آسیہ جب میری زندگی میں آئی، تو میں موٹرسائیکل کی نشست پر کھسک کر تھوڑا ساآگے ہو گیا۔ حالانکہ پہلے اماں کے لاکھ منع کرنے کے باوجود میں انگریزی فلم کے ہیرو کی طرح موٹرسائیکل کی نشست پہ کھسک کر بیٹھتا تھا۔ جب آسیہ امید سے ہوئی تو میں اس کے پھولے بدن کے سبب مزید کھسک کر تھوڑا سا موٹر سائیکل کی ٹینکی پرآ گیا۔ لیکن جب حماد دو ایک سال کا ہو کرآسیہ کی گود سے اتر کر ٹینکی پر بیٹھنے لگا، تو میں پھر کھسک کر واپس گدی پرآ گیا۔ تب تک آسیہ کا بدن بھی سمٹ گیا تھا۔
جب نعمان ایک سال کا ہو کرآسیہ کی گود سے اتر کر حماد کے آگے ٹینکی پر بیٹھا، تو نا ہی حماد اپنی فرنٹ سیٹ اسے دینے پر تیار ہوا اور نہ ہی اس بارآسیہ کے بدن نے پہلی جیسی فراخ دلی کا مظاہرہ کیا۔ لیکن اس کھینچا تانی میں میری پوزیشن مستحکم ہو گئی۔ ایسے میں طیبہ جب ایک سال کی ہو کر ٹینکی پرآئی، تو جیسے انقلاب آگیا۔حماد اپنے بڑھتے قد کے سبب ٹینکی سے کھسک کر میرے اورآسیہ کے بیچ پہنچا تو آسیہ کا بدن کھسک کر موٹر سائیکل کے کیرئیر سے ہوتا ہوا میں معلق ہو گیا۔ اس ساری صورتحال میں بیوی بچوں کے درمیان میں بظاہر پْرسکون نظرآتا۔ لیکن اپنے بڑھتے پیٹ کے ساتھ بس گزارے لائق ہی سانس لے پاتا۔
میں نے یہ ساری صورتحال کو ایک چیلنج کے طور پر لیا تھا۔ مگر ایک دن اپنی ہی نظروں میں رحم طلب بن بیٹھا۔ ہوا یہ کہ ایک عزیز کی شادی سے نکلتے ہوئے میرج ہال کے باہر موٹرسائیکل پر بچوں کو ’’فٹ‘‘ کر رہا تھا کہ اچانک میرا امریکا پلٹ چچازاد بھائی آفتاب اپنی نئی نویلی دلھن کے ساتھ گاڑی روک کر رحم بھری نظروں سے سارا منظر دیکھنے لگا۔ اس کی بیوی ہم پر اْچٹتی نگاہ ڈال دوسری طرف منہ کر کے کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی۔ منظر کا المیہ کم کرنے کے لیے آسیہ ہوا میں معلق بدن لیے موٹر سائیکل سے اتر گئی۔ لیکن تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔ میری موٹر سائیکل جو پہلے ہی مختصر سی تھی، اس کی گاڑی کے دونوں دروازوں کے بیچ کہیں ختم ہو گئی۔
پہلے توآفتاب نے کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا۔ پھرنچلا ہونٹ دانتوں میں دبا کر رک گیا جیسے ٹھیک الفاظ کا چنائو کر رہا ہو۔ میں سمجھ گیا کہ وہ الفاظ کا چنائو تو پہلے ہی کر چکا تھا، بس اب وہ وقت کی لگام زیادہ سے زیادہ دیر تک اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتا ہے۔ پل دو پل کے تھوڑے سے اس وقفے کے دوران ناچاہنے کے باوجود میرے چہرے کے تاثرات آپس میں گڈمڈ ہونے لگے۔ آخر کار پہلا لفظ منہ سے نکلنے تک میں بطور مجرم اس کے کٹہرے میں کھڑا رحم طلب نظروں سے دیکھنے لگا تاکہ وہ لفظوں کے گھائو تھوڑے کم ہی لگائے۔ ہم پانچوں اس کے سامنے مجرم کی طرح کھڑے تھے۔ یا صرف میں مجرم کے طور پر کھڑا تھا اور باقی چار میری نسبت سے مجرم بن گئے۔آفتاب نے اگلے سے پچھلے پہیے تک ہمارے اردگرد اچانک بننے والی کال کوٹھڑی پر مختصر نظر مارتے ہوئے آواز کا پہلا دھماکا کچھ یوں کیا:
