پولینڈ کے شہر وارسا میں ۷؍نومبر ۱۸۶۷ء کو ایک لڑکی پیدا ہوئی۔ وہ بچپن ہی سے غیر معمولی ذہانت کی مالک تھی۔ اس نے پانچ سال کی عمر میں پڑھنا لکھنا سیکھ لیا جو اس زمانے میں حیران کن بات تھی۔ وہ انہماک اور شوق سے درسی، مہماتی اور تکنیکی کتب کا مطالعہ کرتی۔ اس کے باپ نے ، جو طبعیات کا ایک لائق و فائق استاد تھا، اسے روسی اور فرانسیسی زبانیں سکھانے کے علاوہ دستکاری کی تربیت بھی دی۔ ثانوی تعلیم کے امتحان میں اس نے سونے کا تمغہ حاصل کیا۔ باپ نے چھٹیوں میں اسے اپنے رشتہ داروں کے ہاں، گاؤں بھیج دیا جہاں اس نے گھوڑ سواری اور تیراکی سیکھی۔ اسے جیومیٹری اور الجبرا سے بہت لگاؤ تھا۔ چنانچہ اس نے ایک بار اپنی دوست کو لکھا: ’’میں سمجھتی ہوں کہ دنیا میں جیومیٹری اور الجبرا جیسی کوئی اور چیز موجود نہیں۔‘‘
اس لڑکی کا نام مار جااسکلوڈو سکا تھا۔ وہ بڑی ہوکر پہلی خاتون سائنس داں بنی جس نے دو مرتبہ نوبل انعام جیتنے کا اعزاز حاصل کیا۔ دنیائے سائنس میں اس نے میری کیوری کے نام سے شہرت حاصل کی۔
ثانوی تعلیم کے بعد میری کیوری، پیرس کی یونیورسٹی میں شعبہ ادویات میں داخلہ لینا چاہتی تھی۔ لیکن اسے اپنے باپ سے اجازت نہ مل سکی، کیونکہ اس کی بڑی بہن برونیا بھی پیرس یونیورسٹی ہی میں داخلہ لینا چاہتی تھی اور وہ پہلے ہی اجازت حاصل کرچکی تھی۔ خراب معاشی حالات کی وجہ سے ان دونوں بہنوں کا بیک وقت فرانس جاکر اعلیٰ تعلیم جاری رکھنا ممکن نہ تھا، چنانچہ میری کیوری نے فیصلہ کیا کہ وہ پولینڈ ہی میں رہے گی اور محنت مزدوری کرکے اپنی بڑی بہن کی مالی مدد کرے گی۔
اس غرض سے میری ایک گھر میں کام کرنے لگی، لیکن اس کی مالکن بہت بد تہذیب تھی اور تنخواہ بھی قلیل دیتی، چنانچہ اس نے تھوڑے ہی عرصے بعد وہاں سے کام چھوڑ دیا اور ایک اچھے خوشحال گھرانے میں کام کرنے لگی، مگر وہاں اسے عمر کے اس حصے میں مخصوص معاشرتی صدمے سے دوچار ہونا پڑا جو مغربی تہذیب کا خاصہ ہے۔ تب وہ بددل ہوکر اپنے باپ کے پاس واپس چلی آئی۔
کیمیا، ریاضی اور طبعیات کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد میری نے ایک سائنس کالج میں پڑھانا شروع کردیا، لیکن پیرس جیسے مرکز تعلیم کی کشش اس کے ذہن سے محو نہ ہوئی تھی۔ آخر کار ۱۸۹۱ء میں اپنی بہن کی دعوت پر وہ پیرس پہنچ گئی، جہاں اس نے ساربون کے تحقیقی ادارے سے وابستگی اختیار کرلی۔ اس کی بہن نے ایک ڈاکٹر سے شادی کرلی تو کیوری نے خود کو بار خیال کرتے ہوئے پیرس میں علیحدہ ایک کمرہ کرائے پر حاصل کیا۔ اس کمرے میں پانی اور بجلی کا کوئی انتظام نہ تھا۔سردیوں میں وہ اپنی چھوٹی سی انگیٹھی میں کچھ کوئلے جلا لیتی۔ کالج کے چار سالہ دور میں غربت اس کی ہم قدم رہی۔ اس کی ایک دوست نے اس کی بڑی بہن برونیا کو اس کے حالات سے آگاہ کیا تو اس نے میری کو اپنے ہاں آنے کی دعوت دی مگر خوددار میری نے جانے سے انکار کردیا۔
