وہ کمرے میں اپنے معمولی بستر پر، جو فرش پر بچھا ہوا تھا، چت لیٹا چھت کی شہتیروں کو تک رہا تھا جس پر جابجا مکڑی نے جالا بن دیا تھا۔ تنے ہوئے مکڑی کے جالوں میں مکھیاں اور پتنگے پھنسے ہوئے تھے جو مکڑی کے پیٹ بھرنے کے لیے کافی تھے۔ شاید اسی لیے مکڑی جالے کے درمیان اپنی سوئیوں جیسی لمبی تانگیں پھنسائے بالکل ساکت تھی۔ اس کا پیٹ بھرا تھا، وہ مکڑی کو دیکھ کر یہ نہیں سوچ رہا تھا بلکہ کچھ اور ہی سوچ رہا تھا۔
کمرے کے کونے میں رکھے اسٹول پر سیاہ ٹیبل فین اپنی مخصوص آواز سے گھوم رہا تھا جس کی ہوا میں اس کی بیوی او ربیٹا سوگئے تھے او روہ! وہ آفس سے تھک ہار کر آنے کے باوجود بھی کافی دیر سے چت لیٹا تھا اور مکڑی کے جالے کو تک رہا تھا۔
بستر پر لیٹنے کے بعد اس نے آفس سے لایا ہوا اخبار کھول کر دیکھا تھا۔ خبروں کی سرخیاں پڑھ کر اس کے لب الٹے نصف قوس کی شکل میں بھنچ گئے تھے۔ بھوئیں سکڑ گئی تھیں اور پیشانی پر شکنوں کا جال بالکل مکڑی کے جالے کی طرح تن گیا تھا۔ پھر اس نے اخبار بے دلی سے خود کلامی کرتے ہوئے ایک طرف ڈال دیا تھا۔
’’ہشت! ساری دنیا اب بگڑ گئی ہے کوئی خبر ایسی نہیں جسے پڑھ کر روحانی تسکین ملے، دہشت، وحشت، کرپشن، انشن،ٹینشن سے بھری خبریں! ذہنی سکون کے لیے اخبار پڑھنا اور ٹی وی دیکھنا بند کر دینا چاہیے۔ خود کلامی کرنے کے بعد وہ مکڑی کے جالے کو تکنے لگا تھا اور سوچ رہا تھا کہ اس کے اندر بھی شاید کوئی مکڑی آبیٹھی ہے یا ہوسکتا ہے کہ اس کی دنیا میں کوئی انجان مکڑی ہے جو وجود کے اندر اور باہر روز جال بنتی رہتی ہے۔ وہ سوچ رہا تھا کہ جس طرح میرے کمرے کی شہتیروں میں تنے مکڑی کے جالوں میں مکھیاں اور پتنگے پھنستے ہیں، ایسے ہی میں اس مکڑی کے جال میں پھنس گیا ہوں۔ مجھے ایسا ہی لگ رہا ہے …کیوں لگ رہا ہے ایسا… نہ جانے کیوں؟ میں کیا کروں، اس نے جھنجلا کر اپنے سر کے بالوں کو مٹھیوں سے بھینچ کر چھوڑ دیا اور بستر سے اٹھ کر لائٹ آف کر کے پھر بستر پر آکر لیٹ گیا۔
زیرو بلب کی مدھم روشنی میں اس نے آنکھیں بند کرلیں تھیں۔ مگر اس کی آنکھوں میں اندھیرا نہیں تھا۔ مکڑی کا جالا تھا اور اس میں پھنسے ہوئے پتنگے… اس کا وجود پتنگا بن گیا اور وہ مکڑی کے جال میں پھنس گیا۔ بے قراری اس کے اندر بڑھنے لگی۔ اس نے کروٹ بدلی، پھر چت لیٹ گیا اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں ایک دوسرے میں پیوست کر کے ہاتھ سینے پر رکھ لیے اور آنکھیں کھول دیں۔ آنکھیں کھلتے ہی اس کے تصور سے مکڑی کا جالا اور پتنگے غائب ہوگئے۔ اس نے آنکھیں موند لیں۔ اب اسے تصور میں اپنا ہسنتا کھیلتا لڑکا نظر آنے لگا۔ وہ سوچنے لگا کہ شاید میرا بچپن بھی ایسا ہی رہا ہوگا، کوئی فکر نہیں، پریشانی نہیں، الجھنیں نہیں، کوئی لوٹا دے مجھے میرا بچپن! امی کہا کرتی تھیں کہ میں بچپن میں بہت شریر تھا۔ شرارت سنجیدگی میں کب اور کیسے بدلی مجھے پتہ ہی نہیں چلا۔ انسان اپنے وجود سے کتنا بے خبر ہے۔ کتنا بے بس، کتنا مجبور۔
وہ آنکھیں کھول کر دائیں طرف سوئے اپنے پانچ سالہ لڑکے کی طرف دیکھنے لگا، جس کے چہرے پر بلا کی معصومیت تھی سکون تھا، جسے میں کون سی تشبیہ دوں اس کی معصومیت کو اور اس کے چہرے پر چھائے بھولپن کو، میرے پاس لفظ نہیں ہے۔ لغت میں ہوں گے تو میں نہیں جانتا، وہ اپنے بیٹے کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اس کے چہرے کو تک رہا تھا۔