’’یار رکشہ ہی کرا لیتے۔ اتنی ٹھنڈ میں بچوں پر رحم کرتے۔ تم بھی نہ ابھی تک وہیں کے وہیں کھڑے ہو جہاں میں چھوڑ گیا تھا۔ اچھا ایسا کرو، بچوں اور بھابی کو میرے ساتھ گاڑی میں بٹھا دو۔ میں تمھارے گھر کی طرف سے گھوم کر چلا جائوں گا۔ تم کو اپنی دوزخ کی ٹھنڈ میں لطف لیتے گھر پہنچ ہی جائو گے۔ ماشاء اللہ بچوںکی تعداد میں تو کافی ترقی کر لی ہے۔ بس اسی کام میں مجھ سے آگے بڑھ گئے۔ کوئی بات نہیں، میں بھی تمھارے راستے پر چل پڑا ہوں۔ اس راستے میں بھی تم سے آگے نکلوں گا۔‘‘
اس نے ایک قہقہہ چھوڑ کر اپنی باتوں کو مذاق کا رنگ دے دیا۔ لیکن میں اس کا پرانا ساتھی ہونے کے باعث قہقہوں کی تمام اقسام سے واقف ہونے کے کرب سے گزرنے لگا۔ اس نے ایک ہی لمحے میں مجھ پر کئی وار کیے۔ وہ زخم لگا کر، ان پر جمے کھرنڈ کو کچے زخموں سے اتار بھی رہا تھا۔ اس سے پہلے کہ میں کوئی جواب دیتا، حماد میرے پیچھے سے چھلانگ لگا گاڑی کے پاس کھڑا ہو کر اسے للچائی نظروں سے دیکھنے لگا۔ اس میں بیٹے کا بھی کوئی قصور نہیں تھا۔
اسے گاڑیوں کا بہت شوق تھا۔ روز رات کو سونے سے پہلے مجھ سے اپنی ویڈیو گیم کی فراری، میکلارن اور جیگوار کے بارے میں باتیںکرتا۔ موٹر سائیکل پر میرے ساتھ جاتے ہوئے راہ چلتی گاڑیوں کے نام پڑھتے ہوئے اپنے لیے گاڑی چن لیتا۔ ساتھ ہی ساتھ گاڑی حاصل کرنے کی معصوم تراکیب بھی بتاتا۔ جب سے اس نے نیشنل جیوگرافک چینل پر مرسڈیز کار بنتے دیکھی تھی، اس پر انجینئر بننے کا شوق سوار ہو گیا۔ گوبر کی گیس سے فیکٹری چلانے کاآئیڈیا روز رات کو میرے سامنے دوہراتا۔
کچھ ہی دنوں میں اس نے اپنے سات سالہ ذہن کے ساتھ پوری فیکٹری ڈیزائن کر لی۔ اب بس اسے اپنے بڑے ہونے کا انتظار تھا تاکہ وہ انجینئرنگ پڑھ سکے۔ وہ اردگرد سڑکوں پر بکھری گاڑیوں پر اپنا بھی حق سمجھتا تھا۔ میں نے اسے ایک بار سمجھانے کی کوشش کی بھی کی۔ لیکن اس دن ثابت ہوا کہ بچے کو دلائل سے تقدیر کا فلسفہ سمجھانا بہت مشکل ہے۔ جبکہ اس نے زندگی میں کوئی ناکامی بھی نہ دیکھی ہو۔ لیکن اس رات امریکا پلٹ حملہ اتنا اچانک اور شدید تھا کہ میرے ہی کور کمانڈر مجھ سے بغاوت پرآمادہ نظرآنے لگے۔ لیکن افسوس اس رات کا کہ یہ حملہ کسی بریکنگ نیوز کا حقدار نہیں تھا۔ حماد اپنے پسندیدہ بلی چوہے والے کارٹون کے جیری کی طرح للچایا گاڑی کے پاس پہنچ گیا۔ اسے پکڑنے کے لیے جب آسیہ گاڑی کے پاس گئی، توآفتاب نے ایک اور حملہ کیا: ’’بھابی! یہ تو سوچتا ہی رہے گا،آپ بچوں کے ساتھ گاڑی میں بیٹھیں۔ یہ اسی طرح سوچتا رہے گا اور دنیا کہیں کی کہیں پہنچ جائے گی۔‘‘
