مہاراشٹر کا طلاق بل

تنویر آفاقی

وقفے وقفے سے حکومت کی جانب سے مسلم پرسنل لا میں مداخلت اس بات کا اشارہ ہے کہ یا تو وہ خود ماضی میں اپنے ہی کیے ہوئے فیصلوں کو بھول جاتی ہے یا خاص طور سے مسلمانوں کے تعلق سے وہ جو بھی فیصلہ کرتی ہے، اس میں سنجیدہ کبھی نہیں ہوتی۔اس کا تازہ ترین ثبوت وہ بل ہے جو مہاراشٹر کے رواں سال کے بجٹ اجلاس کے موقع پر حکومت مہاراشٹر کی جانب سے اسمبلی میں پیش ہوا ہے۔
اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ مہاراشٹر حکومت شاہ بانو کیس والی غلطی کو دہرانے کا عزم کر رہی ہے۔ ورنہ ایسا ہر گز نہیں ہے کہ اس سلسلے کی معلومات اور مسلم پرسنل لا میں مداخلت پر مسلمانوں کے رد عمل کا اسے علم نہ ہو۔خبروں کے مطابق موجودہ بل مطلقہ خواتین کو ان کے سابقہ شوہروں کی املاک میں حصہ دلانے کے لیے لایا جارہا ہے۔ یعنی اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو طلاق دے دیتا ہے تو طلاق کے بعد بھی مطلقہ عورت اپنے شوہر کی املاک میں سے پچاس فی صد حصہ حاصل کرنے کی حق دار ہوگی۔
ہندوستان کثیراالمذاہب ملک ہے۔ اور سیکولر ملک ہونے کے ناطے اس کے لیے تمام مذاہب اور ان کے پرسنل لا کا احترام بھی لازم ہے۔ اس طرح کے معاملات سے متعلق قوانین بناتے وقت مختلف مذاہب کے پرسنل لا کو سامنے رکھ کر ہی کوئی قانون بنایا جانا چاہیے، تاکہ کسی بھی مذہب کا پرسنل لا مجروح نہ ہو۔ لیکن ہمارے ملک میں ایسا ہوتا نہیں ہے، یا ایسا کرنے کی کوشش بالقصد نہیں کی جاتی ہے۔بلکہ بیشتر حالات ومعاملات میں اس کی زد مسلم پرسنل لا پر ہی پڑتی ہے۔
ریاست یا مرکز کا قانون بنانے والوں کے لیے یہ ضروری ہونا چاہیے کہ وہ کوئی قانون بنانے سے پہلے ملک میں مختلف مذاہت کے قوانین کا مطالعہ لازما کر لیں۔حیرت ہے اس بات پر کہ مسلمان بار بار پرسنل لا اور اسلامی شریعت وقانون میں مداخلت پر اپنا احتجاج اور ناپسندیدگی درج کراتے آئے ہیں، اس کے باوجود حکومت کا رویہ کان پر جوں نہ رینگنے والا رہا ہے۔حکومت اگر سمجھنا چاہے تو اسے یہ بات سمجھ لینی چاہیے تھی کہ مسلمان اسلامی شریعت میں مداخلت بہر حال گوارا نہیں کر سکتے۔ اس سے یہی محسوس ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنا، ان کے قانون کے ساتھ کھلواڑ کرنا، اس کا مذاق اڑانا، حکومت نے اپنا شیوہ بنا لیا ہے۔
طلاق، مطلقہ اور اسلامی شریعت
اسلامی شریعت یا اسلامی قانون خواہ عائلی قانون ہو کوئی اور قانون، اس کی بنیاد قرآن اور حدیث ہے۔ اور اس اسلام کو ماننے والے ہر مکتب فکر کا اتفاق اور ایمان ہے کہ جن قوانین کی بنیاد براہ راست قرآن اور حدیث ہیں ، ان میں کسی بھی طرح کی اصولی تبدیلی کسی کے لیے بھی جائز نہیں ہے۔
