ہم سمجھتے ہیں کہ بس انسان چاقو، چھری اور گولی سے ہی زخمی ہوتا ہے۔ کوئی حادثہ ہوتا ہے اور انسان زخمی ہوکر چلانے لگتا ہے … کہیں کوئی جھگڑا ہوا، چھری چاقو، گولیاں اور لاٹھیاں چلیں ا ور انسان زخموں سے کراہنے لگے… اور بس… اسی طرح کی بہت ساری باتیں۔
لیکن مجھے لگتا ہے … اور میں دیکھتا بھی ہوں کہ یہ جو ہمارے منہ میں ایک چھوٹا سا گوشت کا لوتھڑا ہے، جسے ہم ’’زبان‘‘ کہتے ہیں … یہ بہت مہلک اور خطرناک ہتھیار ہے۔ بہت ہی سفاک اور بے حس… اس سے سب سے زیادہ لوگ زخمی ہوتے ہیں … اور زخمی بھی ایسے جو نظر بھی نہیں آتے … اس کا لگایا ہوا گھاؤ نظر ہی نہیں آتا۔ زخموں کا تو یہ ہے نا کہ جناب! مرہم پٹی کی، تھوڑے دن تکلیف برداشت کی … ٹھیک ہے بہت کرب ناک ہوتے ہیں وہ دن بھی … مگر وہ مندمل ہونا شروع ہوجاتے ہیں …پر اس کا نشان رہ جاتا ہے اور پھر ہم دیکھتے ہیں کہ وہ نشان بھی غائب ہوگیا۔ ہم اپنے بہت سارے زخموں کو بھول بھی جاتے ہیں… ہمیں یاد نہیں رہتا کہ یہ زخم ہمیں لگا تھا … اتنا خون نکلا تھا … یاد ہی نہیں رہتا۔
لیکن یہ جو زبان کا زخم ہے نا یہ بہت برا زخم ہے۔ … رستا رہتا ہے … رستا رہتا ہے … کبھی بھرتا ہی نہیں … ہر دم تا زہ اور رستا ہوا۔ میری ایک رضاعی ماں نے بچپن میں مجھے ایک کہانی سنائی تھی۔ میں آپ کو سناتا ہوں۔
ہوا یوں کہ ایک گاؤں میں ایک آدمی رہتا تھا۔ بہت اچھا… وہ مخلوقِ خدا سے بہت محبت کرتا تھا۔ انسانوں سے ہی نہیں … جانوروں سے بھی… پرندوں سے بھی … حشرات الارض سے بھی، یہ جو کیڑے مکوڑے ہوتے ہیں نا … درختوں سے بھی … پھولوں سے بھی … ہر ایک سے محبت۔ بس وہ محبت میں گندھا ہوا بندہ تھا۔ محبت اور سراپا محبت … گاؤں کے ساتھ ہی ایک جنگل تھا جس میں بہت سارے جانور رہتے تھے۔ وہ روز جنگل جایا کرتا… پرندوں کے لیے دانا لے کر اور جانوروں کے لیے بھی کچھ نہ کچھ لے کر جاتا۔ اس کی محبت میں جانور بھی مبتلا تھے۔ یہ محبت جو ہے نا … پتھروں کو بھی پگھلا دیتی ہے۔ بہت بڑی طاقت ہے یہ… اگر آپ کے گھر میں کوئی جانور یا پرندہ ہے … آپ دیکھتے ہیں کہ وہ آپ سے کتنا مانوس ہوتے ہیں۔ کتنا پیار کرتے ہیں وہ آپ سے… تو جنگل کے سارے جانور اس کی محبت کے اسیر تھے … بے حد محبت کرنے والے … انہی جانوروں میں ایک چھوٹا سا سور بھی تھا۔ آپ ناراض نہ ہوں، وہ بھی اللہ کی مخلوق ہے… ضرور کوئی حکمت ہوگی کہ اللہ نے اسے بھی بنایا ہے۔ تو وہ اس کا بھی بہت خیال رکھتا تھا۔ گاؤں کے بہت سے عقل والے، داناو بینا لوگ اسے بہت منع کرتے کہ تم سور کا خیال مت رکھا کرو۔ تو وہ کہتا: کیوں! کیوں نہ رکھوں؟ یہ بھی اللہ کی مخلوق ہے۔
