خاتون خانہ اگر سگھڑ اور کفایت شعار ہے تو مہنگائی اور کم آمدن میں بھی اچھا گزارہ ہو سکتا ہے اور اگر فضول خرچ ہے تو زیادہ آمدن میں بھی تنگی اور مفلسی کا رونا رہتا ہے۔ مرد کی ذمہ داری اگر مال کمانا ہے تو عورت کی ذمہ داری ہے کہ کفایت شعاری کے دائرے میں رہتے ہوئے اس مال کو جائز طور پر صرف کرے۔ دولت کمانا بھی کوئی آسان کام نہیں۔
ملک میں دن بہ دن مہنگائی بڑھ رہی ہے اور ہر چیز کی قیمت آسمان کو چھو رہی ہے۔ کم آمدنی والوں کا گزارا نہایت مشکل ہو چکا ہے۔ ان حالات میں خاتونِ خانہ کا کام ہے کہ اپنی سلیقہ مندی اور منصوبہ بندی کے ذریعے محدود آمدنی میں گھر چلائے اور اہل خانہ کو بھی مہنگائی کی پریشانی سے بچائے۔
عموماً کچھ عادتیں ایسی روزمرہ زندگی کا حصہ بن جاتی ہیں جن کے باعث گھریلو بجٹ ڈولنے لگتا ہے۔ خاتون خانہ عقل مندی اور سلیقہ مندی سے اپنے آنگن کو نہ صرف آسودگی اور خوش حالی میں ڈھال سکتی ہیں بلکہ مہنگائی کے جن کو بھی قابو میں کر سکتی ہے۔بڑھتے اخراجات سے نمٹنے کے لیے بدلتی ترجیحات اور حکمت عملی کارگر ثابت ہوسکتی ہے۔ اسی لیے اپنی حکمت عملی از سرے نو ترتیب دیں۔
اس سلسلے میں سب سے اہم اصول کفایت شعاری کا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ’’قناعت اور کفایت شعاری معاشی مسائل کا نصف حل ہے۔‘‘ اس نقطے کو ذہن میں رکھیں اور درج ذیل کاموں کو انجام دیں:
1۔ پورے مہینے کے لیے ملنے والا خرچ اخراجات سے کم ہو تو قطعی پریشان ہونے کی ضرورت نہیں بلکہ کوشش کریں کہ اس میں سے بیس فیصد حصہ نکال کر الگ کر لیں جو غیر متوقع ضرورت پڑنے پر مدد دے گا اور کسی سے ادھار مانگنے کی نوبت نہیں آئے گی۔ شادی بیاہ، عزیز و اقارب کی کسی تقریب، دعوتوں، تحفے تحائف، مہمانوں کی آمد پر یا کسی اور ضرورت پر خرچ بھی کیا جاسکتا ہے۔
2۔ مہینے بھر کا خشک سوداسلف اکٹھا خرید لیں۔ یہ سودا بے تکی مقدار میں نہیں بلکہ صرف ضرورت کا درست اندازہ کرکے اس کے مطابق ہی خریدیں۔ خریداری کے لیے ایسی جگہ کا انتخاب کریں جہاں دام بھی مناسب ہوں اور معیار میں بھی بہتر ہو اور خریداری پر ڈسکاؤنٹ بھی مل سکتا ہو۔
دوران خریداری ایسی اشیا کی طرف ہاتھ بڑھانے سے گریز کریں، جن کی ضرورت کم ہی پڑتی ہو۔ اکثر غیر ضروری اشیا کی خریداری بجٹ پر بوجھ بنتی ہے۔
3۔ گھر کے کام جتنا سرانجام دے سکتی ہیں، کوشش خود کرنے کی کریں۔ اگر بجٹ اجازت دیتا ہے تو ماسی وغیرہ رکھنے میں بھی کوئی حرج نہیں لیکن خود کام کرنے سے جسمانی ورزش تو ہوگی ہی اور کئی بیماریوں سے بھی چھٹکارا ملے گا۔
4۔ بچوں کے لنچ بکس اور مہمانوں کو پیش کرنے کے لیے اسنیکس گھر میں ہی بنا کرپیش کیا کریں۔ یہ بازار کی نسبت کم قیمت اور زیادہ صحت بخش رہتا ہے، بس تھوڑی سی محنت درکار ہے۔ بچے بھی خوش اور مہمانوں کی آمد پر بھاگ دوڑ سے بھی بچا جاسکتا ہے۔ بازاری جوس، کولڈ ڈرنکس کے بجائے لیموں پانی، لسی یا گھر کا بنا شربت استعمال کریں۔
5۔ ضروری نہیں کہ ہر فنکشن کے لیے نئے جوڑے ہی خریدے جائیں۔ استعمال شدہ فینسی جوڑوں کو دوبارہ استعمال میں لانے میں قباحت ہرگز نہیں ہونی چاہیے۔ آج کل کی تیز رو زندگی میں کسی کو اپنے سنبھالے ہوئے کپڑے ذہن سے محو ہوجاتے ہیں تو کسی اور کے کیا یاد رہیں گے؟ ویسے بھی تقریبات میں ہر کوئی اپنے آپ میں ہی مگن ہوتا ہے۔ اگر یکسانیت سے دل اکتا جائے تو سوٹ کے ساتھ دوپٹہ اور دوپٹے کے ساتھ سوٹ بدل دیں۔ آج کل تو فیشن بھی ہر کسی کا اپنا ہی ایجاد کردہ ہے۔