اس موقع پر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں طلاق اور مطلقہ کے کیا حقوق و اختیارات ہیں، ان کا بھی مختصر طور پر ذکر کر دیا جائے۔
ہندو مذہب کی طرح اسلام میں نکاح سات جنموں کا رشتہ نہیں ہے لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ اسے جب چاہا ختم کر دیا۔تجرد اور سنیاس کیوں کہ اسلام میں جائز نہیں ہے ، اس لیے ا نسان کی فطری ضرورتوں کو پورا کرنے اور افزائش نسل کے لیے نکاح کا طریقہ رکھا گیا ہے۔ دو الگ خاندان سے دو الگ الگ مزاج رکھنے والے جب زندگی بھر کے لیے ایک رشتے میں جڑتے ہیں تو اس بات کا امکان ہے کہ ان کے درمیان نباہ نہ ہو سکے یا ان کے مزاج ایک دوسرے سے ہم آہنگ نہ ہو سکیں۔ ایسی صورت میں اسلام نے زبردستی اس کوسات جنموں کا رشتہ بنا کر مارے باندھے انھیں اپنی گاڑی کھینچنے پر مجبور نہیں کیا ہے۔بلکہ اس کے لیے طلاق کا طریقہ رکھا ہے۔دیگر مذاہب کے مقابلے میں اسلام ہی میں طلاق کا قانون بہت واضح اور قابل عمل بھی ہے پھر بھی اس نے اس قانون کے استعمال کی کھلی آزادی نہیں دی ہے بلکہ اسے ابغض الحلال کہا ہے۔ یعنی وہ چیز جو حلال ہوتے ہوئے بھی انتہائی ناپسندیدہ ہے۔اسی لیے اسلامی سماج میں طلاق کی شرح ہمیشہ کم سے کم رہی ہے۔اور بالعموم اسی وقت طلاق کی نوبت آتی ہے جب شوہر اور بیوی کے درمیان نباہ مشکل ہوجائے۔حقیقت یہ ہے کہ ہندستان میں غیر مسلموں میں طلاق کا رواج یا قانون اسلام کی ہی دین ہے۔ ورنہ ان کے یہاں تو اگر ایک بار کسی مرد سے عورت کی شادی ہو گئی تو وہ اپنے جسم پر شوہر کا نام کھدوا کر زندگی بھر کے لیے بلکہ سات جنموں کے لیے اسی کی ہوجاتی ہے ۔ اب وہ چاہے اسے کسی بھی طرح اور کسی بھی حال میں رکھے۔ شوہر کا اگر انتقال ہو گیا تو بھی کسی دوسرے مرد سے شادی نہیں کر سکتی تھی بلکہ اچھوتوں کی سی زندگی گزارنے پر مجبور ہوتی تھی جس کی وجہ سے عورتوں میں ستی ہونے کا رواج تھا، یعنی اپنے شوہر کی چتا میں کود کر خود زندہ جلا دیتی تھیں۔اس کے بر عکس اسلام میں شوہر و بیوی کے درمیان طلاق کے ذریعے علیحدگی ہونے کے بعد دونوں کے درمیان زوجیت کا رشتہ ختم ہوجاتا ہے تاکہ دونوں اپنی پسند اور خوشی سے دوبارہ زندگی خوشگوار طریقے سے گزار سکیں۔اسی لیے دونوں میں جدائی ہونے کے بعد ایک کو دوسرے پر نہ کوئی اختیار رہتا ہے ، نہ باہم ایک دوسرے پر کوئی حق اور نہ ہی شوہر کے وفات پا جانے یا طلاق دے دینے سے عورت اچھوت ہوجاتی ہے۔اسی لیے اسلام نے بیوائوں کی شادی کرنے کی ترغیب دی ہے۔ خود اللہ کے رسولﷺ نے بیوا عورتوں سے شادیاں کیں۔