۱۸۹۳ء میں اس نے طب کے بجائے ریاضی میں گریجویشن کیا۔ امتحان میں اس کی پہلی پوزیشن آئی۔ اگلے سال اس نے ریاضی ہی میں سیکنڈ ڈویژن سے ماسٹر ڈگری حاصل کی۔
ایک دفعہ میری اپنے ایک پولش دوست سائنس داں کووالسکی سے ملنے اس کے گھر گئی۔ وہاں اس کی ملاقات طبعیات کے ماہر نوجوان پیری کیوری سے ہوئی، جس نے مختلف قلموں پر دباؤ کے اثر سے برقی رو پیدا کرنے کا طریقہ دریافت کیا تھا۔ اس کے علاوہ برقی رو کی انتہائی قلیل مقدار کو ناپنے کے لیے وہ آلات بھی دریافت کرچکا تھا۔ دونوں کی نگاہیں ملیں اور پھر میری کی صورت میں پیری کو ایک ایسی ساتھی میسر آگئی جو اس کے ساتھ طبعیات اور ریاضی کے موضوعات پر گفتگو اور تبادلہ خیال کرسکتی تھی۔ ۱۸۹۵ء میں ان دونوں نے اپنی ازدواجی زندگی کا آغاز کیا۔ شادی کے دو سال بعد ان کے ہاں ایک بچی آئرین پیدا ہوئی۔ ماں باپ کی طرح وہ بھی بہت ذہین ثابت ہوئی اور ۱۹۳۵ء میں اس نے کیمیا میں نوبل انعام حاصل کیا۔
میری نے اپنی گھریلو مصروفیات کے ساتھ سائنسی تحقیقات کو بھی جاری رکھا۔ ۱۸۹۵ء میں رونٹگن نے ایکس ریز شعاعیں دریافت کیں اور اگلے سال ہنری بیکرل نے حیرت انگیز انکشاف کیا کہ یورینیم سے زبردست قوت کی حامل پر اسرار شعاعیں خارج ہوتی ہیں۔ اس انکشاف سے پوری سائنسی دنیا میں ہلچل مچ گئی۔ تمام سائنس داں اس میں گہری دلچسپی لے رہے تھے اور تحقیقات میں مصروف تھے، لیکن اب تک اس معاملے میں بہت کم معلومات میسر آسکی تھیں۔ میری اور پیری نے اس سلسلے میں تحقیقات کا آغاز کیا۔
اپنے خاوند ہی کے ایجاد کردہ برقی آلات سے میری کیوری نے اس بات کی تصدیق کی کہ یہ شعاعیں صرف اور صرف یورینیم سے خارج ہوتی ہیں اور ان کا اخراج یورینیم کے کسی دوسرے عنصر سے طبعی یا کیمیائی تعامل کانتیجہ نہیں۔ یورینیم کی اس انفرادی خصوصیت کو تابکاری کا نام دیا گیا۔
اس یقین کے بعد کیوری نے اگلے مرحلے کا آغاز کیا۔ کیا دوسرے عناصر بھی اس خصوصیت کے حامل ہیں؟ ان شعاعوں کے اخراج سے ایٹم میں کیا تبدیلی واقع ہوتی ہے اور کیا کسی دوسرے عنصر میں یہ خصوصیت پیدا کی جاسکتی ہے؟ پیری طبعیات کے میونسپل اسکول میں معلم تھا، اس لیے انہیں اپنی تحقیقات جاری رکھنے کے لیے اس اسکول کی تجربہ گاہ استعمال کرنے کی اجازت دے دی گئی۔ تجربہ گاہ کیا تھی، ایک غیر کشادہ ٹھنڈی کوٹھڑی جس کی چھت، شگافوں کی وجہ سے بارش میں ٹپکتی تھی۔ اس میں تجرباتی سہولیات کی موجودگی افسانہ معلوم ہوتی تھی۔
