قریش میں تین آدمی ایسے تھے جنھوں نے رسول اللہؐ کی دعوت کی سخت مزاحمت کی اور آپؐ کے صحابہؓ کو شدید عقوبتوں سے دوچار کیا کہ آپؐ ان بدبختوں کے حق میں بد دعا کرنے پر مجبور ہو گئے۔ ’’ تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی: ’’(اے پیغمبرؐ)فیصلہ کے اختیارات میں تمھارا کوئی حصہ نہیں، اللہ کو اختیار ہے کہ چاہے انھیں معاف کرے، چاہے سزا دے کیونکہ وہ ظالم ہیں۔‘‘
یہ آیت نازل ہوئی، تو رسول اللہؐ سمجھ گئے کہ اس میں بد دعا سے رک جانے کا حکم ہے۔ لہٰذا آپؐ نے ان لوگوں کا معاملہ اللہ پر چھوڑ دیا۔ قریش کے ان تین آدمیوں میں سے ایک حضرت عمروبن العاص تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے لیے توبہ کا راستہ کھول دیا اور ان کے اوپر اپنی رحمت کرتے ہوئے انھیں اسلام کی ہدایت نصیب فرمائی۔
حضرت عمروبن العاصؓ اوّلین مسلمانوں میں سے نہیں تھے۔ ا ٓپؐ حضرت خالدؓ بن ولید کے ہمراہ فتح مکہ سے کچھ دیر پہلے اسلام لائے۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ آپؐ کے اسلام کی اِبتدا حبشہ کے حکمران جناب نجاشی کے ہاتھوں ہوئی۔ بکثرت حبشہ جانے اور جناب نجاشی کے لیے قیمتی تحائف لے جانے کی وجہ سے حضرت نجاشی آپؐکو جانتے تھے اور آپ کا احترام کرتے تھے۔ آپ کے آخری سفر حبشہ کے دوران جناب نجاشی سے ملاقات کے موقع پر رسول اللہؐکا تذکرہ ہوا تو شاہِ حبشہ نے آپ سے پوچھا کہ اس آدمی پر ایمان کیوں نہیں لاتے اور اس کی اتباع کیوں نہیں کرتے جب کہ وہ اللہ کی طرف سے سچا رسول ہے؟
آپ نے حضرت نجاشی سے یہ کہتے ہوئے پوچھا:کیا وہ ایسا ہی ہے؟
جناب نجاشی نے جواب دیا:’’ہاں…عمرو!میری بات مانو اور اس کی اتباع اختیار کرلو۔ اللہ کی قسم وہ حق پر ہے۔ وہ اپنے مخالفین پر ضرور غالب آکر رہے گا!‘‘ اس گفتگو کے بعد حضرت عمروؓ فوراً اپنے وطن واپسی کے لیے عازم سفر ہوگئے۔ اللہ رب العالمین پر ایمان لے آنے کی غرض سے مدینے کا رْخ کرلیا۔ راستے میں حضرت خالد بن ولیدؓ سے ملاقات ہوگئی جو مکہ سے آرہے تھے۔ یہ بھی رسالت مآبﷺ کے دست مبار ک پر بیعت ہونے کے ارادے سے آئے تھے۔رسولؐ نے جونہی ان دونوں کو آتے دیکھا، تو آپ کا روئے مبارک شاداں و تاباں ہوگیا۔ آپ نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا: ’’مکہ نے اپنے جگر کے ٹکڑوں کو تمھاری طرف پھینک دیا ہے۔‘‘
دربارِ رسالتؐ میں پہنچ کر جناب خالدؓ آگے بڑھے اور دست رسول اللہؐ پر بیعت کی۔ پھر حضرت عمرو ؓ کی باری آئی، تو آپ نے رسول اللہؐ سے عرض کیا: ’’یا رسول اللہؐ! میں آپ سے اس شرط پر بیعت کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ میرے گذشتہ گناہوں کو معاف فرمادے!‘‘ رحمت للعالمینؐ نے فرمایا: ’’عمرو!بیعت کرو…!اسلام پہلے(گناہوں) کی ہر چیز مٹا ڈالتا ہے!‘‘
حضرت عمروؓ نے بیعت کی اور اپنی ہوشیاری و چالاکی اور شجاعت و بہادری کو دین اسلام کی خدمت پر لگا دیا۔ جب رسول اکرمؐ کا وصال ہوا، تو جناب عمروؓ ، عمان کے گورنر تھے۔ خلافت فاروقی میں آپ نے شام کی جنگوں اور پھر مصر کو روم سے آزادی دلانے کے لیے دادِ شجاعت دی۔ آپ کا ایک جلیل القدر صحابی اور جرنیل کا کردار تاریخ اسلام کا روشن باب ہے۔