غور کیا جائے تو یہ بالکل فطری قانون ہے۔اگر طلاق کے بعد بھی عورت شوہر کی املاک میں سے اپنا حصہ طلب کرنے لگے تو پھر مرد بھی یہ دعوی کر سکتا ہے کہ وہ طلاق دینے کے باوجود اس کو اپنے اختیار سے آزاد کیوں سمجھے؟وہ یہ کہہ سکتا ہے کہ شادی کے بعد اگر یہ میری جائیداد میں سے حصہ پاسکتی ہے کہ تو مجھے بھی اس پر کچھ نہ کچھ اختیار ہونا چاہیے۔ وہ یہ بھی دعوی کرسکتا ہے کہ میری جائیداد سے حصہ لے کر وہ کسی اور سے شادی نہیں کر سکتی۔ایک قابل غور بات یہ بھی ہے کہ اگر طلاق کے بعد عورت کواس کے سابق شوہر کی جائیداد میں سے پچاس فی صد یا کچھ بھی حصہ دیا جاتا ہے توعورت عدالت کے ذریعے طلاق حاصل کرنے کو معمول بنا سکتی ہے۔ہر طلاق پر اسے پچاس فی صد حصہ ملتا رہے گا۔دوسری جانب مرد اپنی جائیداد میں سے پچاس فی صد اسے دے کر باقی پچاس فی صد کا ہی مالک رہ جائے گا۔ خدا نخواستہ دوسری شادی کرنے کے بعد پھر طلاق کی نوبت آگئی تو اس کی جائیداد اس کی زندگی میں ہی تقسیم ہو جائے گی اور وہ خود کنگال ہوجائے گا۔یہ اس ناقص قانون کے وہ پہلو ہیں جو بالکل عیاں ہیں اور اگر خدا نخواستہ اسے نافذ کر دیا گیا تو خاندانی و عائلی زندگی کو تباہی اور انارکی سے روک پانا مشکل ہے۔
جہاں تک ہماری سمجھ میں بات آتی ہے وہ یہ ہے کہ اس طرح کا قانون بناتے وقت حکومت ، ریاستی ہو یا مرکزی، دراصل کنفیوژن کا شکار رہتی ہے۔وہ ایک طرف اسلام کے قانون طلاق کو بہتر سمجھتے ہوئے اسے اپنے عائلی قانون کا حصہ بھی بنانا چاہتی ہے لیکن دوسری طرف وہ ہندو مذہب کے اس اصول کو کہ بیوہ سے کوئی شادی نہ کرے، ختم کرنے کی ہمت بھی قانونی طور نہیں کرنا چاہتی۔اب وہ اس مخمصے میں ہے کہ کوئی ہندو عورت اگر طلاق پاجاتی ہے تو وہ اپنا خرچ کیسے چلائے گی جب کہ وہ ہندو مذہب کی رو سے دوسرے مرد سے شادی نہیں کر سکتی۔اگر حکومت ہندو قانون میں ایسی کوئی تبدیلی کرتی ہے تو اسے ہندئوں کی مخالفت کا سامنا کر نا پڑے گا۔حالانکہ اگر حکومت طلاق کے قانون کو صحیح سمجھتی ہے تو اسے بیوہ کی شادی کو بھی دستوری طور پر رواج اور ترغیب دینی چاہیے اور یہ بھی واضح کرنا چاہیے کہ شادی سات جنموں کا رشتہ نہیں بلکہ انسان کی فطری ضرورتوں کی تکمیل نیز افزائش نسل کے لیے مرد اور عورت کے درمیان ایک طرح کامعاہدہ ہے۔ اگر اس معاہدے پر دونوں بہ خوشی آمادہ ہیں تو ٹھیک ، ورنہ ان کے لیے آزادی ہے کہ وہ اس معاہدہ کو ختم کر دیں۔ بیوائوں کی شادیاں اگر ہندستانی معاشرے میں عام ہوجائیں تو حکومت کو اس طرح کا کوئی بل لانے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی جس قسم کا بل مہاراشٹر حکومت نے پیش کیا ہے۔
tanveerafaqui@gmail.com
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں