ایک تھا لڑکا۔ بڑے گھر میں رہتا تھا اور گھر تھا پہاڑی کی چوٹی پر۔ گھوڑے اور کتے اسے بہت پسند تھے۔ پیراکی، فٹ بال اور لمبی سیر اس کے مشاغل تھے۔ زندگی سہل اور دلچسپ تھی، سوائے اپنا کمرہ صاف ستھرا رکھنے کے جو کہ اسے بالکل پسند نہ تھا۔
ایک دن اس نے خدا سے کہا: ’’اے خدا! میں سوچتا رہتا ہوں۔ اور اب مجھے یقین ہوگیا ہے کہ میں کیا چاہتاہوں۔‘‘
’’کیا چاہتے ہو؟‘‘ خدا نے پوچھا
’’میں ایک بڑے گھر میں رہنا چاہتا ہوں۔ جس کے چاروں طرف خوبصورت برآمدے ہوں اور پیچھے ایک بڑا سا باغ۔ اور میں ایسی لڑکی سے شادی کرنا چاہتا ہوں جو بہت خوبصورت ہو۔ لمبا قد اور خوبصورت سیاہ بال، نیلی آنکھیں اور سحر انگیز آواز۔ جب گٹار بجائے تو ساری فضا سحر آلود ہوجائے۔‘‘
’’اور میں چاہتا ہوں کہ میرے تین طاقتور بیٹے ہوں جو میرے ساتھ فٹ بال کھیل سکیں۔ جب وہ جوان ہوں تو ایک سائنس دان بنے، دوسرا سیاست دان اور تیسرا کھلاڑی، سبھی اپنے اپنے میدان میں نامور ہوں اور میں خودملک ملک گھوموں۔ میرے پاس خوبصورت سرخ گاڑی فراری ہو اور مجھے چیزوں کو ترتیب سے نہ رکھنا پڑے۔‘‘
’’یہ سب ایک اچھا خواب ہے، مگر میں تمہیں خوش دیکھنا چاہتا ہوں۔‘‘ خدا نے یہ سب سن کر کہا۔
فٹ بال کھیلتے ہوئے لڑکے کے گھٹنے پر شدید چوٹ آئی، چنانچہ وہ زیادہ گھومنے پھرنے سے معذور ہوگیا اور اس نے مارکیٹنگ کا پیشہ اپنا لیا اور ادویہ کی سپلائی کا کام شروع کردیا۔ اس کی شادی جس لڑکی سے ہوئی وہ بہت خوبصورت تھی۔ اس کے سیاہ لمبے بال تھے مگر قد چھوٹا اور آنکھیں بھوری۔ وہ گٹار نہیں بجا سکتی تھی، لیکن بہت عمدہ کھاناپکاتی اور خوبصورت تصویریں بناتی۔
اپنے بزنس کی وجہ سے لڑکے کو شہر میںسمندر کے کنارے ایک اپارٹمنٹ میں رہنا پڑا۔ جہاں وہ کتے اور گھوڑے نہیں پال سکتا تھا مگر اس کے پاس ایک خوبصورت بلی تھی۔
اس کی تین خوبصورت بیٹیاں تھیں۔ سب سے چھوٹی معذور تھی اور اسے بیساکھیوں کی ضرورت تھی مگر وہ بہت اچھا گاتی تھی۔ گٹار بھی بجاتی تو فضا جھوم اٹھتی۔ اس کی بیٹیاں اکثر اس کے ساتھ سیر کے لیے جایا کرتیں۔ وہ اس کے ساتھ فٹ بال نہیں کھیل سکتی تھیں۔ چھوٹی بیٹی کسی درخت کے سائے تلے بیٹھ کر گٹار پر کوئی سحر انگیز دھن بجاتی تو سبھی مسحور ہوجاتے۔
اس شخص نے اتنی رقم اپنے بزنس میں کمالی تھی کہ وہ آرام دہ زندگی بسر کرسکے۔ اس کے پاس قیمتی سرخ فراری نہ تھی اور کبھی کبھار اسے چیزیں بھی ترتیب سے رکھنا پڑتیں۔ آخر وہ تین بیٹیوں کا باپ تھا جو چیزیں بکھیر دیا کرتی تھیں۔