پتا نہیں سردی زیادہ تھی یاآفتاب کا جملہ اتنا ٹھنڈا کہ آسیہ بھی گاڑی کے قریب سْکڑ کر میری طرف انتظار بھری نظروں سے دیکھنے لگی۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ میرے گلے کی آواز سے وہ میری کیفیت کا اندازہ لگائے، اس لیے گردن کے اشارے سے اسے جانے کا کہہ دیا۔ وہ بھی شاید اسی انتظار میں تھی، جلدی سے بچوں کو لیے گاڑی میں بیٹھ گئی۔ میں ایک بار پھرآفتاب کے مزید کسی تلخ جملے کا انتظار کرنے لگا۔ لیکن وہ مجھ پر فاتحانہ نظر ڈالتا رخصت ہو گیا۔ اس کی بیوی ساری صورتحال سے لاتعلق مسلسل کھڑکی سے باہر دیکھتی رہی۔ گاڑی کچھ زیادہ ہی جلدآنکھوں کے سامنے سے رخصت ہو گئی۔ میں لْٹا پْٹا کچھ دیر وہیں کھڑا ان بحثوں کے متعلق سوچنے لگا جو میرے اورآفتاب کے درمیان اس کے امریکا جانے سے پہلے ہوتی تھیں۔
ان دنوں میرے اندر بہت توانائی تھی۔ میں کچھ ایسا کرنا چاہتا تھا جو اس دنیا میں میرے سوا کوئی اور نہ کر سکے۔ شاید ایسا سوچنے کی وجہ یہ تھی کہ میں عمر کے اس حصے میں تھا جب اپنے حوالے سے سب کچھ منفرد ہی نظرآتا ہے۔ اس عمر میں انسان بہت کچھ کرنے کی ہمت رکھتا ہے۔ میں اپنے ملک میں ہی رہ کر قسمت آزماکر دکھانا چاہتا تھا۔ جبکہ آفتاب اپنی آنکھوں میں امریکا کے خواب بسائے مجھے حقیقت پسند بننے کا کہتا رہا۔ وہ پھر امریکا چلا گیا اور وہاں پیسا کمانے لگا۔ اور میں بہ حیثیت کلرک اپنے ملک کے لیے کچھ ’’منفرد‘‘ کام کرنے لگا۔ میں کسی نا کسی طور اپنے تئیں خوش ہی جی رہا تھا۔ لیکن رات کے واقعہ نے میر تن بدن میںآگ لگا دی۔ ایک ہی پل میں وہ میرے بیوی بچوں کو مجھ سے چھین کر لے گیا۔
گھر تک پہنچتے پہنچتے باقی تمام باتوں پر سے میرا دھیان ہٹ چکا تھا۔ لیکن اس کا ایک دعویٰ میرے دماغ میں اٹک سا گیا۔ وہ میرے بچوں کی تعداد کو بھی مقابلے کے طور پر لے رہا تھا۔شاید وہ اس لیے اپنی جیت کے بارے میں پْرامید ہو گیا کہ میرے پاس موٹرسائیکل پر اب مزید جگہ نہیں بچی تھی۔ جبکہ اس کی گاڑی میں ابھی بہت سی جگہ باقی تھی۔ سوچ کی اس جنگ کے دوران سخت ٹھنڈ کے باوجود میرے ماتھے پر پسینہ آنے لگا۔ گھر پہنچا توآسیہ پہلے ہی پہنچ چکی تھی۔ میں نے اس سے سردمہری کا برتائو کیا۔ معلوم نہیں کیا وہ جان گئی کہ ایک ناکام مرد اسے تھوڑی دیر پہلے کی بے وفائی کی سزا دے رہا تھا۔
