے میں پتے کی طرح سارا بدن ہلا ہلا کر بتایا کہ ہوشیار، اپنی تلی جگر کی فکر کرو یہ خون بنانے والی مشین ہے غفلت کرو گے تو پیلے اور بے ڈول ہوجاؤگے۔
اس اللہ کی مخلوق نے باہمی تعلقات کو بھی بہت حد تک سنوارا اور استوار کیا ہے۔ تیز بخار اور جاڑے میں مبتلا کلوا اپنے پڑوسی رحیما کو ہی بلاتا ہے کہ بھیا ذرا آجاؤ میری دوا دارو لادو حالانکہ دیوار کے بٹوارے پر دنوں میں برسوں سے مقدمہ چل رہا تھا اور بول چال بھی نہیں تھی۔ ملیریا کے زمانے میں گھر کے گھر ایسے رہے ہیں کہ ایک بچہ بھی نہیں بچا تھا جو پانی کا گلاس ہی دے دے۔
اس اللہ کی مخلوق نے صحت کے محافظوں کی بھی ایک فوج پیدا کردی۔ جہاں تہاں دیکھئے دوشیشیاں لیے بیٹھے ہیں اور ڈاکٹر صاحب کہلاتے ہیں۔ کلورو کوئن اور ریسوچن دوائیاں، ایک وقت وہ آیا کہ پنواڑی کے یہاں بھی بے روک ٹوک ملنے لگیں۔
میونسپلٹی کے عملے کو بھی اس مخلوق نے فرض شناسی کا سبق دیا۔ کہیں پانی جمع نہیں ہونا چاہیے۔ جمع ہو تو اس کو مٹی سے بھر دیا جائے یا اس میں تھوڑا مٹی کا تیل ڈال دیا جائے۔ گھریلو زندگی میں بھی اس مخلوق نے صفائی ستھرائی کا سبق سکھایا ہے۔ گھر کے تاریک گوشے صاف ستھرے ہیں۔ پرانے برتن کھلے نہ رکھے جائیں۔ گھر کے آس پاس پانی جمع نہ ہو۔
اس اللہ کی مخلوق نے مرد وعورت میں کام کی تقسیم کا فلسفہ بھی سمجھانے میں تکلف نہیں کیا۔ مادہ مچھر ہی جراثیم کا بوجھ لیے لیے پھرتی ہے نر مچھر تو محض اڑتا اور عیش کرتا ہے۔ ہندوستان میں گو کہ دو طرح کے مچھر ہوتے ہیں، کیولیکس اور اینا فلیز لیکن ان دونوں کی خاص طور سے انا فلیز کی پچاس سے بھی زیادہ ذاتیں اور برادریاں ہیں لیکن ان میں آپس میں کوئی تصادم نہیں ہے ۔سب مچھر ہی کہے اور سمجھے جاتے ہیں اور جب اپنا شکار پاتے ہیں تو سب ایک ہی صف میں نظر آتے ہیں۔ پھر دیکھئے اس قدر سیکولرہیں کہ مندر ہو کہ مسجد، بتخانہ ہو کہ میخانہ، شادی بیاہ کی محفل ہو یا صف ماتم بچھی ہو، گوشہ تنہائی ہو کہ پارک، ہر جگہ موجود ہر جگہ اپنے کام پر مستعد۔
واقعہ یہ ہے کہ اگر اللہ کی یہ مخلوق نہ ہوتی تو لے کر یو این او کے دفتر سے دور دراز گاؤں کی ایک چھوٹی سی دوکان تک میں سناٹا ہی سناٹا ہوتا۔ کس قدر بے کاری اور بے روزگاری ہوتی ، کتنے لوگ نانِ شبینہ کو ترستے، کتنے گھر بے نور ہوتے، اندازہ لگانا مشکل ہے۔غرض کہ:
نہیں ہے چیز نکمی کوئی زمانے میں
کوئی برا نہیں قدرت کے کارخانے میں