بہت پاگل سا تھا نا وہ… یہ پاگل لوگ بھی عجیب ہوتے ہیں۔ اپنی دنیا میں مست … کوئی بھی انہیں نہیں روک سکتا … وہ اپنا کام کرتے رہتے ہیں … کسی کی پروا نہیں کرتے وہ … تو وہ باز نہیں آیا اور جانوروں سے اور اس چھوٹے سے سور سے بھی محبت کرتا تھا… ان کا خیال رکھتا تھا۔
پھر ہوا یوں کہ اس کے بچوں کی شادی تھی۔ بہت دھوم دھام سے تیاریاں ہورہی تھیں۔ اس نے سب گاؤں والوں کو بھی دعوت دی اور ساتھ ساتھ وہ جنگل بھی گیا اور جانوروں سے، شیرسے، چیتے سے، لومڑی سے، کتے سے، بھالو سے، بندرسے، ہدہد سے، چڑیا سے، کبوتر سے … وہ سب کو دعوت دے رہا تھا کہ آپ سب بھی ضرور آنا شادی پر… میں نے تمہاری دعوت کا بھی اہتمام کیا ہے … تم ضرور آنا … وعدہ کرو آؤگے نا… تو سب نے کہا کیوں نہیں ضرور آئیں گے ہم ۔ آخر میں وہ اس چھوٹے سے سور کے پاس پہنچا اور اسے شادی میں آنے کے لیے کہا۔ تو سور بولا: دیکھو تم بہت اچھے ہو، مجھے لوگ اچھا نہیں سمجھتے۔ مجھے مت بلاؤ۔ میرا کھانا یہیں بھیج دینا۔ میں کھالوں گا اور خوش ہوجاؤں گا۔ تمہاری خوشی میری خوشی ہے۔ مبارک ہو تمہیں۔‘‘
لیکن وہ نیک دل بولا: نہیں … نہیں … تمہیں ضرور آنا ہے چاہے کچھ بھی ہوجائے تم میرے دوست ہو۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ تم نہ آؤ… میں ناراض ہوجاؤں گا۔‘‘
سور نے لاکھ سمجھایا پر وہ نہ مانا۔ آخر وہ شادی میں جانے پر آمادہ ہوگیا۔
پھر وہ گھڑی بھی آپہنچی جب شادی کی تقریب میں مہمان آرہے تھے … سب خوشی خوشی آرہے تھے۔ آخر میں وہ سور بھی چھپتا چھپاتا آیا اور کونے میں بیٹھ گیا… لیکن گاؤں کے ایک شخص نے اسے دیکھ لیا اور وہ چلانے لگا ’’دیکھو یہ نحوست‘‘ آگیا ہے، گندا اور منحوس جانور … توبہ توبہ … اسے باہر نکالو…‘‘ پھر تو سارا گاؤں اور اس شخص کے سارے رشتہ دار چیخنے لگے… باہر نکالو… باہر نکالو اسے۔ اس نیک دل نے کہا: ’’آپ سب لوگ تشریف رکھیں یہ بھی اللہ کی مخلوق ہے اور یہ تو بہت دور بیٹھا ہوا ہے، آپ کو تو کچھ بھی نہیں کہہ رہااور پھر یہ میرا مہمان ہے … میںنے اسے بلایا ہے … آپ ایسا نہ کریں خدا کے لیے …‘‘
لیکن جناب وہ کہاں سننے والے تھے۔ بس ایک ہی آواز تھی اسے باہر نکالو… گندے جانور کو… منحوس کو…
اس نے بہت کوشش کی مگر بے سود … اتنے میں وہ سور اس کے پاس آیا اور کہنے لگا ’’میںنے آپ کو پہلے ہی منع کیا تھا پر آپ نہیں مانے … اب آپ کو میرا ایک کام کرنا ہی ہوگا۔‘‘
اس نے پوچھا َ ’’ہاں بولو … کیا کام ہے…؟‘‘
تب وہ بولا: ’’تم اس کلہاڑے سے میرے سر میں زخم لگادو۔‘‘
وہ نیک دل بہت گھبرایا اور کہنے لگا : ’’نہیں … نہیں… میں یہ کام نہیں کرسکتا … بالکل بھی نہیں … میں یہ کیسے کرسکتا ہوں۔‘‘
تب سور نے کہا: ’’دیکھو آپ نے مجھے بلایا تو میں آگیا، اب اگر آپ نے میرے سر میں کلہاڑا نہ مارا تو میں آپ سے بہت ناراض ہوجاؤں گا۔‘‘
