میرے صفحے

شاہدہ یوسف

میں اپنے کمرے میں بیٹھی کتاب پڑھنے میں محو ہوں۔ کتابیں جو میری زندگی کا قیمتی سرمایہ ہے۔ ان میں کھوکر میں کتنے غموں پر قابوں پاچکی ہوں، کتنے حادثات کی تلوار کو میں نے کتابوں کی ڈھال سے روکا ہے۔ اگر میں ایسا نہ کرتی، تو یہ سب لکھنے کے لیے، سوچنے کے لیے نہ میرے پاس دماغ ہوتا نہ دل اور جب یہ اہم چیزیں انسان کے پاس نہ ہوں تو پھر …
منی نے ابھی آکر بتایا ہے کہ میرٹھ والی پھوپھی نے اپنے دیور سے میرا رشتہ بھیجا ہے۔ لڑکا علی گڑھ میں پڑھتا ہے، بہت خوبصورت ہے وغیرہ وغیرہ۔
منی یہ سب خبریں جلدی جلدی سنا کر کمرے سے بھاگ گئی ہے۔ ابھی اسے اپنی تمام دوستوں کو بھی یہ خبر سنانی ہے۔ منّی کو کتنی تمنا ہے اپنی اپیا کی شادی کی، جہاں کوئی رشتہ آتا ہے، وہ اسی حساب میں لگ جاتی ہے کہ کونسا جوڑا مانجھے کے دن پہنوںگی اور کونسا شادی کے دن؟ اماں اس کی بات پر ہمیشہ ناراض ہوجاتی ہیں اورڈانٹ کر کہتی ہیں تجھے تو اپنی ہی فکر رہے گی۔ کام چولہے بھاڑ میں جائے۔ منّی اماں کی ڈانٹ سن کر منھ بسورنے لگتی ہے۔ صبح دیر سے اٹھتی ہوں کہ پھوپھی اماں کے خوبصورت دیور نے …… میں شرم اور ڈر کے ملے جلے جذبے کے ساتھ برابر والے پلنگ کو دیکھتی ہوں، جو خالی پڑا تھا۔ پتہ نہیں کب اماں اور منّی اٹھ چکی تھیں۔ میں چپ چاپ باورچی خانے کی طرف جاتی ہوں، جہاں اماں کو ناشتے بنانے میں مصروف پاتی ہوں، پھر اماں سے احتجاج کرتی ہوں کہ انھوں نے مجھے کیوں نہیں اٹھایا۔ اماں نے بہت پیار سے مجھے دیکھا اور کہا سولے بیٹی، یہی دن تو آرام کے ہیں۔ پھر اپنے گھر جائے گی تو کہاں آرام ملے گا۔ ان کے اس جملے سے میں شرما کر اپنے کمرے میں بھاگ گئی۔ جب سے پھوپھی اماںکا خط آیا ہے۔ اماں کی مصروفیت بڑھ گئی ہے۔ تمام دن سینے پرونے کا سلسلہ لگا رہتا ہے۔
میں اپنے کمرے میں بیٹھی دوپٹے میں کرن ٹانک رہی تھی کہ اچانک دالان سے اماں کی ہلکی ہلکی سسکی کی آواز آتی ہے میں گھبرا کر کمرے سے نکل کر دلان میں جاتی ہوں، جہاں اماںکوئی خط پڑھتی جاتی ہیں اور روتی جاتی ہیں۔ میں گھبرا کر ان سے خیریت پوچھتی ہوں، جس کے جواب میں وہ ہچکیوں سے رونے لگتی ہیں۔ میں پریشان ہوکر ان کے پاس سے خط اٹھا کر پڑھتی ہوں، دور سے آنے والے بنّے نے اپنا سفر ملتوی کرنے کی خبردی تھی اور یہ خبر میرٹھ والی پھوپھی کے ذریعہ ہم لوگوں تک پہنچی تھی۔
اماں کی مصروفیت ایک دم ختم ہوگئی اب وہ تمام دن منھ لپیٹے پڑی رہتیں۔ یا پھر نماز میں میرے لیے دعائیں مانگا کرتیں۔ یہ سلسلہ متواتر چلتا رہتا ہے۔
میں چھبیس سال کی ہوگئی ہوں۔ مجھ سے سات سال چھوٹی منّی اب حسین خواب دیکھنے لگی ہے۔ لیکن اماں اس کی طرف سے بالکل لا پرواہ ہیں۔ ظاہر ہے جب تک وہ میری طرف سے بے فکر نہ ہوں گی، بیچاری منّی کے بارے میں کہاں سوچ سکتی ہیں۔