معلوم عناصر پر تجربات کے بعد انھوں نے دریافت کیا کہ یورینیم کے علاوہ تھوریم بھی قدرے تابکار عنصر ہے۔ اس کے بعد انھوں نے انتہائی انہماک سے میسر آنے والی تمام کچی دھاتوں کا تجزیہ کیا اور دریافت کیا کہ سیاہ رنگ کی معدن پچ بلینڈی بھی اس قسم کی شعاعیں خارج کرتی ہے جو کثیف سیاہ کاغذوں میں لپٹی فوٹو گرافک فلموں پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ یہ معدن یورینیم سے زیادہ تابکار ثابت ہوئی۔ میری کے نزدیک اس کا مطلب یہ تھا کہ اس نے ایک نیا عنصر دریافت کرلیاہے، لیکن یہ اس دریافت کا ابتدائیہ تھا۔ اس معدن کی تخلیص سے خالص عنصر کا حصول اہم مرحلہ تھا۔ آغاز کے وقت میری اور پیری اس کام کی طوالت اور پیچیدگی سے نا آشنا تھے۔ کئی ٹن پچ بلینڈی ان کی ورکشاپ میں پہنچا دیا گیا جس میں بڑے بڑے کڑاہ نصب کیے گئے تھے، تاکہ اس کچی دھات کو سادہ اجزا میں تقسیم کرکے اس سے اصل عنصر حاصل کیا جاسکے۔
وہ عنصر کون سا ہے؟ اس راز کا فاش کرنے کے لیے پیری کی مدد سے میری فطرت سے نبرد آزما ہوئی۔ تیزچبھنے والی بوؤں اور آنکھوں کے لیے مضر دھوئیں کے درمیان چار سال کی سخت مشقت کے بعد میری دو نئے عناصر پولونیم اور ریڈیم دریافت کرنے میں کامیاب ہوگئی۔ اول الذکر عنصر کا نام اس کے آبائی ملک پولینڈ سے منسوب کیا گیا ہے۔ ریڈیم کی تابکاری طاقت یورینیم سے ایک لاکھ گنا زیادہ ہے۔ اس دریافت پر میری، پیری اور ہنری بیکرل کو ۱۹۰۳ء میں نوبل انعام سے نوازا گیا۔
قسمت کی ستم ظریفی دیکھیے میری اتنی بیمار ہوئی کہ وہ خود جاکر اپنا انعام وصول کرنے سے قاصر رہی۔ میری کے ان کارناموں پر تعریف و تحسین کے انبار لگ گئے، اس کے باوجود میری اور پیری کی مالی حالت میں کوئی بہتری نہ ہوسکی۔ اب بھی ان کے پاس تحقیقات کے لیے کوئی مناسب تجربہ گاہ نہ تھی۔
کہا جاتا ہے کہ جب پیری کو یہ بتایا گیا کہ اسے فرانس کے اعلیٰ اعزاز ’’لیجن آف آنر‘‘ (Legion of Honour) کے لیے نامزد کیا گیا ہے تو اس نے جواب دیا: ’’میں اس کے بجائے ایک مناسب تجربہ گاہ کے حصول کو ترجیح دیتا ہوں۔‘‘
انھوں نے تابکاری کی جدید سائنس دریافت کی۔ دنیا کو ریڈیم اور اس کی تخلیص (Purification) کے طریقے سے روشناس کرایا۔ میری کو جب اس کی خدمات کے سلسلے میں رقم کی پیشکش کی گئی تو اس نے لینے سے انکار کرتے ہوئے کہا: ’’ریڈیم قدرت کا عطیہ اور اس دنیا کا اثاثہ ہے۔‘‘
اگرچہ میری کیوری نے ریڈیم دریافت کیا مگر وہ اس سے متعلق جامع معلومات فراہم نہ کرسکی۔ ۱۹۰۲ء میں ایک انگریز سائنس داں ردر فورڈ نے دریافت کیا کہ تابکاری انشقاق جوہر (ایٹم کے مرکز میں ٹوٹ پھوٹ) کا نتیجہ ہے۔ ۱۹۱۱ء میں تابکاری کی مکمل وضاحت کے لیے اس نے اپنی نیوکلیر تھیوری پیش کی۔
