مینیو پلاننگ، دراصل خوراک کی منصوبہ بندی ہے، یعنی جو بھی غذا استعمال کی جائے اس کے بارے میں پہلے سے سوچنا کہ اس سے کیا غذائیت اور فوائد حاصل ہوں گے، اسے تیار کرنے میں کتنا وقت درکار ہوگا؟ کس کے لیے تیار کی جا رہی ہے اور اس پر کتنی رقم خرچ ہوگی۔ بہ ظاہرایک خاتون خانہ کے لیے یہ کام بہت آسان ہے، لیکن اگر غور کیا جائے تو یہ ایک خاصا پیچیدہ عمل بھی ہے کہ یہی غذائی منصوبہ بندی ایک سائنس اور آرٹ کہلاتی ہے۔
قبل ازوقت غذائی منصوبہ بندی سے وقت ضائع نہیں ہوتا اور ساتھ تمام اہل خانہ کی غذائی ضرورت کی تکمیل کے ساتھ بہتر صحت حاصل ہوتی ہے اور ساتھ ہی گھریلو خاتون کو کھانا پکانے کے علاوہ دوسرے کاموں کے لیے بھی وقت مل جاتا ہے۔ یوں محض ایک آدھ گھنٹے میں وہ پورے ہفتے کا مینیو بنا سکتی ہے۔ اس طرح روزانہ سر پکڑ کر سوچنے اور پھر خریداری سے بچا جاسکتا ہے۔ بس، جو اشیا مینیو میں شامل ہوں، ان کی فہرست بنا کر ہفتے میں ایک مرتبہ خریداری کرلی جائے۔ اس طرح اکٹھی خریداری سے پیسوں کی بھی بچت ہوگی اور تمام افراد خانہ کے لیے ان کی ضرورت اور پسند کے مطابق مینیو ترتیب دینے میں بھی آسانی ہوجائے گی۔
فہرست طعام ترتیب دیتے وقت اس بات کا خیال رکھیں کہ اس سے گھر کے تمام افراد کی غذائی ضروریات پوری ہو رہی ہوں، کیوں کہ مختلف عمر اور مختلف کام کرنے والے افراد کی غذائی ضروریات ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہیں اور اس ضرورت کو پورا کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ جس قدر غذائی گروپ بتائے جاتے ہیں، ان میں سے ہر گروپ میں سے ایک ایک چیز منتخب کر کے اسے روزانہ کی غذا میں شامل کرلیا جائے، تاکہ گھر کے تمام افراد کو مناسب مقدار میں پروٹین، حیاتین، معدنی نمک، کاربو ہائیڈریٹ اور چکنائی حاصل ہوسکے۔ یاد رہے غذا کے پہلے گروپ میں گوشت، مچھلی، مرغی انڈا اور دالیں شامل ہیں۔ دوسرے گروپ میں ہر قسم کی سبزیاں اور پھل تیسرے گروپ میں چاول اور سب قسم کے اناج شامل ہیں جب کہ چوتھے گروپ میں شکر، گھی اور ہر قسم کی چکنائی اور پانچویں گروپ میں دودھ، دہی، لسی اور دودھ سے تیار کردہ اشیا شامل ہیں۔
ان تمام گروپس کو سامنے رکھ کر روز مرہ فہرست طعام بہ آسانی ترتیب دی جاسکتی ہے۔ مثلا پہلے گروپ میں سے گوشت یا دال میں سے کوئی ایک چیز لی جاسکتی ہے اور دال کے ساتھ دہی یا لسی استعمال کی جاسکتی ہے۔ اس سے پروٹین حاصل ہوگا، پھر ایسا بھی کیا جاسکتا ہے کہ مختلف قسم کی دالیں ملا جلا کر پکائی جائیں اور دوسرے گروپ میں سے کسی سبزی کا انتخاب کر کے ان کے ساتھ شامل کرلیا جائے یا پھل کھا لی جائیں۔ اس طرح معدنی نمک اور حیاتین حاصل ہوں گے۔ سبزیوں کا انتخاب کرتے وقت اس بات کا خیال رکھیں کہ کبھی سبز پتوں والی سبزی پکائی جائے، تو کبھی زرد رنگ سبزی اور یہ بات بھی ذہن میں رکھیں کہ زرد رنگ سبزیوں میں کیروٹین ہوتی ہے، جو جسم میں جاکر ہضم ہوجانے کے بعد وٹامن اے میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ نیز، روز مرہ غذا میں سبزیوں کے ساتھ پھلوں کا شامل کرنا بھی ضروری ہے، کیوں کہ ان ہی کے استعمال سے وٹامن سی حاصل ہوسکتا ہے۔
عموماً گوشت یا دال، سبزی کے ساتھ ہم چاول یا روٹی کھاتے ہیں، تو روٹی ہر طرح کے اناج سے تیار کی جاسکتی ہے۔ جہاں تک اناجوں کے استعمال کا تعلق ہے، تو گیہوں یا گندم کے علاوہ جوار، باجرے اور مکئی کی روٹی بھی کھالی جائے تو کوئی مضائقہ نہیں۔ پھر دودھ، دہی، لسی اور دودھ سے تیار شدہ چیزیں استعمال کرنے سے جسم کو ضرورت کے مطابق کیلشیم مل جاتا ہے، لہٰذا ایک بہترین فہرست طعام ہر قسم کی غذاؤں کو شامل کر کے ہی تیار کی جائے، تو جسم کی تمام غذائی ضروریات اچھی پوری ہوسکتی ہیں۔ پھر جو مینیو ترتیب دیا جائے، وہ گھریلو بجٹ اور خاندان کی آمدنی کے مطابق ہی ہونا چاہیے، یہ نہ ہو کہ مہینے کے شروع میں تو کھانے پر بے جا خرچ کرلیا جائے اور آخر میں غذا یکسانیت کا شکار ہوجائے۔ ایک عام مشاہدے کے مطابق کم آمدنی والے افراد 60 تا 75 فی صد، درمیانی یا متوسط آمدنی والے افراد 40 تا 50 فیصد اور زیادہ آمدنی والے افراد 25 تا 30 فیصد روپیہ کھانے پینے ہی پر صرف کرتے ہیں۔
زیادہ یا متوسط آمدنی والے لوگوں کے لیے غذا کا انتخاب اور خاص مقدا رکا حصول زیادہ مشکل نہیں، مگر کم آمدنی والے بھی اگر پہلے سے مینیو ترتیب دے لیں، تو ایک صحت بخش غذا کا انتخاب کر سکتے ہیں، لہٰذا ضروری ہے کہ پہلے سے اپنی ضروریات کا تعین کیا جائے، موسمی پھل اور سبزیاں استعمال کی جائیں، آدھی یا پوری تیار شدہ غذائیں نہ خریدی جائیں، گوشت کا متبادل دالیں، پھلیاں وغیرہ بھی استعمال کی جائیں اور غذا کو ترتیب دیتے وقت نہ صرف بھرپور غذائیت کا خیال رکھا جائے بلکہ غذا کا خوش ذائقہ ،خوش رنگ اور نفسیاتی طور پر تسلی بخش ہونا بھی ضروری ہے۔lll