وقت تیزی سے گزرتا رہتا ہے۔ میں اب منّی سے بیحد شرمندگی محسوس کرتی ہوں، مجھے یہ احساس ہر وقت ستایا کرتا ہے میں ہی وہ ہستی ہوں جس کی وجہ سے منّی کے خواب اب تک شرمندئہ تعبیر نہ ہوسکے ہیں۔
اماں بیچاری دعائیں مانگ مانگ کر تھک چکی ہیں۔ اللہ میاں کسی صورت میں اماں کی رشوت قبول نہیں کرتے۔
میرے سر کے بالوں میں سفید تار جھلملانے لگتے ہیں، جن کو میں کبھی کبھی کاجل سے چھپانے کی کوشش کرتی ہوں۔ میرے سر کے ایک دو تار نے اماں کے سارے بال سفید کردیے ہیں۔ اماں بے چاری اپنے سینے پر دوجوان بیٹیوں کی لاش اٹھائے اٹھائے تھک چکی ہیں۔ لیکن ان لاشوں کو منزل تک پہنچانے والا کوئی نہیں ملتا۔
بیچاری میرٹھ والی پھوپھی دنیا بھر کے رشتے بھیجا کرتیں، جس دن ان کا خط آتا ، اماں بے حد خوش خوش جہیز کے کپڑے درست کرنے لگتیں، یہ سلسلہ ہفتوں یا مہینوں چلتا اور پھر آنے والے مسافر کی راہیں بدل جاتیں، چونکہ یہاں سے سفر خرچ کی زیادہ امید نہیں تھی، اور جہاں سفر خرچ کے ساتھ زادِ راہ کی امید بھی ہو تو کون بے وقوف مسافر گھاٹے کا سفر اختیار کرے گا۔
دن تیزی سے گزر رہے تھے۔ ہمارے لیے آنے والا اپنی راہ بھول چکا تھا۔ اماں بیچاری میرے جہیز کے کپڑوں کو دھوپ دکھا دکھا کر تھک چکی تھیں۔ اتنی دیکھ ریکھ پر بھی کپڑوں میں وہ چمک نہیں رہی تھی۔ اماں کپڑوں کو دیکھ کر کڑھا کرتیں۔ میرا جی چاہتا اماں سے کہہ دوں کہ اب وہ منّی کی فکر کریں اس لیے کہ آئینہ اب کچھ چغلی کھانے لگا ہے۔ منّی شاید مجھ سے مایوس ہونے لگی تھی۔ اس لیے کہ اب اپنی اپیا کے لیے اس میں وہ گرمی نہیں رہی تھی۔ وہ کسی نہ کسی طور پر مجھ پر طنز ضرور کردیا کرتی۔ مجھے اس کی باتیں بے حد دکھ پہنچاتیں، لیکن میں خاموش رہتی۔ اس لیے کہ میں اس کے حسین خوابوں کو دیوار چین کی طرح روکے کھڑی تھی۔
منّی اب اسکول سے اکثر دیر سے آنے لگی ہے۔ وجہ مختلف بتاتی ہے۔ لیکن میں سب کچھ سمجھتی ہوں۔ وہ عقلمند ہے اور اپنی زندگی خود بنانے کی ہمت رکھتی ہے اور اس طرح دیر سے آنے کا سلسلہ لگا رہتا ہے اور پھر ایک دن اماں کے سخت احتجاج پر وہ بتاتی ہے کہ اپنی سہیلی کے بھائی ناصر کو پسند کرتی ہے اور شادی کرنا چاہتی ہے۔ اماں اس کی بات سن کر بیحد ہنگامہ مچاتی ہیں۔ لیکن میرے سمجھانے پر خاموش ہوگئی ہیں۔ میں نہیں چاہتی کہ میری منّی بہن کا جہیز بھی اماں کے لیے دردِ سر بن جائے۔
اور پھر منّی خوشی خوشی زندگی کے نئے دور میں داخل ہو جاتی ہے۔
منّی کے جانے کے بعد مجھے زندگی میں کوئی دلچسپی باقی نہیں رہتی۔تمام دن کتابیں پڑھتی رہتی ہوں اور اس طرح زندگی کی تلخیوں پر پردہ ڈالتی رہتی ہوں۔
اماں اب بھی میری شادی کی طرف سے مایوں نہیں ہوئی تھیں خدا کے حضور میں دی ہوئی رشوت کے قبول ہونے کی اب تک امید لگائے بیٹھی ہیں۔ وہ کپڑے اکثر نکال کر سوکھاتیں اور بہت ساری پنتھالین کی گولیاں ڈال کر واپس بکس میں رکھ دیتیں۔
