دنیا بھر میں مہنگائی کی وجہ سے متوسط طبقے کا جینا دو بھر ہوگیا ہے۔ یہ آسیب اتنا بڑھ گیا ہے کہ کم آمدنی والے لوگوں کی راتوں کی نیندیں اچاٹ ہوگئی ہیں۔ خواتین بے چاری کیا کریں! وہ گھر کا نظام چلانے کی ذمہ دار، ایک ہفتے کے بعد ہی تنخواہ ختم ہوجانے کا رونا رونے لگتی ہیں، کیوںکہ تنخواہ تو گیس بجلی، ٹیلی فون کے بلوں اور بچوں کی فیس کی نذر ہوگئی۔ اب پورا مہینہ گزارنا ہے اور کھانے پینے کی ضروریات پوری کرنی ہیں۔
ذرا سوچیں جس شخص کی ماہانہ آمدنی صرف دس ہزار ہو اور اس کے تین چار بچے پڑھنے لکھنے والے ہوں وہ کیسے گزارا کرے گا… اس کی صرف یہی ایک صورت ہے کہ عورت اس کے ساتھ آمدنی بڑھانے میں معاونت کرے۔ اگر بیوی پڑھی لکھی ہے اور اپنی ڈگری سے فائدہ اٹھا سکتی ہے تو اسے ضرور شوہر کی مدد کرنا چاہیے۔ اگر اَن پڑھ مگر ہنرمند ہے تو اسے اپنے ہنر سے آمدنی میں اضافے کی کوشش کرنی چاہیے۔
کفایت شعاری اور سلیقہ مندی عورت کے اصل ہنر ہیں۔ آپ چھوٹے چھوٹے کاموں میں کفایت سے بچت کرسکتی ہیں۔ عورتوں کو اسراف کی زیادہ عادت ہوتی ہے۔ بہت کم خواتین ایسی ہیں جو چھوٹی چھوٹی چیزوں میں کفایت کے پہلو کو مدنظر رکھتی ہیں۔ بجلی کے بل اگر زیادہ آتے ہیں تو بجلی کی بچت کرکے، ٹی وی، فریج کا استعمال کم کرکے بلوں کو کم کیا جاسکتا ہے۔ بعض گھروں میں شام ہوتے ہی سارے گھر کے بلب، ٹیوب لائٹیں اور ٹی وی آن ہوجاتے ہیں۔ کمرے میں ٹی وی دیکھنے والا ہو یا نہ ہو، خالی کمرے میں ٹی وی چلتا رہتا ہے۔ خاتونِ خانہ باورچی خانے میں کام میں مصروف ہیں مگرٹی وی کھلا رہتا ہے۔ جس کمرے میں آپ موجود ہیں صرف اس کمرے کی بجلی جلائیے، پورے گھر کو بقعہ نور بنانے سے آپ کا بجلی کا بل بھی اتنی ہی تیزی سے بڑھے گاـ۔ اس لیے بہتر ہے کہ فریج کو گھنٹہ دو گھنٹہ کے لیے بند کردیں… کمروں میں بلب کے مقابلے میں سی فل استعمال کریں۔ خالی کمرے میں پنکھا چلتا چھوڑ کر نہ جائیں۔ کمرے سے نکلنے سے پہلے بجلی کے سارے بٹن آف کردیں۔ رات کو سب ایک ہی کمرے میں بیٹھیں تو بہتر ہے۔ آج کل دلوں کی دوری کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہر شخص کا اپنا کمرہ ہوتا ہے جس میں وہ دن رات گھسا رہتا ہے۔ ایک دوسرے کے مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔ اپنا بیڈ روم، اپنا ٹی وی اور اپنا اے سی… سب انفرادی زندگی گزارنے کے عادی ہوگئے ہیں۔ اس لیے تنہائی کے زہر نے سب کو ڈس لیا ہے۔ گھر میں رہنے والے دس افراد ایک دوسرے کے مسئلے سے ناآشنا اور ناواقف ہوتے ہیں۔ اپنے گھر کو ایک ایسا گوشۂ عافیت و سکون بنائیے کہ لوگ وہاں آکر طمانیت محسوس کریں۔
خواتین ہی اس مسئلے پر قابو پاسکتی ہیں۔ ہر ماہ نئے ملبوسات بنانے سے آپ کے اخراجات میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ ملازمت پیشہ خواتین اپنے اخراجات میں اسی صورت میں کمی کرسکتی ہیں کہ اپنی محنت اور طاقت و صلاحیتوں کو فضول خرچی کی نذر نہ کریں… ہر نئے فیشن کے پیچھے دوڑنا انتہائی حماقت ہے۔ بہتر تو یہی ہے کہ آپ بجٹ بنا کر اس پر سختی سے عمل کریں۔ دوسروں کی نقل کر کے اپنے آپ کو مشکلات میں نہ ڈالیں۔