اس رات کے بعد جیسے میری اپنی آپ سے جنگ چھڑ گئی۔ بیوی بچوں کی چھوٹی بڑی ضرورتیں جنھیں پہلے میں ہنس کر ٹال دیتا تھا، اب میرا گریبان پکڑنے لگیں۔ کچھ ہی دنوں میں میرا وجود بیوی بچوں کی خواہشوں کے طوفان سے اٹ گیا۔ میں ڈھونڈ ڈھونڈ کر بیوی بچوںکی خواہشیں اپنے سینے پر سجانے لگا۔آسیہ کے بار بار پوچھنے کے باوجود میں اسے کچھ نہ بتا پاتا۔ بچے بھی میرے گھرآنے پر کچھ دیر میرا طواف کرنے کے بعد اپنے کاموں میں مصروف ہو جاتے۔ وہ بچے جن کا مستقبل مجھے بہت روشن لگتا تھا، اب میری ہی تاریکیوں میں غوطے کھانے لگے۔
آسیہ جو شروع شروع میں میری خاموشی کو نظرانداز کر رہی تھی، اب فکرمند نظرآنے لگی۔ بچے میرے اردگرد منڈلاتے ہوئے نہ جانے کیا کرتے رہتے۔آسیہ میری توجہ اپنی طرف نہ پا کر مجھے بار بار مائل کرتی۔ وہ بھی مجھے اس رات کے بارے میں کچھ بتانا چاہتی تھی۔ جب سے وہ آفتاب کی گاڑی پر چڑھی تھی، وہ بھی میری طرح پٹڑی سے اتر گئی۔ اس کی باتوں سے بظاہر یوں لگتا جیسے اسے سارا گلہ یہ تھا کہ گاڑی میں دوران سفر اس نے آفتاب کی بیوی کو دو تین بار مخاطب کیا۔ لیکن وہ کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوئے صرف ہوں ہاں ہی کرتی رہی۔
شایدآسیہ کو دکھ تھا کہ اس کی کسی بات کا اسے جواب نہیں ملا۔ کھڑکی سے پار دیکھتی آفتاب کی بیوی کی بے نیازی ابھی تک اسے سمجھ میں نہیں آرہی تھی۔ وہ روزانہ رات کو میرے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے اپنے اندر یہ کھوج لگاتی کہ درحقیقت اسے اس رات کی حقیقی چبھن کیا تھی؟ عام حالات میں اگرآسیہ میری ماں کے موضوع سے ہٹ کر کوئی بات کرتی تو وہ میرے لیے نعمت کے لمحات ہوتے۔ لیکن وہ تو ہر رات میرے سامنے میرا ہی سینہ کھول کر دکھ دیتی۔ مجھے تب اپنی ذات کے اندر عجیب زیاں کا احساس ہوتا۔
وہ سوال جو اس رات سے شروع ہوا تھا کہ کیا میں نے سارا کچھ کھو دیا؟ مجھے روندتے ہوئے آہستہ آہستہ اپنی تمام تر وحشت کے ساتھ میرے سامنے آرہا تھا۔آخر ایک رات آسیہ نے بے اختیاری میں کہہ ہی دیا: ’’کیاآپ امریکا جا کر نوکری نہیں کر سکتے؟‘‘ بظاہر بات سادہ سی تھی۔ لیکن میں جس بات سے لاشعوری طور پرآنکھیں چْرا رہا تھا، وہآسیہ نے میرے شعور پر دے ماری۔آسیہ کے اندر بھی اس رات سے برابرآگ لگی تھی۔ امریکا جانے والی بات سن کر جب میں نے اپنے اندر کھوج لگانے کی کوشش کی، تو مجھے اپنے اندر کے شکستہ کھنڈرات کی تاریخ اس رات سے بہت پرانی لگنے لگی۔ میں جسے کچھ کر دکھانے کا جذبہ سمجھتا تھا، وہ حقیقت میں میرے کسی خوف کا سجا سجایا لباس تھا۔ ورنہ حقیقت تو یہ تھی کہ میرے جیسا عام آدمی ملک کے اندر رہ کر اور کیا نیا کام کر سکتا تھا؟