6۔ کپڑوں کی سلائی پر اکثر بے دریغ اور بے تحاشا پیسہ خرچ کیا جاتا ہے۔ کوشش کریں کہ کم از کم روز مرہ کے پہننے والے جوڑے کی سلائی کریں۔ درزی سے کپڑے سلوائے جائیں تو جتنے کا سوٹ ہوتا ہے اس قیمت کے قریب قریب ہی سلائی بھی بن جاتی ہے۔ سلائی سیکھنے کے لیے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، یوٹیوب پر استاد موجود ہے نا۔
7۔ مختلف موسموں کے آخر میں اکثر بازار سیل کی بہار سے جگمگاتے ہیں۔ ان سے فائدہ اٹھاتے ہوئے برانڈڈ سوٹ خرید لیے جائیں۔ یہ عام دنوں کے مقابلے میں قدرے کم قیمت اور پہنچ میں ہوتے ہیں۔
6۔ اگر آپ تعلیم یافتہ ہیں تو بچوں کو مہنگے ٹیوشن سینٹرز میں بھیجنے کی بجائے خود توجہ دیں اور خود پڑھائیں۔ اسکول اور ٹیوشن، دہرا بوجھ اپنے کاندھوں پر نہ ڈالیں۔ ماں زیادہ خلوص اور محنت سے پڑھاسکتی ہے۔ اس طرح آہستہ آہستہ بچے کو ازخود پڑھنے کی عادت پڑ جاتی ہے اور وہ ٹیوشنز کا محتاج نہیں رہتا۔
8۔ کچن گارڈننگ ضرور کریں۔ اس کام میں بچوں کو بھی ساتھ لگا لیں ، وہ بہت شوق سے ساتھ دیں گے۔ ضرور ی نہیں کہ گھر میں کیاریوں کے لیے زمین موجود ہو۔ جتنی بھی زمین میسر ہے اس میںکسی سبزی کا بیج بویا جاسکتا ہے۔ گملے ، گھی کے خالی ڈبے ، پلاسٹک کی بوتلیں بھی کام میں لائی جاسکتی ہیں۔ دھنیا، پودینہ اور موسمی سبزی گھر سے ہی میسر ہو سکتی ہیں۔ اگر آپ فلیٹ میں رہتی ہیں یا آپ کے گھر کی چھت دستیاب ہے تو اس کام کے لیے اپنی بالکنی یا چھت کو بہ طور کھیت استعمال کرسکتی ہیں۔ اگر آپ کو اس کا شوق ہے اور بجٹ میں کٹوتی چاہتی ہیں تو یو ٹیوب آپ کی مکمل رہنمائی کرے گا۔ وہاں آپ کو ایسی معلومات ملیں گی کہ آپ گھر کی چھت یا بالکنی کو زمین کے طور پر استعمال کرکے اپنے اہلِ خانہ کے لیے بہت سی تازہ سبزیاں خود اُگا سکتی ہیں وہ بھی بہت کم خرچ میں۔ یہ کفایتی بھی ہوگا اور صحت مند بھی۔
9۔ بچوں کو مہنگے کھلونے دلوانے کی بجائے انھیں بیٹ بال، فٹ بال، پینٹ کلرز، پڑھنے کے لیے چھوٹی چھوٹی کتابیں یا کوئی ایسی چیز خرید کر دیں جس سے ان کی جسمانی اور دماغی ورزش ہو۔ بچیوں کو گھر میں کپڑے سے گڑیا بنا کر دیں۔ گھر میں کپڑے سے گڑیا بنانے کی روایت تقریباً معدوم ہو چکی ہے۔
10۔ روزانہ کی بنیاد پر اپنے خرچے میں سے صدقہ ضرور نکالیں چاہے پانچ ، دس روپے ہی کیوں نہ ہوں۔ یہ پیسے صدقے کے لیے مختص ڈبے میں ڈالتی جائیں ۔ اس سے نہ صرف بلائیں ٹلیں گی بلکہ رزق میں بھی اضافہ ہوگا۔
خاتون خانہ کو یہ بات ہمیشہ ذہن میں رکھنی چاہیے کہ اس کی اصل سلیقہ مندی اور صلاحیت اس بات میں ہے کہ وہ کس طرح شوہر کی محدود آمدنی میں صبر و شکر اور سلیقہ مندی کے ساتھ گھر چلاتی ہے۔ اس لیے پہلے اس سلیقہ مندی کا ثبوت دیں اور اگر پھر بھی تنگ دستی کا احساس ہو تو شوہر کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے اضافی آمدنی کے وہ ممکنہ ذرائع تلاش کریں جن میں آپ اپنے گھر کے نظام کو متاثر کیے بنا کچھ اضافی کمائی کرسکیں۔ آپ کیا کرسکتی ہیں یہ آپ کی صلاحیت اور حالات پر منحصر ہے مگر یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ عورت کے لیے معاشی جدوجہد ممنوع نہیں ہے۔ جو چیز مطلوب ہے وہ یہ ہے کہ اس کے ذریعہ گھر کا نظام اور بچوں اور گھر کی دیکھ بھال اور تعلیم و تربیت متاثر نہ ہو۔