میرے استاد ابوالمجاہد زاہدؔ

شمشاد حسین فلاحی

اسلامی حلقہ ادب کے استاد شاعر اور زبان داں مولانا ابوالمجاہد زاہدؔ صاحب ۶؍مارچ بروز جمعہ اللہ کو پیارے ہوگئے۔ اس طرح تعمیر پسند حلقہ میں نصف صدی سے بھی زیادہ مدت تک روشنی بکھیرنے والی شمع گل ہوگئی۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔
محمد زاہد علی ابوالمجاہد زاہدؔ ۲۸؍جون ۱۹۲۸ء کو اترپردیش کے ضلع لکھیم پور کھیری میں پیدا ہوئے۔ مقامی سطح پر ابتدائی تعلیم کے بعد مدرسہ عالیہ رامپور سے جو کبھی اورینٹل کالج کے نام سے جانا جاتا تھا سندِ فضیلت حاصل کی۔ عمر کا بیشتر حصہ درس و تدریس میں گزارا۔ ادارئہ ادب اسلامی ہند کی قیادت کی۔ لکھنؤ میں رہے اور شعر وادب کے محاذ پر ترقی پسند تحریک کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے رہے۔
درس و تدریس کی عمر کا زیادہ حصہ جماعتِ اسلامی ہند کی مرکزی درسگاہ اسلامی رامپور میں گزارا۔ وہاں سے سبکدوشی کے بعد لڑکیوں کی معروف درسگاہ جامعۃ الصالحات رامپور میں پڑھانے لگے۔ اور عمر کا آخری حصہ مرکز جماعت اسلامی ہند میں گزارا جہاں وہ درسیات پر نظر ثانی اور نئے نصاب کی تیاری میں معاونت کرتے رہے۔
تحریکِ اسلامی سے فکری وابستگی سے پہلے وہ کچھ دن ترقی پسندی کی زندگی بھی گزار چکے تھے مگر شاید ان کی دور بین نگاہ بصیرت نے اس تحریک کے اندرون کا پتہ لگالیا تھا، اس لیے بہت جلد تائب ہوکر اسلام سے وابستہ ہوگئے اور آخری سانس تک تحریک اسلامی کے خادم رہے۔ اس طرح انھوں نے جو عہد وفا اپنی جوانی میں اسلام اور تحریکِ اسلامی سے باندھا تھا اسے پورا کرگئے۔ اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہو۔ ان کی وفات سے ہم ایک شفیق استاد اور مخلص بہی خواہ سے محروم ہوگئے۔ ماہنامہ حجاب جسے ان کی محبتیں اور خدمات مائل صاحب مرحوم کے وقت سے آج تک حاصل رہیں ایک محرومی سے دوچار ہوگیا۔ مولانا مرحوم ہی حجابِ اسلامی میں شائع ہونے والی شعری تخلیقات میں اصلاح و تربیت اصلاح کا کام انجام دیتے تھے۔
مدیر حجاب اسلامی کی خوش قسمتی کہ اسے مولانا مرحوم کی شاگردی کا شرف حاصل ہوا۔ درجہ پنجم سے ہی انھوں نے اردو پڑھائی۔ اس دوران ہمیں ان سے خوب خوب مار کھانے کا بھی ’شرف‘ حاصل رہا۔ دراصل درجہ پنجم اور درجہ ہفتم میں میری سیٹ دروازے کے بالکل قریب تھی۔ کلاس میں داخل ہوتے ہی سب سے پہلا ’شکار‘ میں ہوتا۔ ’’نالائق… اتنی دیر ہوگئی گھنٹی بجے ابھی تک کتاب نہیں کھولی۔‘‘ اور تڑاخ سے ایک۔ اگلے روز ان کی آمد سے پہلے ہی کتاب کھول کر ڈیسک پر رکھ لی۔ استاد محترم آئے اور پھر تڑاخ سے ایک ’’نالائق تجھے معلوم ہے کہ آج میں کتاب پڑھاؤں گا یا املا لکھواؤں گا۔‘‘ اب ان دنوں کو یاد کرتا ہوں تو ہنسی آتی ہے۔ ایک روز وہ میرے گھر دعوت پر تشریف لائے۔ درسگاہ کے کئی اور ان کے شاگرد بھی موجود تھے۔ میں نے کہا ’’چچا میاں آپ نے مجھے بہت مارا ہے۔‘‘ ہنسنے لگے۔ اس پر ہمارے ایک ساتھی نے کہا: ’’بن یامین مار کھا کھا کر ہی تو ایڈیٹر بن گیا۔‘‘ اس پر مولانا نے مسکراتے ہوئے اپنے خاص انداز میں فرمایا: ’’نہیں بھائی۔‘‘