مؤرخین نے جناب عمروؓ کو ’’فاتح مصر‘‘ کے نام سے یاد کیا ہے لیکن ہمارے نزدیک اس لفظ کے معنی میں اِختصار بھی ہے اور اِفراط بھی! جناب عمروصحیح حقدار اس بات کے ہیں کہ ہم آپ کو ’’محررِمصر‘‘ (آزادی دہندۂ مصر)کہیں۔
حضرت عمروبن العاص اور آپ کے لشکر نے نہ صرف مصر کو فتح کیا بلکہ اس کے سامنے ایسی راہ کھول دی کہ وہ اپنے مقدر کو حق کے ساتھ وابستہ کرلے اور کلمات الٰہی اور اصولِ اسلام کی روشنی میں اپنے ا?پ کو دیکھ لے۔
جناب عمروبن العاص کی دلی خواہش یہ تھی کہ اہلِ مصر اور اس کے قبطی جنگ سے علیحدہ رہیں تاکہ جنگ صرف آپ کے اور ان رومی لشکروں کے درمیان ہو جو ان علاقوں کو دبائے بیٹھے ہیں اور اس کے باشندوں کا لقمۂ دہن بھی چھین لیتے ہیں۔ جب ہم آپ کو نصرانی زعما اور پادریوں سے مذاکرات کرتے دیکھتے ہیں، تو آپ یہ کہتے سنائی دیتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ نے محمدؐ کو حق کے ساتھ بھیجا اور اس کا حکم دیا اور آپ نے اپنی رسالت کا حق ادا کیا اور ہمیں ایک واضح راستے پر ڈال دینے کے بعد دنیا سے چلے گئے۔
آپ نے ہمیں جن باتوں کا حکم دیا ان میں سے ایک یہ ہے کہ ہم دوسروں کو گفتگو کا موقع دیں۔ لہٰذا ہم تمھیں اسلام کی دعوت دیتے ہیں جو اس دعوت کو قبول کرلے وہ ہم میں سے ہے، اس کے لیے وہی حقوق ہیں جو ہمارے لیے ہیں اور اس کے اوپر وہی فرائض عائد ہوتے ہیں جو ہمارے اوپر عائد ہیں اور جو اسلام کی طرف دی جانے والی ہماری دعوت قبول نہ کرے اس کے اوپر ہم جزیہ عائد کرتے ہیں اور اس کی حفاظت و دفاع کا ذمہ اپنے سر لیتے ہیں۔
ہمارے نبیؐ ہمیں بتا گئے ہیں کہ عنقریب مصر تمھارے لیے فتح ہوجائے گا۔ آپ نے ہمیں اس کے باشندوں سے اچھا سلوک کرنے کی نصیحت کی ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’عنقریب مصر تمھارے لیے فتح ہوجائے گا لہٰذا اس کے قبطیوں سے اچھا سلوک کرناکیونکہ اْن کے ساتھ ہماری ایک لحاظ سے رشتہ داری جو ہے۔‘‘ لہٰذا جس چیز کی دعوت ہم نے تمھیں دی ہے اگر تم نے اس کو قبول کرلیا تو تمھارے لیے ضمانت ہے۔!!
حضرت عمرو بن العاص اپنی بات سے فارغ ہوئے تو کئی پادری اور راہب پکار اٹھے: ’’جس رشتے کا خیال رکھنے کی تمھارے نبیؐ نے تمھیں نصیحت کی ہے وہ بڑا دور کا رشتہ ہے یہاں تک انبیا کے سوا کوئی نہیں پہنچ سکتا!!‘‘ یہ گفتگو اس باہمی مصالحت کی ابتدا تھی جو جناب عمرو اور اَقباطِ مصر کے درمیان متوقع تھی حالانکہ اس کو سبوتاژ کرنے کے لیے رومی کمانڈروں نے بہت کوشش کی۔
حضرت عمرو کی ظاہری شکل و صورت، چال ڈھال اور طرزِ گفتگو اس جانب اشارہ کرتی تھی کہ آپ حکمرانی کے لیے ہی پیدا ہوئے ہیں۔ اس بارے میں یہاں تک بیان کیا گیا ہے کہ ایک روز حضرت عمر بن خطابؓ نے آپ کو آتے دیکھا، تو آپ کی چال پر مسکرادیے۔ پھر فرمایا: ’’ابو عبداللہ بحیثیت حکمران ہی زمین پر چلتا جچتا ہے!‘‘ اور سچ تو یہ ہے کہ ابو عبداللہ نے بھی اپنے آپؐ کو اس کا حقدار ثابت کرنے میں کسی بخل سے کام نہ لیا۔
حضرت عمروبن العاص ذہانت میں تیز، اظہار رائے میںمضبوط اور معاملہ فہمی میں دور اندیش تھے۔ آپؐ کو ان صفات میں اس قدر اعلیٰ صلاحیت عطا ہوئی تھی کہ امیر المومنین حضرت عمرؓ بھی اس کا اعتراف کیا کرتے تھے۔ حضرت عمرؓ جب کسی آدمی کو دائو پیچ میں بے بس دیکھتے تو ہاتھ پر ہاتھ مار کر کہتے:’’سبحان اللہ! اس کو پیدا کرنے والا اور عمروبن العاص کو پیدا کرنے والا تو ایک ہی اِلہٰ ہے!‘‘