ایک میں اپنی کتابوں میں محو تھی کہ تار والے نے تار لاکر دیا۔ پڑھنے پر میرٹھ والی پھوپھی کے انتقال کی خبر ملی۔ اماں کو اس سے بیحد صدمہ ہوا ان کی اس قدر چہیتی نند انھیں چھوڑ کر ملکِ عدم کو جاچکی تھیں۔ اب ان کی بیٹی کی کون فکر کرے گا۔ یہ سوچ کر اماں بیحد بیقراری سے رونے لگی ہیں۔ مجھے اماں کو دیکھ کر رونا آتا رہا۔ اماں کو پھوپھی کی موت سے زیادہ اس کا رنج تھا کہ اب میرے لیے رشتہ کون بھیجے گا۔
پھوپھی اماں کے انتقال کے بعد پھوپھا ابا کا خط آنے لگا۔ معلوم نہیں وہ کیسا خط ہوتا جسے پڑھ کر شروع میں اماں بہت روتیں۔ پھر وہ بیچنی سے خطوں کا انتظار کرنے لگتیں۔ ہر خط پڑھ کر ان کی خوشی میں مزید اضافہ ہوجاتا۔ میں جب پوچھتی وہ میرے گال بہت پیار سے چھوکر خاموش ہوجاتئیں۔
میرے جہیز کے کپڑوں پر اب اماں کی مزید نظر عنایت ہونے لگی تھی۔ لیکن مجھے ان باتوں میں کوئی دلچسپی نہیں رہ گئی تھی۔ میں اپنا سارا وقت کتابیں پڑھنے میں گزارتی، منّی آجاتی، تو اس سے باتیں کرتی رہتی۔
کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ اماں ان دنوں اتنی مصروف کیوں ہیں۔ اب انھیں ایک منٹ آرام کی فرصت نہیں تھی۔ سارا دن کچھ نہ کچھ کیا کرتیں۔ غراروں کے گوٹے کھول کر نیا گوٹا لگاتیں۔ دوپٹے کی کرنیں بدلتیں۔ غرض کہ اسی میں سارا وقت گزار دیتیں۔ جی چاہتا کہوں کہ مجھ میں کون سا گوٹا لگا کر نیا کرو گی اماں۔ لیکن کچھ کہہ نہ پاتی۔
ایک دن اپنی پڑوسن کے گھر سے واپس آتی ہوں تو دیکھتی ہوں کہ باہر کا کمرہ کھلا ہوا ہے۔ اماں سے پوچھتی ہوں، تو پتہ چلتا ہے کہ میرٹھ والے پھوپھا آئے ہیں۔ میں خاموشی سے اپنے کمرے میں چلی جاتی ہوں۔ ظاہر ہے میرٹھ والے پھوپھا سے مجھے کیا دلچسپی ہوسکتی ہے۔
میں اپنے کمرے میں لیٹی کتابیں پڑھ رہی ہوں اتنے میں اماں آتی ہیں اور آہستہ سے میرے پاس آکر چپکے سے میرے ہاتھ میں ایک نیا جوڑا پکڑاتی ہیں اور کہتی ہیں۔ جلدی سے نہالو، بعد نماز عصر تمہارا نکاح ہوجائے گا۔ میں سوالیہ نظروں سے اماں کو دیکھتی ہوں۔ اماں آنکھوں میں آنسو بھرے مجھے دیکھتی ہیں اور کہتی ہیں: ’’ہاں بیٹا تمہارے پھوپھا کے پاس وقت نہیں ہے۔ اس لیے وہ ٹھہر نہیں سکتے۔ چاہتے ہیں کہ جلدی ہوجائے۔‘‘
بیچاری میرٹھ والی پھوپھی نے خود کو موت کے حوالے کرکے میرے لیے دلہا ڈھونڈ لیا تھا۔ اماں کی دعا خدا نے قبول کرلی تھی۔
گھبرا کر میری آنکھ کھل جاتی ہے اور اپنے ارد گرد کا جائزہ لیتی ہوں۔ چاروں طرف کتابوں، رسالوں کے انبار لگے ہوئے تھے۔ انہی کتابوں کے درمیان میں سفید کپڑوں میں لپٹی لیٹی ہوئی تھی۔ اماں کے بنائے ہوئے جوڑے آج بھی کورے ہی ہیں۔ مجھے اسی کا افسوس ہے۔
منّی مجھ پر ہنستی ہے کہ میں بے وقوف تھی۔
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146