مرکزی درسگاہ کے بعد میں جامعۃ الفلاح چلا گیا اور ۱۹۹۳ء میں مزید تعلیم کی غرض سے دہلی آگیا۔ اس کے چند سال بعد ہی مولانا بھی مرکز جماعت میں آگئے۔ میں کیونکہ اب دہلی ہی کا ہوکر رہ گیا تھا اور خانگی زندگی شروع کردی تھی، اس لیے خوب ملاقاتیں ہوتیں۔ اب کچھ بے تکلفی بھی ہوگئی تھی اور اکثر گھر پر آنا جانا اور دوستوں ساتھیوں کے ساتھ نشستیں ہوتیں۔ جہاں وہ مزے مزے کی باتیں کرنے کے ساتھ اپنی زندگی کے تجربات نچوڑتے اور علم و حکمت کی باتیں بھی کرتے۔
وہ ایک شفیق استاد اور اچھے مربی تھے۔ شعر و ادب کے سیکڑوں مبتدیوں اور درجنوں اچھے شعراء کی اصلاح و تربیت کی۔ مرکزی درسگاہ اور جامعۃ الصالحات میں تدریس کی خدمت انجام دینے کے سبب ان کے شاگرد مردو خواتین کی بڑی تعداد ہے۔ جو ملک بھر میں پھیلی ہوئی ہے۔ یہ ان کے شاگردوں کے لیے خاص طور پر سعادت اور مولانا کے لیے یقینا خوشی کی بات تھی کہ ان کے شاگردوں کے ایک حلقے نے گزشتہ سال انہیں سفر حج پر بہ اصرار بھیجا جس کے لیے شروع میں وہ تیار نہ تھے۔ مگر شریر شاگردوں کے ہتھکنڈے سے وہ بچ نہ سکے۔ اس طرح وہ حج بیت اللہ کی ادائیگی سے سرفراز ہوئے اور ان کی وہ آرزو بھی پوری ہوگئی کہ:
یہ خواب میں حضور شہ بحر و بر گیا
تصویر آرزو میں نیا رنگ بھر گیا
ہمارے چچا میاں زاہد صاحب اپنی عملی زندگی میں زہد و استغناء کی ممتاز تصویر تھے۔ اگرچہ ان کی منتخب کردہ راہ مالی کشادگی اور فارغ البالی کی راہ نہ تھی،پھر بھی کبھی ان کی زبان سے نہ کسی نے حالات کا شکوہ سنا اور نہ ان سے بیان احتیاج۔ صبر و رضا اور قناعت ان کی طبیعت میں راسخ تھے۔ زندگی میں کئی غم انہیں جھیلنے پڑے جن میں ان کے جوان سال بیٹے راشد کی گم شدگی سب سے بڑا غم تھا۔ مگر ہنس کھیل کر سہہ گئے۔
گزشتہ سال حج کے سفر سے واپسی کے بعد کافی بیمار رہے اور ہم لوگوں نے علی گڑھ یونیورسٹی ہاسپٹل میں ان سے فون پر بات کی تو بہت خوش ہوئے اور کہا کہ ’’تم لوگوں میں میرا دل لگا تھا۔‘‘ اگلے روز شام کو ہم لوگ ملاقات کے لیے پہنچے تو کمزوری کی وجہ سے وہ بات بھی نہیں کرپا رہے تھے اور چہرہ سوجا ہوا تھا۔ ہم لوگوں کو دیکھ کر خوش ہوگئے اور بڑی دعائیں دیں۔ چلتے وقت گلے مل کر ان کے چھوٹے بیٹے خالد رونے لگے اور کہنے لگے کہ ’’… بھائی اب کچھ نہیں بچا۔‘‘ ہم نے تسلی دی یہاں سے ڈاکٹروں نے انہیں لکھنؤ ریفر کردیا اور بہ فضل خدا وہ صحت یاب ہوکر اپنے گھر واپس آگئے۔
اس بیماری سے اگرچہ وہ جسمانی اعتبار سے اتنے کمزور ہوگئے تھے کہ پہلے جیسی زندگی کے لائق نہ تھے مگر مرکز جماعت کی محبت اور اپنی ’بعض مجبوریوں‘ کے سبب وہ پھر دہلی آگئے۔ کوئی ایک ماہ رہے اور پھر طبیعت خراب ہونے کی وجہ سے واپس رامپور چلے گئے۔