آپؐ جرأت و پیش قدمی میں بھی آخری حدوں کو پہنچے ہوئے تھے۔ کئی مواقع پر آپؐ نے اپنی ذہانت کو جرأت کے ساتھ شامل کرلیا، تو اس کو بزدلی خیال کیا گیا حالانکہ یہ دائو پیچ کاہی ایک اظہار تھا۔ آپؐ تباہ کن بند راستوں میں گھر جانے کے موقع پر حیلہ سازی کو حیران کن مہارت سے استعمال میں لاتے! امیرالمومنین حضرت عمربن خطابؓ آپؐ کی ان صلاحیتوں کو جانتے تھے اور بخوبی ان کاادراک رکھتے تھے۔ جب حضرت عمر نے آپؐکو مصر کی طرف بھیجنے سے قبل شام کی طرف بھیجا، تو لوگوں نے کہا شام میں رومی لشکر کی کمانڈ’’ارطبون‘‘ کررہا ہے۔ یعنی مقابلے میں ایک ایسا کمانڈر ہے جو حد سے بڑھے ہوئے چالاک دلیر کمانڈروں میں سے ہے، تواس موقع پر جناب عمرؓبن خطا ب کا جواب تھا:’’ہم نے ارطبونِ روم کے مقابلے میں ارطبونِ عرب کو بھیجا ہے، دیکھتے رہو کہ صورتِ حال کیسے واضح ہوتی ہے!‘‘
پھر صورت حال ارطبونِ عرب جنابِ عمرو بن العاص کے ارطبونِ روم پر ہلاکت آمیز غلبہ کے ساتھ واضح ہوگئی۔ ارطبونِ روم اپنا لشکر چھوڑ کر مصر کی طرف بھاگ کھڑا ہوا۔
واقعہ یہ ہے کہ جب ارطبون یعنی کمانڈر نے آپ کو بات چیت کے لیے دعوت دی، تو اس نے اپنے کچھ آدمیوں کو حکم دے رکھا تھا کہ جب یہ مسلمان کمانڈر قلعہ کے اندر آجائے، تو اس کے واپسی کے راستے پر پتھر ڈال دو تاکہ جب ان پتھروں سے گزر کر وہ واپس جانے لگے، تو اس کو گھیر کر مار ڈالنا ممکن ہوسکے۔ جناب عمرو رومی کمانڈر کے پاس آئے، تو اس وقت وہاں کا ماحول بالکل اطمینان بخش تھا۔ کسی قسم کی کوئی مشکوک صورت حال نہ تھی۔ ملاقات ہوئی، اختتام کو پہنچی اور حضرت عمرو قلعہ سے باہر جانے کے لیے مڑے، ابھی دو چار قدم ہی اْٹھائے تھے کہ قلعہ کی دیواروں پر کچھ مشکوک حرکات ہوتی دیکھیں جس سے خطرہ محسوس ہوا۔
یہ دیکھ کر آپؐ فوراً بڑے اطمینان اور بے خوف انداز میں مسکراتے اور پْراعتماد چہرے کے ساتھ واپس رومی کمانڈر کے پاس آئے کہ گویا آپ کسی چیز سے کبھی خوفزدہ ہوئے ہی نہیں اور کوئی شک و شبہ آپ کے ذہن میں داخل ہی نہیں ہوا۔ آپ کمانڈر کے پاس گئے اور اس سے کہا:’’مجھے آپ کو ایک بات بتانا یاد نہیں رہا۔ دراصل جہاں میں مقیم ہوں وہاں میرے ساتھ رسول اللہؐ کے ان اوّلین ساتھیوں کی ایک جماعت ہے جن کا مشورہ لیے بغیر امیر المومنین کوئی فیصلہ نہیں کرتے اور اسلام کا کوئی لشکر ان کی قیادت اور کمانڈر کے بغیر نہیں بھیجتے۔ میرا خیال ہے کہ میں ان کو بھی تمھارے پاس لے آئوں تاکہ وہ بھی تمھاری بات اسی طرح سن لیں جس طرح میں نے سنی ہے اور جس طرح معاملہ میرے اوپر واضح ہوا ہے ان کے اوپر بھی واضح ہوجائے۔
رومی کمانڈر نے جناب عمرو کی اس بات کو سادگی پر محمول کیا اور سمجھا کہ اس کی مہلتِ عمر تو اب پوری ہوچکی ہے۔ یہ ہماری اس تدبیر سے بچ کر کہاں جاسکتا ہے لہٰذا اس کی تجویز سے اتفاق کر لینے میں کیا مضائقہ ہے اور پھر حضرت عمرو کی بات سے اتفاق کرلیا۔ اگلی صبح جب آپ اپنا لشکر لے کررومی کمانڈر سے ملاقات کے لیے آئے، تو زعمائے مسلمین، نوجوانانِ اسلام اور لشکر اسلام کے اسلحہ سے لیس بڑے بڑے کمانڈر آپ کے ہمراہ تھے۔ آپ اپنی اس گھوڑی پر سوار تھے جو عجیب تمسخر آمیز انداز میں ہنہنا رہی تھی۔ شاید یہ گھوڑی بھی اپنے مالک کی ذہانت اور کمال ہوشیاری سے بخوبی واقف تھی!