۱۹؍اپریل ۱۹۰۶ء کو پیری اپنے تخیلات میں گم ایک اجلاس سے واپس آرہا تھا کہ گھوڑا گاڑی سے تصادم کے نتیجے میں موقع ہی پر جاں بحق ہوگیا۔ میری کے لیے یہ صدمہ ناقابلِ برداشت تھا۔ پیری اس کا ذاتی زندگی میں ساتھی ہی نہیں بلکہ وہ اس کی زندگی کے ہر مرحلے، کامیابی، ناکامی، خوشی اور غم سب میں اس کے دوش بدوش تھا۔ وہ اس غم میں طویل عرصے تک خلوت گزیں رہی۔ پھر اسے ساربون میں لیکچرر مقرر کردیا گیا۔ وہ پہلی خاتون تھی جسے فرانس میں ایک اعلیٰ تعلیمی عہدے پر فائز کیا گیا۔ اس نے اپنے آپ کو مکمل طور پر اپنی دونوں بچیوں کی تعلیم کے لیے وقف کردیا۔
۱۹۱۱ء میں اسے ریڈیم کی تخلیص اور اس کا ایٹمی وزن معلوم کرنے پر دوسری مرتبہ نوبل انعام سے نوازا گیا۔ اگلے برس فرانس کی حکومت نے اس کے نام پر کیوری انسٹی ٹیوٹ آف ریڈیم قائم کیا اور اسے اس کا صدر منتخب کیا گیا۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران اس کا تعلیم و تحقیق کا کام تعطل کا شکار رہا کیونکہ وہ اسپتالوں کے ریڈیائی نظاموں کی دیکھ بھال میں مصروف رہی۔ جنگ کے اختتام پر اس نے تعلیم و تحقیق کے سلسلے کا دوبارہ آغاز کیا۔ ۱۹۲۱ء میں امریکی صدر ہارڈنگ نے اسے ایک امریکی خاتون کی طرف سے دیا جانے والا ایک گرام ریڈیم کا تحفہ پیش کیاجو اس نے کیوری انسٹی ٹیوٹ کو منتقل کردیا۔ ۱۹۲۹ء میں وارسا میں قائم ہونے والے کیوری انسٹی ٹیوٹ کی طرف سے بھی اسے ایک گرام ریڈیم تحفے کے طور پر پیش کیا گیا۔ ایک گرام ریڈیم کی قیمت اس وقت ایک لاکھ پچاس ہزار ڈالر تھی۔
۱۹۳۴ء میں ریڈیم ہی پر تجربات کے نتیجے میں اسے خون کے خلیوں کا مرض لاحق ہوا جس کے لیے کوئی علاج موجود نہ تھا۔ البرٹ آئن اسٹائن، جوکیوری کو ذاتی طور پر جانتا تھا، اسے ان الفاظ میں خراجِ تحسین پیش کرتا ہے:
’’اس کی مستقل مزاجی، اخلاص، حقیقت پسندی اور بہتر فیصلہ کرنے کی صلاحیت ایسے اوصاف ہیں جو کسی ایک شخص میں پائے جانے بہت مشکل ہیں۔‘‘
۴؍جولائی ۱۹۳۴ء کو میری کیوری فرانس کے شہر سیوائے میں انتقال کرگئی۔ اس نے اپنے تجربات اور تحقیقات پر دو کتابیں لکھیں۔ پہلی کتاب ’’ریسرچز سرلس سبسٹینز ریڈیو ایکٹوز‘‘ (Research sur less substances Radioactives)
۱۹۰۴ء میں اور دوسری ’’ٹریٹ ڈی ریڈیو ایکٹوز‘‘ (Treate de Radioactives) ۱۹۱۰ء میں شائع ہوئی۔ میری کیوری وہ واحد خاتون ہے جسے دو مرتبہ نوبل انعام حاصل کرنے کا اعزازحاصل ہے۔ اس کی بیٹی کو بھی نوبل انعام ملا ہے۔ کیوری کے دریافت کردہ عنصر ریڈیم سے ایک گیس ریڈان (Radon) مسلسل خارج ہوتی ہے جو سرطان کے علاج کے لیے بے حد مؤثر ہے۔ اس گیس کو شیشے کی نالیوں میں جمع کرلیا جاتا ہے جنھیں مریض کے سرطان زدہ حصے کے قریب گوشت میں چبھو دیتے ہیں جس سے بیمار پٹھے متاثر ہوتے ہیں اور آہستہ آہستہ سرطان ختم ہونے لگتا ہے۔
——