اس رات آسیہ تو فقط ایک جملہ کہہ کر چلی گئی لیکن میں اپنی سوچوں کے بہائومیں لڑھکتا چلا گیا۔ ابھی میرا سفر جاری ہی تھا کہ حماد بھاگتا ہواآیا اورآ کر میرے سینے پر سوار ہو گیا۔ وہ نیشنل جیوگرافک چینل پر پیرس شہر کی نکاسی آب کا پورا نظام دیکھ کرآیا تھا۔ اس نے آتے کے ساتھ ہی پورے پیرس میں نکاسی آب کے نالوں کا نقشہ میرے سامنے کھول دیا۔ گندے پانی کوری سائیکل کرنے کی تفصیلات بتاتے ہوئے وہاں کے عملے کی کارگزاریاں بھی سناتا رہا۔خاص طور پر زیادہ بارش کی صورت میں اضافی پانی ٹھکانے لگانے کے لیے زیر زمین بچھے بڑے پائپوں کے بارے میں بتاتے ہوئے اس کی پھیلتی سکڑتی آنکھوں میں عجیب طرح کی چمک تھی۔ جیسے وہ خود بھی ایک نئی دنیا من میں بسا رہا ہو۔
کمرے سے جاتے ہوئے حماد نے پھراپنے انجینئر بننے کے عزم کو دہرایا۔ عام حالات ہوتے تو میں سب سے پہلے اس کی تعلیم کے انشورنس پلان کی رقم کے بارے میں اندازہ لگاتا کہ آیا وہ پندرہ سال بعد بھی مناسب رہے گی یا نہیں؟ ساتھ ہی حماد کا تخلیقی شعور وسیع ہونے کے بارے میں سوچ کر اندر ہی اندر خوش ہوتا۔ لیکن اب تو میں اپنی ہی خود شناسی سے محروم ہوا بیٹھا تھا۔ میں زندگی میں کیا کرنا چاہتا تھا… اس رات کے بعد میری زندگی کا یہ بہت بڑا سوال بن گیا۔ لیکن بجائے اس کے کہ میں سوال میں سے جواب لے کر ابھرتا، اتنا ہی ڈوب گیا۔ وہ باتیں جنھیں میں وقتی طور پر زندگی کے لیے ضروری ’’ایڈجسٹمنٹ‘‘ سمجھتا تھا، مجھے میری ہی نظروں میں گرانے لگیں۔
نجانے کیسے انہی سوالوں کے ساتھ آخر کار میں اپنی نظروں سے بچتے بچاتے ساری کارروائی پوری کرتے امریکی سفارت خانے کے دروازے سے اندر گھس گیا۔ میں کافی پْرامید تھا کہ میرا ویزا لگ جائے گا۔ کیونکہ اندر قدم رکھنے سے پہلے میں کئی مزاروں پر نیاز دلانے کی منتیں مان چکا تھا۔ اور تو اور ایک پرانی منت جو پوری ہو چکی تھی اور جس کی نیاز دلانا میں بھول ہوا تھا، وہ بھی میں نے سفارت خانے جانے سے پہلے دلا دی۔ ڈر تھا کہ کہیں وہی میرے آگے نہ آ جائے۔
اس کے باوجود سفارت خانے کے اندر قدم رکھتے ہی میرا خوف بڑھتا گیا۔ کیونکہ میں نے باہر جانے کی کچھ زیادہ ہی امیدیں لگا لی تھیں۔ نہ جانے کیوں صبح سے میرے دل کی دھڑکن بہت تیز تھی۔ صبح سے ہی زبان پر مقدس کلمات کا ذکر جاری تھا۔ میں ہی کیا سفارت خانے میں بیٹھے ہر شخص نے اپنے ہونٹوں پر کوئی نہ کوئی ذکر سجایا ہوا تھا۔ وہاں ہر کوئی اپنے خواب لے کرآیا۔ اپنی جگہ بیٹھے بیٹھے میں نے کئی لوگوں کوآنکھوں میںآنسو لیے شیشے کے کیبنوں سے انٹرویو دے کر باہرآتے دیکھا۔ کبھی کوئی بوڑھا جوڑا ایک دوسرے کو دلاسا دیتا ہوا باہرآ رہا تھا، تو کبھی کوئی دوبارہ مسترد ہونے پر انٹرویو لینے والے سے غصے میں بحث کرتا دکھائی دیتا۔ ایسے میں میری ٹوٹتی امیدوں نے میرے اندر خوف کا ایک بہت بڑا پہاڑ بنا دیا۔