اس طرح آپ نے رومی کمانڈر کی اس تدبیر کو ناکام بنا دیا جو اس نے آپ کو قتل کرنے کے لیے اختیار کی تھی۔ ۴۳ہجری میں آپ نے مصرمیں وفات پائی۔ اْن دنوں آپ وہاں کے گورنر تھے۔ زندگی کے ان آخری لمحات میں آپ نے اپنی زندگی پر یوں تبصرہ کیا: ’’پہلے میں کافر تھا…اس وقت میں رسولؐ کا شدید ترین مخالف تھا۔ اگر ان دنوں مجھے موت آجاتی، تو جہنم میرے اوپر واجب ہوجاتی! پھر میں نے رسولؐ سے بیعت کی تو میری آنکھوں میں رسول اللہؐ سے زیادہ محبوب اور جلیل القدر کوئی نہ رہا۔ اگر مجھ سے یہ کہا جائے کہ میں اپنی بساط بھرآپ کی توصیف بیان کروں تو مجھ میں یہ ہمت بھی نہیں کہ میں آپ کے جلال سے اپنی آنکھیں پوری طرح بھر سکوں۔ اگر ان دنوں میں فوت ہوجاتا تو امید تھی کہ میں اہلِ جنت میں شامل ہوجاتا۔
پھر اس کے بعد حکمرانی اور ایسی چیزوں کی صورت میں مجھ پر آزمائش آئی کہ مجھے نہیں معلوم کہ وہ میرے حق میں تھیں یا میرے خلاف!‘‘ پھر آپ نے بڑے انکسار کے ساتھ اپنی آنکھیں آسمان کی طرف اٹھائیں اور اپنے رب سے سرگوشی کرتے ہوئے کہا: ’’اے اللہ! تیرے سوا کوئی معاف کرنے والا نہیں لہٰذا مجھے معاف فرما! اور تیرے سوا کوئی عزیز و ناصر نہیں لہٰذا میری نصرت فرما! اے اللہ! اگر میرے اوپر تیری رحمت کا نزول نہ ہوا تو میں ہلاک ہوجانے والوں میں شامل ہوجائوں گا!‘‘
آپ اپنی انہی آہ و زاریوں میں تھے کہ آپ کی روح محوپرواز ہوگئی۔ آپ کے آخری الفاظ لا اِلہ الا اللہ تھے۔ آپ اسی سرزمین مصر میں آسودہ خاک ہوئے جس کو آپ نے اسلام کی راہ دکھائی اور اس کی پشت پر بیٹھ کر تعلیم بھی دیتے رہے اور حکمرانی بھی کرتے رہے۔ جی ہاں مصر کی اس پرانی مسجد کی چھت کے نیچے کھڑے ہوکر جو مصر کی سب سے پہلی مسجد تھی جس میں اللہ اَحد و واحد کا نام بلند ہوا اور اس کے گوشوں سے کلام الٰہی کی نور افزا کرنوں اور اسلام کے زریں اصولوں نے قطعۂ ارضی کو منور کردیا۔ اللہ کے رسول ؐ نے کیا خوب فرمایا تھا کہ ’’مکہ نے اپنے جگر کا ٹکڑا تمھاری طرف پھینک دیا ہے۔‘‘ واللہ ایسا ہی تھا اور عمرو ب
ن العاص ایسے ہی تھے۔lll