سودا سلف لینے یا خریداری کرنے سے پہلے ایک فہرست بنالیں، ہمیشہ مہینہ کی درمیانی تاریخوں میں خریداری کریں۔ قریب ترین مارکیٹ سے چیزیں خریدیں تاکہ رکشا، ٹیکسی والوں کے منہ مانگے مطالبات سے بچ سکیں۔ بعض اوقات بلاضرورت خریداری آپ کا بجٹ فیل کر دیتی ہے۔ لہٰذا جن چیزوں کی ضرورت نہ ہو وہ کتنی ہی سستی کیوں نہ ہوں، آپ کے لیے بے کار ہیں۔ بے کار چیزوں کو گھر میں جمع کرنا بے وقوفی اور حماقت ہے۔
کسی شادی میں شریک ہوتے وقت اپنے بجٹ پر ایک مرتبہ ضرور نظر ڈالیں۔ اپنی حیثیت کے مطابق تحفہ دیں۔ نمود و نمائش کی خاطر قرض یا ادھار لے کر کبھی کسی کو تحفہ نہ دیں۔ دوستوں کی شادی میں ایک تہنیتی کارڈ کے ساتھ گل دستہ دے سکتی ہیں۔ بے جا اور غیر ضروری اخراجات بڑھا کر اپنے آپ کو اور اپنے شوہر یا بھائیوں کو پریشان نہ کریں۔ ایسا نہ ہو کہ وہ آپ کے مطالبات سے مجبور ہوکر ناجائز ذرائع استعمال کرنے لگیں۔ معاشرے میں بڑھتے ہوئے ذہنی اور اعصابی امراض کی ایک اہم وجہ بے سکونی، بے اطمینانی، قناعت کا نہ ہونا، اللہ پر بھروسہ نہ ہونا ہے۔ اور خواتین کی ناسمجھی اور بے جا فرمائشیں اور مطالباب بھی ہیں۔ اسی وجہ سے مرد ہائی بلڈ پریشر، ذیابیطس، بے خوابی اور انجائنا کا شکار ہوجاتے ہیں۔
عورت کو بننے سنورنے کا شوق ہوتا ہے اور سنگھار، زیب و زینت اس کا حق بھی ہے۔ مگر ہر تقریب کے لیے نئے کپڑے، زیور خریدنا کہاں کی عقل مندی ہے! یہ حقیقت ہے کہ آج کے مصروف زمانے میں کسی کو اتنی فرصت نہیں کہ آپ کے لباس پر غور کرے یا یاد رکھے کہ آپ نے پچھلی تقریب میں کیا پہنا تھا۔ یہ ہماری خام خیالی ہے۔ دوسروں سے تعریف اور ستائش کے چند کلمات کی خاطر اپنے آپ کو فضول مشقت میں نہ ڈالیں۔ خواتین کو اپنی تعریف سننے کا زیادہ شوق ہوتا ہے، جس کے لیے وہ شوہر کی جیب کی پروا کیے بغیر اپنی فرمائشیں اور خواہشات پوری کرانے میں فخر محسوس کرتی ہیں۔ مہنگائی اور بے روزگاری کے اس خوف ناک آسیب سے بچنے کے لیے کفایت اور سلیقہ شعاری کو اپنائیں۔ پرانے ملبوسات کو نیا کر کے دیکھیں۔ بعض اوقات گھر میں برسہا برس سے صندوق میں پڑے ہوئے ملبوسات اتنے خوب صورت ہوتے ہیں کہ ان کو ذرا سی تبدیلی سے نیا بنایا جاسکتا ہے۔ پرانے کامدار جوڑوں اور کامدار ساڑھیوں کو نئی شکل دے کر استعمال کیا جاسکتا ہے۔ کفایت اور سلیقے سے آپ کسی بھی تقریب میں خود کو منفرد بنا سکتی ہیں۔
یاد رکھئے پڑھی لکھی، باوقار، سادگی پسند اور منفرد خواتین ہر محفل میں حسین نظر آتی ہیں۔ تقاریب میں شرکت سے پہلے اس کی نوعیت کو دیکھ کر اپنے ملبوسات کا انتخاب کریں۔ اگر آپ کے پاس زیورات نہیں تو پریشانی کی کوئی بات نہیں، آپ اس کے بغیر بھی پوری تمکنت کے ساتھ محفل کی جان بن سکتی ہیں۔ یاد رکھئے کہ کسی بھی محفل میں آپ کی شرکت اہم ہے، آپ کے زیور اور کپڑے اہم نہیں ہیں۔ اپنے بجٹ میں گنجائش دیکھ کر دو، تین خوب صورت سے اسکارف خریدیں، تقاریب میں اپنے لباس کی میچنگ سے اسکارف سر پر لپیٹیں اور بے فکر ہوکر ہر قسم کے زیورات سے مبرا شادی میں شرکت کریں۔ یقین کریں آپ کا یہ انداز دوسروں کو آپ کی تقلید پر مجبور کردے گا اور اگلی تقریب میں آپ دیکھیں گی کہ کئی خواتین کے سر اسکارف سے ڈھکے ہوں گے۔ آپ کی مسکراہٹ اپ کے قابل فخر ہونے کا خوب صورت اظہار ہوگی۔ دوسروں کو صحیح راستہ دکھانے کے لیے آپ کو ثواب بھی ملے گا اور بے بس اور مجبور شوہر کی دعائیں بھی۔lll