ایک صبح وہ بیدار ہوا تو اسے اپنا پرانا خواب یاد آگیا۔ ’’میں بہت اداس ہوں۔‘‘ اس نے اپنے دوست کو سارا خواب سنا کر کہا۔
’’مگر کیوں؟‘‘
’’میں چاہتا تھا کہ میری بیوی لمبی اور نیلی آنکھوں والی ہو، گا سکتی ہو اور گٹار بہت عمدہ بجاتی ہو۔ لیکن جو بیوی ملی، وہ نہ تو گاسکتی ہے نہ ہی گٹار بجاسکتی ہے۔ اس کا قد چھوٹا اور آنکھیں بھوری ہیں۔‘‘
’’تمہاری بیوی نیک اور خوبصورت ہے۔ عمدہ کھانے بناتی ہے اور خوبصورت تصویریں بناسکتی ہے۔‘‘ دوست نے کہا۔ لیکن وہ شخص نہیں سن رہا تھا۔
’’میں بہت اداس ہوں۔‘‘ ایک دن اس نے اپنی بیوی سے کہا۔
’’کیوں؟‘‘
’’میں نے ایک بڑے گھر میں رہنے کا خواب دیکھا تھا جس کے چاروں طرف برآمدہ اور پیچھے ایک بڑا سا باغ ہوتا۔ جہاں میں گھوڑے اور کتے پال سکتا… جبکہ میں ایک اپارٹمنٹ میں رہتا ہوں۔‘‘
’’ہمارا اپارٹمنٹ آرام دہ ہے۔ یہاں سے سمندر کا نظارہ ہوسکتا ہے۔ ہم ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں اور ہمارے پاس پرندے اور ایک خوبصورت بلی بھی ہے۔‘‘ مگر وہ سن نہیں رہا تھا۔
’’میں بہت اداس ہوں۔‘‘ ایک روز اس نے اپنے ڈاکٹر سے کہا۔
’’اچھا، کیوں؟‘‘
’’میں نے سوچا تھا میں ملک ملک گھوموں گا، مگر میں تو اپنے گھٹنے کی وجہ سے ایک جگہ رہنے پر مجبور ہوں اور مختلف لوگوں سے مل بھی نہیں سکتا۔‘‘
’’لیکن اپنے کاروبار کے سلسلے میں تم خاصے لوگوں سے ملتے بھی ہو اور ان کی مدد بھی کرتے ہو۔‘‘ ڈاکٹر بولا۔ وہ سن ہی نہیں رہا تھا اس لیے ڈاکٹر نے اپنی فیس وصول کی اور چلا گیا۔
’’میں بہت اداس ہوں۔‘‘ اس نے اپنے اکاؤنٹنٹ سے کہا۔
’’ہوں، لیکن کیوں؟‘‘
’’میں نے ہمیشہ سوچا تھا کہ میرے پاس قیمتی سرخ فراری ہوگی اور مجھے کبھی اپنا کام خود نہیں کرنا پڑے گا جبکہ مجھے بکھری ہوئی اشیاء بھی سیمٹنا پڑتی ہیں اور میری گاڑی بھی نہ قیمتی ہے نہ سرخ فراری۔‘‘
’’تم ہمیشہ قیمتی اور عمدہ لباس پہنتے ہو۔ اچھے ریستورانوں میں عمدہ کھانا کھاتے ہو اور تم نے پورے ملک کی سیر بھی کی ہے۔‘‘ مگر وہ سن ہی نہیں رہا تھا اس لیے اس کے اکاؤنٹینٹ نے اپنی تنخواہ وصول کی اور چلتا بنا کیونکہ وہ خود قیمتی سرخ فراری کا خواب دیکھ رہا تھا۔
’’میں بہت اداس ہوں۔‘‘ اس نے پادری سے کہا۔
’’کس لیے؟‘‘
’’میرا خیال تھا کہ میرے تین طاقتور بیٹے ہوں گے۔ ایک سائنس داں، ایک سیاست دان اور تیسرا کھلاڑی۔ اب میری تین بیٹیاں ہیں اور سب سے چھوٹی تو چل پھر بھی نہیں سکتی۔‘‘