آخر اس نیک دل شخص نے بہت اداس ہوکر اس کے سر میں کلہاڑا مارا۔ خون کی ایک دھار نکلنے لگی اور وہ چھوٹا سا سور کا بچہ جنگل کے راستے پر جانے لگا۔ خون کا فوارہ پھوٹا ہوا تھا اور راستہ اس سے رنگین ہورہا تھا۔ سب لوگ اسے دیکھ رہے تھے۔ کسی کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ یہ سب آخر کیا ہے۔
شادی کی تقریب ختم ہوگئی تھی۔ وہ نیک دل انسان مرہم پٹی لے کر اس کے پاس پہنچا۔ وہ روزانہ اس کی مرہم پٹی کرتا تھا۔ اس کی تیمار داری کرتا تھا اور ہمیشہ معلوم کرتا تھا کہ آخر یہ تم نے کیوں کیا … ایسا کس لیے کیا … اتنی تکلیف میں ہو توتم مجھے بہت دکھ ہے۔ … تو وہ ہنس کے ٹال دیتا اور کہتا بتاؤں گا کبھی تمہیں ضرور بتاؤں گا۔
پھر وہ دن بھی آیا جب وہ بالکل پہلے کی طرح بھلا چنگا ہوگیا اور پھر آہستہ آہستہ اس کے زخم کا نشان بھی ختم ہوگیا۔
ایک دن اس نیک دل نے بہت اصرار کیا کہ اس راز سے پردہ اٹھاؤ۔ کیوں کیا تھا تم نے ایسا … تو سور بہت ہنسا اور کہنے لگا: کوئی ایسی بات نہیں ہے، بس اتنی سی تو بات ہے کہ ’’دیکھو کتنا کاری زخم تھا سر میں، مرہم پٹی کی، ٹھیک ہوگیا اور اب تو اس کا نشان بھی نہیں رہا … لیکن …
ہاں ہاں بتاؤتم خاموش کیوں ہوگئے، وہ نیک دل بے چین ہوگیا۔
ہاں … آپ نے دیکھا اس دن لوگوں نے کیسی کیسی باتیں کیں، میں گندا ہوں۔ منحوس ہوں، بہت برا ہوں، آپ نے سنی تھیں نا…!
ہاں ہاں سنی تھیں۔
تو دیکھو میرے دل میں آج بھی وہ زخم تازہ ہے … اس زخم کا خون رک ہی نہیں رہا … ہر وقت تازہ رہتا ہے ۔ ہتھیار سے جو زخم لگے بھر جاتا ہے اور جو زبان سے زخم لگ جائے وہ کبھی نہیں بھرتا۔ کبھی بھی نہیں … بس یاد رہتا ہے۔
یہ کہانی سنا کر میری ماں مجھے کہتیں، مجھے اب بھی بہت اچھا لگتا ہے وہ جملہ:
’’دیکھو بیٹا! میٹھی زبان خوشبو اور کڑوی زبان بدبو۔‘‘
میری وہ ماں بہت بھولی بھالی سی تھیں۔
آج صبح ہی ایک واقعہ ہوگیا تھا … میری ایک بہت عزیز بہن نے کہا: شامل بھائی! دیکھئے یہ کیا کہہ دیا گیا مجھے … بس مجھے کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کیا کروں … مجھے آپ سب سے ایک بات کہنی ہے، ہم کیوں اپنی زبان سے معصوموں کو زخمی کرتے رہتے ہیں۔ ہم ان کو حوصلہ نہیں دے سکتے۔ نہ دیں… بالکل بھی نہ دیں لیکن یہ کیا کہ ہم سفاکی پر اترآتے ہیں! دن بھر ہم کتنے اچھے اچھے لوگوں کو اپنی زبان سے زخمی کرتے رہتے ہیں۔
مت کیجیے کسی کی مدد… بالکل بھی نہ کیجیے… لیکن انھیں ایذا بھی تو نہ پہنچائیے نا…
خوش رہیے … آباد رہیے… دل شاد رہیے… زندگی رہی تو باتیں ہوتی رہیں گی۔ میرا رب آپ کو سدا سکھی رکھے۔