بیٹا میٹھی نیند سویا ہوا تھا۔ اسے خیال آیاکہ میرا بیٹا بستر پر لیٹتے ہی مجھ سے یا اپنی امی سے کہانی سنانے کی فرمائش کرتا ہے اور پھر کہانی سنتے سنتے ہی سو جاتا ہے۔ کل شاید زندگی کا قصہ اسے سونے نہیں دے گا۔ شاید ہر خواہش پر اس کا بھی دم نکلے گا، خواہشیں اسے سکون سے جینے نہیں دیں گی، فکریں، الجھنیں اسے سونے نہیں دیں گی۔
وہ اپنے بیٹے کے مستقبل کے بارے میں سوچ کر بے قرار ہونے لگا فکر کی مکڑی کا جال اس کے ذہن میں تن گیا اور اس کا بیٹا پتنگے کی طرح مکڑی کے جال میں اسے پھنسا دکھائی دینے لگا۔
عالم بے قراری میں اس نے کروٹ بدلی، بائیں طرف اس کی بیوی سوئی ہوئی تھی۔ بیوی کو دیکھ کر وہ خود سے کہنے لگا۔ میری بیوی فوراً سوجاتی ہے۔ بستر پر لیٹی، آنکھیں بند کیں اور چلی گئی نیند کی آغوش میں۔ وہ دن بھر کام کرتے کرتے تھک جاتی ہے۔ کھانا بنانا، گھر کی صاف صفائی کرنا، برتن مانجھنا، روز کپڑے دھونا اور پھر ان کو استری کرنا، میری چھوٹی بہن، ثریا کو سلائی سکھانا اور کتنے ہی کام ہیں اسے روزانہ کرنے کے لیے۔
’’ثریا‘‘ کا خیال آتے ہی اس کے کانوں میں بیوی کی سرگوشی گونجی او راس گونج کے ساتھ ہی اسے فنکشن ہال کا کرایہ جہیز کی لمبی فہرست، طعام کا خرچ سب یاد آگیا۔ اس کی بے قراری میں اضافہ ہوگیا۔ بیوی کی سرگوشی اس کے کانوں میں صدائے بازگشت بن گئی۔ ثریا جوان ہوگئی۔‘‘
بے قراری کی حدت کم کرنے کے لیے اس نے ایک سرد سانس اپنے سینے میں کھینچی اور چت لیٹ کر زیرو بلب کی مدھم روشنی میں مکڑی کے جال میں پھنسے پتنگے کو تکتے ہوئے بے بسی کے احساس سے بھری ایک لمبی ہنکار اس کے منہ سے نکلی ’’ہوں…‘‘
اس کی ہنکار سن کر پاس سوئی بیوی ایسے جاگ گئی جیسے کسی نے اسے جھنجھوڑ کر جگا دیا ہو۔
’’کیوں، آپ ابھی تک سوئے نہیں؟‘‘
’’نیند نہیں آرہی ہے۔‘‘ بے زارگی سے وہ بولا۔
بیوی فوراً اٹھ بیٹھی۔ ’’لائیے، میں آپ کا سر دبائے دیتی ہوں، نیند آجائے گی۔‘‘ بیوی کے لہجے میں ہمدردی تھی، خلوص تھا۔
’’نہیں کلثوم رہنے دو، تم دن بھر کام کرتے کرتے تھک جاتی ہو، آرام کرو۔‘‘
’’آپ کی خدمت میں ہی مجھے آرام ملتا ہے، یہی میرا سب سے بڑا سکھ ہے۔‘‘ یہ کہہ کر کلثوم کا ہاتھ شوہر کے سر کی طرف بڑھا اور پھر بیوی کی مخروطی انگلیاں شوہر کے سر میں سرسرانے لگیں۔
’’آپ کو نیند کیوں نہیں آرہی ہے کیا پریشانی ہے!‘‘ بے قرار ہوکر کلثوم نے پوچھا۔
’’بس، ذرا ثریا کا خیال آگیا تھا، اس کی شادی کی فکر کھائے جا رہی ہے۔ آج کل نکاح کتنا مہنگا ہوگیا ہے۔ کاش! مسلمان سنت نبوی پر عمل کر کے نکاح کو آسان بناتے۔‘‘
’’ہاں!‘‘ کلثوم نے افسردہ لہجے میں حمایت کی پھر کچھ توقف کے بعد شوہر سے پراعتماد لہجے میں کہا ’’پریشان مت ہوئیے، اللہ پر بھروسہ رکھیے۔ وہ بڑا کارساز ہے!‘‘
’’ہاں کلثوم! تم سچ کہہ رہی ہو۔‘‘ دھندلی روشنی میں اس نے اپنی بیوی کے چہرے پر چمک دیکھی او رلبوں پر مسکراہٹ۔
’’توکلت علی اللہ۔‘‘ بیوی پھر اس سے کہنے لگی ’’اللہ پر بھروسہ ہی انسان کی زندگی میں سکون و اطمینان لاتا ہے!‘‘
’’بے شک!‘‘ اس نے اپنے دل میں سرگوشی کی پھر اس کے اندر بسی ہوئی بے قراری۔ بے چینی جانے کہاں چلی گئی۔ وہ اپنی دین دار بیوی کو نہایت پیار بھری نظروں سے تکنے لگا۔
’’بس اب سوجائیے، مل گیا نا فکر و پریشانی سے نجات کا فارمولہ! ’’یہ کہتے ہوئے کلثوم کی انگلیاں شوہر کے بالوں میں تیزی سے گردش کرنے لگیں اس گردش کے ساتھ ہی اس کی کلائی میں بھری چوڑیاں کھنکنے لگیں۔
بیوی کی انگلیوں کی فرحت بخش سرسراہٹ اور چوڑیوں کی پیاری کھنک سے ہولے ہولے شوہر کی پلکیں بوجھل ہوگئیں، عالم غنودگی میں وہ بولا ’’کلثوم! مجھے نیند آرہی ہے تم بھی اب سوجاؤ، کل چھت سے مکڑی کے جالے صاف کردینا!‘‘lll