فروری کے دوسرے ہفتے میں کسی وقت ہم لوگوں نے خیر خیریت جاننے کے لیے فون کیا تو کہنے لگے ’’تم لوگوں سے ملنے کو جی چاہ رہا ہے۔‘‘ ہم لوگ ۱۳؍فروری کی شام رامپور پہنچ گئے کہ ملاقات کرآئیں۔ آنسوؤں کے ساتھ گلے ملے اور بڑی خوشی کا اظہار کیا۔ کوئی تین گھنٹے ہم لوگ ان کے ساتھ رہے اور رات ہی میں واپس آگئے۔ ان کے بیٹے خالد بھائی نے زبردست ضیافت کی۔ کھانے کے دوران اندازہ ہوا کہ ان کی غذا تشویشناک حد تک کم ہوگئی ہے۔ ایک چپاتی اور دو تین لقمے چاول اور بس۔ یہ ہماری ملاقات آخری ملاقات ہوگی، اندازہ نہ تھا۔ اس وقت انھوں نے ہمیں آنسوؤں کے ساتھ رخصت کیا اور ۶؍مارچ کی رات کو ہم نے انہیں آنسوؤں سے رخصت کردیا۔ کبھی نہ واپس آنے کے لیے۔ شاید اب جنت میں ملاقات ہوگی اگر اللہ چاہے گا۔ میں واپسی میں راستے پر ان کا شعر گنگناتا رہا:
جلتے ہوئے چراغ جو گھر گھر میں دھر گیا
وہ شخص اپنے گھر کے اندھیرے میں مرگیا
اس ملاقات میں چلتے وقت انھوں نے اشفاق صاحب سکریٹری تعلیم وتربیت مرکز جماعت کے نام پیغام بھجوایا تھا کہ مارچ کے پہلے ہفتے میں کسی وقت دہلی آنے کا ارادہ ہے اگر طبیعت ٹھیک رہی۔ مارچ کا پہلا ہفتہ آیا اور انھوں نے سفر بھی کیا مگر دہلی کے بجائے ملک عدم کا سفر۔
حجاب اسلامی کے دہلی سے اجراء کے بعد تین بزرگ شخصیات ایسی ہیں جنھوں نے ہمیں بڑا حوصلہ دیا۔ اور حقیقت میں انہی کی حوصلہ افزائی اور مہمیز کی بدولت ہم نے اس مہم کے سخت مراحل بہ فضل خدا طے کرلیے۔ وہ ڈاکٹر شبنم سبحانی اور ڈاکٹر عبدالحق انصاری سابق امیر جماعت اسلامی ہند اور ہمارے استاد ابوالمجاہد زاہدؔ ہیں۔ ان میں سے دو بہ فضلِ خدا حیات ہیں اللہ تعالیٰ ان دونوں بزرگوں کی عمر دراز کرے اور حضرت ابوالمجاہد زاہدؔ راہی ملک عدم ہوئے اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور ان کو ان کی خدمات کے بدلے اجرِ عظیم سے نوازے۔ آمین!
چار سالہ شاگردی کے دور اور تقریباً کے قیام دہلی کی بے شمار یادیں اور باتیں اس وقت ذہن و دماغ میں گردش کررہی ہیں۔ بہت ساری باتیں ایسی ہیں جن کا تذکرہ مناسب نہیں معلوم ہوتا اور بہت ساری ایسی ہیں جنھیں بیان کرنے لگیں تو ایک دفتر بھر جائے۔ مگر اہم بات یہ ہے کہ عمر کے آخری حصہ میں فنکاروں،شاعروں اور ادیبوں کو جو دن دیکھنے پڑتے ہیں وہ دن ہمارے استاد محترم نے بھی بڑے صبر و استقلال کے ساتھ گزار دیے۔ وہ اپنی آخری زندگی میں اپنے اس شعر کی مثال خود تھے:
جلتے ہوئے چراغ جو گھر گھر میں دھر گیا
وہ شخص اپنے گھر کے اندھیرے میں مرگیا
وہ تو قناعت پسند اور استغناء کا پیکر تھے کبھی حرفِ شکایت زبان پر نہ آیا مگر ہم جیسے لوگ اس پر کیسے صبر کرسکتے ہیں شکوہ زبان پر آہی جاتا ہے کہ موت کے بعد تعزیتی جلسے کرنے والے ’قدر آشنا‘ ہیں، آخر موت کے بعد ہی ’گراں مایہ شخصیات‘ کی قدر کیوں پہچان پاتے ہیں؟ اور یہ سوال اندر اندر کلبلانے لگتا ہے کہ شعر و ادب کے سرپرستوں کی قدر شناس نگاہوں سے ناشناسی کا پردہ آخر کسی کی موت کے بعد ہی کیوں ہٹتا ہے؟
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں