میں نے آج بہت ہی مصروف دن گزارا ہے۔ میں کوئی بڑی شخصیت نہیں ایک عام سی اور ہاں سیدھی سادھی لڑکی ہوں۔ میں کوئی آج کل کی لڑکیوں کی طرح فیشن ایبل نہیں بلکہ کافی حد تک مذہبی ہوں۔ دراصل میں نے مذہبی اس لیے لکھا ہے کہ آج کل جو مذہبی ہے وہ ماڈرن نہیں اور جو ماڈرن ہے وہ مذہبی نہیں۔ بات کہاں سے کہاں چلی گئی میں تو بس آج کی مصروفیت کے بارے میں آپ کو بتارہی تھی۔
ایک تو کالج میں میں ۱۰ سے ۴ بجے تک رہتی ہوں اور اس بیچ میری ظہر کی نماز قضا ہوجاتی ہے۔ دراصل کالج میں نماز پڑھنے کی جگہ نہیں ہے نا ، اور میں ہوں مذہبی تو گھر آکر فوراً تو نہیں ہاں عشاء میں ظہر اور فجر کی قضا پڑھ لیتی ہوں۔ وہ کیا ہے نا، رات میں ٹی وی کی وجہ سے مجھے سونے میں بہت دیر ہوجاتی ہے تو صبح آنکھ نہیں کھلتی۔ ٹی وی بھی مجھے مجبوراً دیکھنا پڑتا ہے۔ سب لوگ دیکھتے ہیں، ہاں اس لیے۔
کالج سے واپس آکر مجھے گھر کے کام بھی تو نپٹانے ہوتے ہیں۔ کام کام میں مجھے بہت دیر ہوجاتی ہے۔ لیکن میں عصر کی چار فرض نہیں چھوڑتی بس سورج غروب ہونے سے پہلے باہر جھانک کر لوگوں کے سائے کی لمبائی کا اندازہ کرکے جلدی سے عصر کے چار فرض ادا کردیتی ہوں۔ اب آپ تو جانتے ہیں کہ مغرب کا وقت کتنا تنگ ہوتا ہے لیکن کیا کروں اس وقت کچھ تو ایسا ہوتا ہے کہ کسی سہیلی کا فون وغیرہ آجاتا ہے اور لمبی بات ہونے لگتی ہے اور میں فون پر دوسروں کی برائیاں نہیں کرتی لیکن وہ کرتی ہیں تو مجھے جواب دینا ہی پڑتا ہے۔ اس طرح اکثر میری مغرب بھی قضا ہوجاتی ہے لیکن میں اسے بھی عشاء میں پڑھ لیتی ہوں۔ عشاء کا وقت تو صبح تک ہوتا ہے تو میں عشاء آرام سے تمام کام نپٹا کر پڑھتی ہوں۔ دراصل کیا ہے کہ ایک بار کوئی ناول شروع کرو تو ۳-۴ بجے سے پہلے ختم ہی نہیں ہوتا اور اگر ناول درمیان میں چھوڑ کر نماز ادا کروں تو نماز میں دھیان نہیں لگتا اس لیے میں پہلے جلدی جلدی ناول ختم کرکے اطمینان سے عشاء پڑھتی ہوں۔ پر اس وقت نیند اتنی آتی ہے کہ چار فرض اور تین وتر سے زیادہ نہیں پڑھ پاتی اور میں جانتی ہوں اللہ بہت مہربان ہے۔
میں جھوٹ، چغلی سے بھی پرہیز کرتی ہوں۔ کیا بتاؤں آپ کو میری بعض سہیلیاں ہیں۔ وہ تو بڑی خراب ہیں۔ بہت اسٹائل مارتی ہیں۔ اور اپنی خریدی ہوئی چیزوں کے دام تو اتنا بڑھا چڑھا کر بتاتی ہیں کہ میں تو بس حیران رہ جاتی ہوں۔ اگر ۱۰۰ کی چپل خریدی ہو تو ۳۰۰ کی بتاتی ہیں۔ بتائیے یہ کوئی بات ہوئی، لیکن میں ایسا نہیں کرتی میں تو امپریشن کا خیال رکھتے ہوئے ہی بتاتی ہوں۔
رات کو میں احتساب بھی کرتی ہوں کہ دیکھنے میں کوئی برا کام تو نہیں کیا۔ قضا ہی سہی مگر نماز پورے پانچ وقت کی ادا کی پھر بھی میں جلدی جلدی استغفار پڑھ لیتی ہوں اور سوجاتی ہوں۔ عام دنوں میں توقرآن شریف پڑھنے کا ٹائم ملتا نہیں۔ لیکن رمضان میں میں باقاعدگی سے قرآن شریف پڑھتی ہوں، رمضان بھی تو بہت مصروفیت لیے ہوئے آتا ہے اب دیکھئے سحر میں اتنی جلدی اٹھتے ہیں تو دن میں ۴-۵ گھنٹے سونا بھی تو پڑتا ہے نا پھر ۳ بجتے ہی افطار کا انتظام ڈھیر ساری ڈشیز تیار کرنا ہوتا ہے۔ اب دیکھئے نا اتنا با برکت مہینہ ہے تو برکت معلوم تو ہونی چاہیے۔ پھر افطار پارٹیاں اور ان کی تیاری اور عید۔ عید کے لیے خریداری بھی تو کرنی ہوتی ہے۔ اسپیشل تہوار ہے ہمارا اور اگر اسپیشل تیاری نہ ہو تو لوگ کیا کہیں گے۔ اور خریداری میں ۱۲-۱۵ دن لگ ہی جاتی ہیں۔ آخر عزت کا معاملہ ہے۔ پھر بھی میں قرآن شریف کے ۳۰ پارے ختم ہی کرلیتی ہوں۔ اب کیا کریں ہماری لائف مصروف بہت ہے نا، پہلے لوگوں کی طرح فرصت ہمیں کہاں۔ ہم تو بہت مصر وف ہیں، ہے نا۔ اور شاید انجامِ آخرت سے غافل اور بے خوف بھی۔