’’مگر تمہاری بیٹیاں خوبصورت ہیں اور عقل مند بھی۔ تمہیں بہت چاہتی ہیں۔ ایک نرس ہے، دوسری آرٹسٹ اور چھوٹی تو بچوں کی مقبول استانی ہے۔ وہ انہیں موسیقی سکھاتی ہے۔ سبھی اپنے کام میں ماہر اور مطمئن ہیں۔‘‘
مگر وہ سن نہیں رہا تھا اور یوں وہ بہت بیمار ہوگیا۔ اسپتال میں طرح طرح کی مشینوں کے درمیان گھرا ہوا وہ بہت افسردہ اور پژمردہ لیٹا تھا۔ اس کے دوست، ساتھی، اہلِ خانہ اور پادری بستر کے چاروں طرف اداس اور پریشان موجود تھے۔ صرف اس کا ڈاکٹر اور اکاؤنٹینٹ خوش تھے۔
پھر ایک رات جب سب لوگ جاچکے تھے اور وہ اکیلا تھا اس نے خدا سے کہا: ’’ایک بار میں نے چند چیزوں کی خواہش کی تھی۔‘‘
’’وہ ایک عمدہ خواب تھا۔‘‘ خدا نے جواب دیا۔
’’مگر وہ سب کچھ مجھے کیوں نہیں ملا؟‘‘
’’ہاں، وہ تمہیں دیا جاسکتا تھا مگر میں تمہیں وہ چیزیں دے کر حیران کرنا چاہتا تھا جو تم نے نہیں مانگی تھیں۔‘‘
’’کیا تم نے کبھی غور کیا کہ تمہیں کیا ملا ہے؟ مہربان خوبصورت بیوی، اچھا کاروبار، اچھی عمدہ جائے رہائش، اور پیار کرنے والی بیٹیاں، ایک بہت آرام دہ سہل زندگی۔‘‘
’’ہاں ،ہاں۔‘‘ اس نے جلدی سے کہا: ’’مگر میرا خیال تھا مجھے وہی ملے گا جو میں چاہتا ہوں۔‘‘
’’اور میرا بھی خیال تھا کہ تم مجھے وہی دو گے جو میں چاہتا ہوں۔‘‘ خدا نے کہا۔
’’تمہیں کیا چاہیے؟‘‘ اس نے حیرت کے ساتھ خدا سے پوچھا؟ اسے کبھی خیال تک نہ آیا تھا کہ خدا بھی کسی چیز کا خواہش مند ہے۔
’’میں تمہیں خوش رکھنا چاہتا تھا، چنانچہ جو تمہارے لیے بہترین تھا وہ تمہیں دے دیا۔‘‘ خدا نے کہا۔
وہ تمام رات اندھیرے میں لیٹا سوچتا رہا۔ آخر کار اس نے جانا کہ وہ یہی کچھ چاہتا تھا جو اسے ملا۔ وہ خواب جو اس نے برسوں پہلے دیکھا تھا اسے عملی طور پر اسی صورت میں ہونا چاہیے تھا۔ تب وہ صحت مند ہونے لگا۔ سمندر کی اچھلتی لہروں کے نظارے اور اپنے اپارٹمنٹ میں خوبصورت موٹی بلی کو پیروں کے قریب سوتے ہوئے پاکر وہ مطمئن ہوگیا۔ بچیوں کی خوبصورت آوازیں اور بیوی کی نرم بھوری آنکھیں اسے فرحت بخشنے لگیں۔ اور رات کے اندھیرے میں دور شہر کی ٹمٹماتی روشنیاں دیکھ کر وہ اپنی موجودہ حالت پرشکر گزار ہوگیا۔ اوپر آسمان پر خدا نے مسکرا کر اس کی طرف دیکھا۔ وہ اسے ایسے ہی مطمئن اور شکر گزار دیکھنا چاہتا تھا کہ یہی اس کا اپنے اس بندے پر حق ہے۔
(مرکزی خیال ماخوذ)
——