ہمارے پڑوس میں ایک لڑکی رہتی تھی۔ بڑی خوش اخلاق، خوب صورت، تعلیم یافتہ اور امیر ماں باپ کی بیٹی تھی۔ جب بھی ہمارے گھر آتی گھریلو الجھنوں، پریشانیوں کا دکھڑا سناتی۔ میاں سے نہ بنتی تھی۔ وہ اکثر کہا کرتی تھی کہ میں بڑی کوشش کرتی ہوں کہ ’’وہ‘‘ خوش رہیں۔ ساس نندوں سے بھی وہ بڑا اچھا سلوک کرتی تھی۔ مگر پھر بھی ان کا آپس میں ہر وقت جھگڑا رہتا۔ ایک دن میں ان کے گھر سوئیٹر کا ایک نمونہ لینے گئی۔ صحن میں اس کے تینوں لڑکے آنکھ مچولی کھیل رہے تھے۔ ایک بڑی سی میز پہ دھلے ہوئے کپڑوں کا ڈھیر پڑا ہوا تھا۔ ایک لڑکا ان کپڑوں میں چھپا ہوا تھا۔ دوسرا چارپائی پر پڑے ہوئے بستروں کے ڈھیر میں چھپنے کی کوشش کررہا تھا۔ مجھے دیکھ کر وہ تینوں میرے پاس کھڑے ہوگئے سب سے چھوٹے نے جلدی سے میرے برقع کے اوپر والے حصہ کو اتنے زور سے کھینچا کہ وہ اتر گیا اور وہ لڑکا لے کر بھاگ گیا۔ اور دروازے کے پاس جاکر پہننے لگا۔ دوسرے نے میری سلائیوں پر جھپٹا مارا ایک سلائی ٹوٹ گئی تو تیسرے نے جلدی سے ٹکڑے اٹھاتے ہوئے کہا ’’اب ہم بھی اون لے کر بنیں گے۔‘‘ یہ سب کچھ انھوں نے اتنی جلدی کیا کہ میں کچھ سوچ ہی نہ سکی کہ اب مجھے کیا کرنا چاہیے۔ اتنے میں اس کی برتن دھونے والی آگئی۔ برتن سارے صحن میں ادھر ادھر ایسے بکھرے پڑے تھے جیسے یہ بھی آنکھ مچولی ہی کھیل رہے ہوں۔ مجھے ایسا لگا جیسے ابھی ان برتنوں میں سے کوئی اٹھے گا اور میرے برقع کے دوسرے حصے کو لے اڑے گا، یا میری دوسری سلائی توڑ کر اون کو گیند سمجھ کر لے اڑے گا۔ مگر انھوں نے کچھ بھی نہ کیا بلکہ اسی طرح بے بسی اور بے چارگی کی تصویر بنے بڑی پُر امید نظروں سے برتن دھونے والی کی طرف دیکھنے لگے جو کہ انہیں سمیٹ رہی تھی۔ ایک بڑا ہی پیارا سا کتا جو چولہے کے پاس بیٹھا ہوا دودھ والی دیگچی کو صاف کرنے کی ناکام کوشش کررہا تھا اسے دیکھ کر باورچی خانہ میں گھس گیا۔ وہاں چند مرغیاں بڑے مزے سے ایک پلیٹ میں پڑے ہوئے چاول کھا رہی تھیں۔ جب انھوں نے کتے کو دیکھا تو ڈر کر ادھر ادھر بھاگیں۔ ایک الماری پر چڑھ گئی وہاں پڑا ہوا ایک کانچ کا جگ اور دو پلیٹیں نیچے آگریں اور ٹوٹ گئیں۔ مجھے اس کی اس لاپروائی سے بڑی حیرانی ہوئی کہ اتنی دیر ہوگئی خود نہ جانے کہاں ہے۔ برتن دھونے والی نے سب کمروں میں دیکھا پھر چھت پر گئی۔ تھوڑی دیر بعد وہ دونوں نیچے آگئیں۔ جب میری پڑوسن نے مجھے دیکھا تو بڑی خوش ہوئی۔ میں نے پوچھا کہ اتنی دیر کہاں رہیں۔ تو کہنے لگی: ’’مجھے پڑھنے کا بڑا شوق ہے۔ رسالہ پڑھ رہی تھی۔ میرا خیال تھا کہ جب وہ ٹوٹے ہوئے برتن دیکھے گی تو ضرور افسوس کرے گی مگر اس نے صرف اتنا کہا کہ یہ کمبخت مرغیاں بڑاتنگ کرتی ہیں۔ ہر روز کوئی نہ کوئی برتن توڑ دیتی ہیں۔ جب میں نے اسے بتایا کہ میں تو اس طرح ایک نمونہ دیکھنے آئی ہوں مگر ایک سلائی تو اس طرح ٹوٹ گئی اور اون کا سرخ رنگ کا گولا بچے لے گئے۔ تو وہ کہنے لگی کہ بچے بڑے تماشے کرتے ہیں۔ جو بھی ہمارے گھر میں آتا ہے یہ اسی طرح سے اسے تنگ کرتے ہیں۔ تم تو ہمارے گھر پہلی بار آئی ہو۔ اگر روز آؤ تو معلوم ہوکہ یہ کیا کیا کرتے ہیں۔ بچوں کے بغیر تو گھر میں رونق ہی نہیں ہوتی۔ ان کے ابّا جان تو بڑے عجیب ہیں انہیں ہر وقت ٹوکتے رہتے ہیں کہ ایسی باتیں نہ کیا کرو۔ مگر میں انہیں کچھ نہیں کہتی یہی دن تو ان کے کھیل کود کے ہیں۔ یہ کہہ کر وہ چند ایک سوئیٹروں کے نمونے لے آئی۔ ان میں سے مجھے ایک بہت ہی پسند آیا۔ جب طریقہ پوچھا تو کہنے لگی:
’’میں نے کبھی نٹنگ ورک نہیں کیا۔ کیا مصیبت ہے۔ سارا دن سلائیاں چلاتے رہو۔ یہ سب کام اسی برتن دھونے والی کی لڑکی سے کروایا ہے۔ پیسے تو دوسروں کی نسبت زیادہ ہی لیتی ہے مگر بناتی اچھا ہے۔‘‘ پھر وہ مجھے اندر لے گئی۔ بہت سے میز پوش اور تکیوں کے غلاف دکھائے کہ یہ سب اسی لڑکی نے بنائے ہیں۔ ’’یہ‘‘ تو مجھے اکثر کہتے رہتے ہیں کہ ایسے کام خود کیا کرو۔ اتنی آمدنی نہیں کہ ہر کام دوسروں سے کروایا جائے۔ سارا دن فضول فلمی رسالے پڑھتی ہو۔ وقت ضائع کرتی ہو۔ مگر مجھے ایسے کاموں سے کوئی دلچسپی نہیں۔ سارا دن سوئی لے کر بیٹھے رہو۔ مجھے بڑی حیرت ہوئی کہ اس کے گھر میں سب سامان نہایت قیمتی اور نفیس ہے۔ سامنے الماری میں تین واٹر سیٹ رکھے تھے مگر تینوں نامکمل۔ دو ٹی سیٹ تھے مگر وہ بھی ادھورے، دو ڈنر سیٹ تھے وہ بھی اسی طرح پلیٹس ٹوٹی ہوئی چمچیں غائب۔ غرض ہر چیز خراب حالت میں۔ وہ باتیں کر ہی رہی تھی کہ اس کا ننھا لڑکا برقع کا اوپر والا حصہ اوڑھے ہوئے آیا اسے دیکھ کر وہ بڑی ہنسی پھر کہنے لگی۔ دیکھا کتنا شریر ہے یہ اسی طرح کرتا ہے۔ میرا خیال تھا کہ وہ ضرور اسے ڈانٹے گی کیونکہ برقع کا برا حال کردیا گیا تھا۔ دو تین جگہ کیچڑ اور چونا لگا ہوا تھا۔ اس کی یہ حالت دیکھ کر مجھے بہت افسوس ہوا مگر میں کچھ نہ کہہ سکی۔ برقع فرش پر پھینک کر وہ دوڑتا ہوا گیا اور ایک بڑا سا چاقو اور مالٹا لے آیا خود ہی کاٹنے لگا۔ میں نے کہا کہ خود کاٹ کر دیں کہیں لگ نہ جائے تو کہنے لگی۔ نہیں میرے بچے خود ہی کھاتے ہیں میرا کہنا نہیں مانتے اگر میں سالن وغیرہ پلیٹوں میںڈال کردوں تو نہیں لیتے خود ہی نکالتے ہیں اپنی مرضی سے اور خود ہی کھاتے ہیں۔ مگر ان کے ابا کو برا محسوس ہوتا ہے۔ میری تو خیر کوئی بات بھی اچھی نہیں لگتی۔ دفتر سے آتے ہی چیزوں کو سنبھالنے لگتے ہیں۔ بچوں کے کپڑے بدلنے لگتے ہیں۔ ہر ہر چیز کا بہت ہی خیال رکھتے ہیں۔ بڑی عجیب عادت ہے۔ کہتے ہیں تمہیں پیسہ کی قدر نہیں۔ تم لاپرواہ ہو۔ بعض اوقات تو میں بہت تنگ آجاتی ہوں انہیں میری ذرا بھی قدر نہیں۔ حالانکہ میں اتنا جہیز لائی ہیں۔ شکل وصورت میں اچھی ہوں۔ میٹرک تک تعلیم ہے۔ اتنی اچھی آواز ہے۔ سب میرا گانا سننے کے بہت مشتاق رہتے ہیں۔ بچے بھی اللہ نے دیے ہیں۔ مگر پھر بھی یہ ہر وقت افسردہ اور پریشان رہتے ہیں حالانکہ میں نے کبھی لڑائی جھگڑا بھی نہیں کیا۔ یہ کہہ کر وہ خاموش ہوگئی۔ میرا دل چاہا کہ کہہ دوں کہ اصل وجہ کیا ہے۔ تمہارے جھگڑے کی مگر …… مگر میں کچھ نہ کہہ سکی۔