صحت عامہ میں سدھار کے ساتھ عورتوں کی اوسط عمر بڑھی ہے۔ جس کی وجہ سے سماج میں سنِ رسیدہ عورتوں کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔ مینو پوز کی اوسط عمر ۴۵ سے ۵۰ سال کے درمیان ہوتی ہے۔ اگر کوئی عورت زندگی کے ۷۰-۷۵ سال پورے کرتی ہے تو اس کی زندگی کا ایک تہائی حصہ مینو پوز کی کیفیت میں گزرتا ہے۔ اس عرصے میں عورتوں میں ہونے والی کچھ بیماریاں تو براہ راست مینو پوز سے تعلق رکھتی ہیں اور کچھ عام ضعیفی کی تکالیف ہوتی ہیں لیکن ان کو بھی مینو پوز سے متعلق سمجھا جاتا ہے۔
جیسے جیسے بچے پیدا کرنے کی عمر خاتمے پر آتی ہے بچہ دانی کا کام کم ہونے لگتا ہے۔ یہ سلسلہ دو تین سال تک چلتا ہے۔ اس مدت کو کلائی میکٹرک کہتے ہیں۔ آخر میں ایک وقت وہ آتا ہے جب ماہواری بند ہوجاتی ہے، اسی کو مینوپوزکہتے ہیں۔ اس وقت عورت کے جسم میں ظاہری اور اندرونی بہت سی تبدیلیاں ہوتی ہیں۔ بیضہ دانیاں سکڑنے لگتی ہیں اور ان میں انڈے تیار نہیں ہوتے۔ فیلوپیئن ٹیوبس سکڑجاتی ہیں اور ساتھ ہی رحم، فرج وغیرہ بھی سکڑجاتے ہیں۔
بیضہ دانیوں کا عمل رک جانے سے خون میں ایسٹروجن نامی ہارمون کی مقدار کم ہوجاتی ہے۔ ہارمون کا توازن بدلنے سے چھاتی، پیٹ اور کولہوں پر چربی جمع ہونے لگتی ہے۔ کھال میں جھریاں پڑنے لگتی ہیں، جوڑوں میں درد ہونے لگتا ہے، بلڈ پریشر بڑھ جاتا ہے اور اکثر چہرے پر بال اگنے لگتے ہیں۔
مینوپوز تین طرح سے ہوسکتا ہے: (۱) اچانک ماہواری بند ہوجانا۔ (۲) ماہواری وقت پر ہونا لیکن آہستہ خون کی مقدار میں کمی ہوکر بند ہوجانا (۳) ماہواری دیر سے آنا اور وقفہ بڑھتے بڑھتے بالکل بند ہوجانا۔
مینو پوز کے ساتھ اور بھی کئی قسم کی شکایات پیدا ہوجاتی ہیں۔ جیسے چہرے اور گردن پر چند منٹ گرمی محسوس ہوکر پسینہ آجانا۔ اکثر عورتیں دل تیزی سے دھڑکنے یا اختلاج کی شکایت کرتی ہیں۔ ہاتھ پیروں کا سن ہونا یا سوئیاں سی چبھنا، پیٹ کا پھولنا، اور قبض عام شکایات ہیں۔ کافی عورتوں میں اس عمر میں چڑچڑاپن اور ڈپریشن پایا جاتا ہے۔ ریڑھ کی ہڈی، کمر اور جوڑوں میں درد کی شکایت بھی عام طور پر پائی جاتی ہے۔
مینو پوز کی کیفیت والی مریضہ کو دیکھتے وقت یہ پتہ کرنا بہت ضروری ہے کہ اس کی شکایات صرف مینو پوز سے ہی تعلق رکھتی ہیں یا پھر ان کی کوئی اور وجہ بھی ہے۔ ایسی مریضہ کو دیکھتے وقت جو اہم باتیں ذہن میں رکھی جاتی ہیں، وہ یہ ہیں:
(۱) ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ اس عمر میں عورت کی صحت برقرار رہے تاکہ وہ اس عمر میں ہونے والی دوسری بیماریوں سے بچی رہے۔ اس کے لیے متوازن غذا بہت ضروری ہے، زیادہ چکنائی، مصالحے اور تمباکو وغیرہ بہت سی بیماریاں پیدا کرتے ہیں جیسے بلڈ پریشر، دل کا مرض، معدے میں زخم اور کینسر وغیرہ۔ صحیح غذا کے ساتھ جسمانی طور پر چست رہنا اور ورزش کرنا بھی ضروری ہے۔
(۲) ضرورت کے مطابق مختلف قسم کے ٹیسٹ کرکے بہت سی بیماریوں کا بروقت پتہ لگا سکتی ہیں اور ان کا علاج ہوسکتا ہے۔ بلڈ پریشر چیک کرتے رہنا، نظر ٹیسٹ کرنا، خون میں شوگر کی جانچ کرنا، ان میں شامل ہیں۔ اگر ضرورت ہو تو خون میں چربی کی جانچ اور ای سی جی بھی کروانا چاہیے۔
(۳) کینسر جانچ: زیادہ تر کینسر ساٹھ سال کی عمر کے بعد ہی ہوتے ہیں۔ عورتوں میں سینے کے کینسر کا پتہ لگانے کے لیے چھاتی کی جانچ کرانا ضروری ہے۔ دانتوں اور مسوڑھوں کی جانچ اور جسم میں کسی بھی جگہ پر کوئی گانٹھ یا غدود بڑے ہونے پر اس کی جانچ کروانا بھی ضروری ہے۔
(۴) بہت بار مینوپوز سے متعلق شکایات دور کرنے کے لیے ایسٹروجن دینا پڑتا ہے اور اس سے مریضہ کی شکایات حیرت انگیز طور پر دور ہوجاتی ہیں لیکن بہت سی بیماریوں جیسے چھاتی یا رحم کا کینسر، بلڈپریشر، زیابیطس وغیرہ بیماریوں کی موجودگی میں ایسٹروجن دینا بہت نقصاندہ ہوسکتا ہے۔
آخر میں ایک بہت اہم اور قابل توجہ بات یہ ہے کہ مینوپوز کے بعد بھی اگر خون آنے کا سلسلہ جاری رہے تو اسے نظر انداز نہیں کرنا چاہیے اور فوراً ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے۔