دیکھتے ہی دیکھتے میں انٹرویو لینے والے کے سامنے پیش ہوا۔ سوالوں کے جواب دیے۔ مسترد ہو کر زبان پر گالیاں سجائی آنکھوں میں جھلملاتے آنسوئوں لیے ایک بار پھر دوزخ کی راہ والی۔ وہاں ایک بار پھر مجھے باہر پلٹ کر لوگوں کی نظروں کے سامنے شرمندہ شرمندہ گھومنا تھا۔ سفارت خانے سے گھر واپس آتے ہوئے مجھے آسیہ کے طلائی کانٹوں کا دکھ ہونے لگا۔ وہ باہر جانے کے چکر میں پہلے ہی جھٹکے میں کانوں سے اتر سنار کے پاس جا چکے تھے۔ گھر لوٹا توآسیہ میرے بوجھل قدموں سے اندازہ لگا کر سامنے کھڑی رونے لگی۔ میں نے بھی اس کے خالی کان دیکھتے ہوئے خود کوآنسوئوں کے حوالے کردیا۔ کچھ ہی دیر میں بچے وہاںآ کر ہم دونوں کو حیرانی سے دیکھتے ہوئے قریب کھڑے ہو گئے۔ باقی بچے تو خاموش رہے جبکہ حماد ہم دونوں سے رونے کی وجہ پوچھتا رہا۔
میں نڈھال ہو کر اپنے کمرے میں بستر پر لیٹ گیا۔ آسیہ بچوں کو لیے ٹی وی والے کمرے میں چلی گئی۔ اس سے پہلے کہ میں بستر پر لیٹ کر اپنی سوچ میں اِدھراْدھر بھٹکتا،آسیہ میرے پاس آ کر کہنے لگی: ’’میرا خیال ہے، آفتاب کی بیوی اس سے خوش نہیں۔آفتاب نے کئی بار اْسے بلایا بھی لیکن وہ مسلسل کھڑکی سے باہر دیکھتی رہی۔ باتوں باتوں میںآفتاب نے یہ بھی بتایا کہ جو مزہ اپنے ملک میں گاڑی چلانے کا ہے، وہ باہر نہیں ملتا۔ وہاں سبھی کے پاس گاڑی ہوتی ہے۔ اسی لیے اس نے بیوی کو اِدھر ہی رکھا ہوا تھا ورنہ اپنے وطن سے رابطہ بالکل کٹ جاتا۔ بقول اس کے وہ باہر بیٹھ کر اپنے بہن بھائیوں کے زیادہ کام آ رہا ہے۔ اس نے کئی گھروں کا ماہوار خرچہ بھی لگایا ہوا ہے۔آپ کی تنخواہ کا پوچھتے ہوئے کہہ رہا تھا کہ گزر بسر ٹھیک ہو جاتی ہے؟ میں نے کہہ دیا کہ ہماری زندگی اچھی کٹ رہی ہے۔ شاید وہ ہمارا ابھی مہینہ لگانا چاہتا تھا۔ پہلے اس لیے نہیں بتایا کہآپ کو برا لگے گا۔‘‘
یہ کہہ کرآسیہ چلی گئی۔ میں کمبل اوڑھ کر بندآنکھوں سے دیکھنے لگا کہ آفتاب مجھے پچکارتے ہوئے میرے ہاتھوں میں کشکول پکڑا رہا ہے۔ اس سے پہلے کہ میں کشکول میں پڑنے والے پہلے سکے کی آواز سنتا، مجھے حماد کی آوازآئی: ’’بابا جانی کمبل ہٹائیں،آپ سے بات کرنی ہے۔‘‘ ’’ہاں بات کرو، میں سن رہا ہوں۔‘‘ میں نے کمبل ہٹائے بغیر کہا۔ ’’بابا جانی مجھے بڑے ہو کر انجینئر نہیں بننا۔‘‘ ’’تو پھر کیا کرو گے؟‘‘ میں نے ٹالنے والے انداز میں پوچھا۔ ’’بابا جانی! میں بڑا ہو کر امریکا جائوں گا۔‘‘ میں نے جلدی سے کمبل اتار کر حماد کو دیکھا، مجھے پہلی بار اپنے بیٹے کا چہرہ بہت دھندلا دکھائی دیا۔lll