اکتوبر کے اوائل کی ایک شام تھی، آسمان پر گالی گھٹا چھائی تھی۔ کچھ دیر پہلے شمال کی طرف سے آنے والی تیز آندھیوں نے ہر چیز پر مٹی کی ملگجی تہہ بچھا دی تھی۔ میں اپنے چھوٹے بیٹے عدنان کے لیے دودھ گرم کررہی تھی کہ گیٹ پر ہلکی سی دستک ہوئی۔ تبھی میں نے دیکھا ، شام کے ڈھلتے سائے میں امی اکیلی تنہا کھڑی تھیں۔ ان کا خاموش چہرا اداس تھا۔ اس خاموشی تلے تہہ در تہہ دکھوں کا ہجوم تھا۔ مجھے یوں احساس ہوا جیسے امی کے کمزور بوڑھے جسم پر ایسی بوری لدی ہوجس میں دکھ،پریشانیاں، الجھنیں، اپنوں کی جدائیوں کا غم اور مشکلات کے طویل سلسلے بھرے ہوئے ہیں اور گزرتے دنوں کے ساتھ اس میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ اور کسی نے اس بوجھ کو کم کرنے کی کوشش نہ کی ہو، وہ ساری عمر زندگی کے پرپیچ کٹھن اور مشکل راستوں پر اکیلی چلتی رہیں اور آج بھی تنہا ہیں۔ شاید میں اس لیے ایسا سوچتی ہوں کہ وہ میری ماں ہیں۔
میں نے دیکھا زندگی میں بہت کم ایسے لمحے آئے جب وہ واقعی خوش ہوئیں ورنہ ان کی زندگی کی ساری کتاب پر ناخوشی کی آڑی ترچھی لکیریں کھنچی تھیں۔ یہ تومجھے معلوم تھا کہ وہ اکثر خاموش اور افسردہ رہتی ہیں۔ مگر آج ان کے چہرے پر بے نام اداسی تھی۔ ایسی اداسی جس کی کوئی زبان نہیں ہوتی۔
میں نے امی کو بستر پر بٹھاتے ہوئے کہا: ’’آپ تھک گئی ہیں، لیٹ جائیے۔‘‘ امی نے دکھی نظروں سے میری طرف دیکھا اور ویران سے لہجے میں بولیں: ’’بس بہت پرانی اور کھٹارا سی تھی۔ رک رک کر چلتی اور جب چلتی تو ہر بار ایک نیا جھٹکا لگتا… اس سفر نے تو میرا جوڑ جوڑ ہلا ڈالا ہے۔‘‘ انھوں نے تکیے پر سر رکھ دیا۔ میں ان کے لیے چائے لینے کچن میں آئی… اسٹو جلا کر میں نے پانی رکھا اور اسٹول پر بیٹھی سوچنے لگی۔
امی آپ نے دکھ تکالیف اور مصائب کا لامتناہی صحرا عبور کیا … آپ ساری عمر چلتی رہی ہیں۔ چلتے چلتے تھک گئی ہیں۔ مگر منزل نہیں آئی جہاں آپ کو آرام اور سکون مل سکتا۔
ماں تو نام ہی ایثار اور محبت کا ہے، اپنے منہ سے نوالہ نکال کر بچے کے منہ میں ڈالنے والی ہستی… ماں کی تو راتوں کی نیندیں اڑجاتی ہیں جس دن اس پر پہلے بچے کی ذمے داری پڑجاتی ہے اور جب عورت کے دس پانچ بچے ہوں اور شوہر کا سایہ بھی سر پر نہ رہے تو اس کی ذمہ داری دو چند ہوجاتی ہے۔
جانے بچپنے کا وقت ہم نے کیسے گزارا تھا۔ مزدوری کرکے ہمسایوں سے ادھار مانگ کر، ادھار وقت پر نہ لوٹانے پر سو سو معذرتیں کرنی پڑتیں۔
بھائی جان ہم سب کی امیدوں کا واحد سہارا تھے، لاڈلے، نازک مزاج، ذرا ذرا سی بات پر خفا ہوجاتے۔ انھیں اچھے کپڑے چاہئیں، چاہے ماں شب بھر لوگوں کے کپڑے سیتی رہے یا کسی سے ادھار پیسے لینے پڑیں یہ اچھے بھائی جان میڈیکل کالج میں پڑھتے تھے اور ہم اتنے خوش ہوتے جیسے ڈاکٹری بھائی جان نہیں ہم سب پڑھ رہے ہوں۔
امی بھی میرا ڈاکٹر بیٹا، ڈاکٹر بیٹا کہتے فخر محسوس کرتیں۔ وہ کسی سے قرض لیتے ہوئے یہی کہتیں میرا بیٹا ڈاکٹر بن جائے تو میں آپ کا ایک ایک پیسہ ادا کردوں گی۔
بھائی جان یوں تو سدا سے خود کو اعلیٰ درجے کی مخلوق سمجھتے تھے مگر ڈاکٹر بن کر تو گویا ان کا سر عرش سے جالگا وہ ابھی ہاؤس جاب کررہے تھے کہ ایک دن امی سے تین سو روپے مانگے۔ امی نے دس پندرہ دنوں کی مہلت مانگی۔ بھائی جان غضب ناک ہوگئے۔ ’’ماں جی فکر نہ کریں، یہ سب پیسے میں بمع سود لوٹا دوں گا، سمجھیں۔‘‘
’’کیا یہ سب کچھ ہم اسی مقصد کے لیے کررہے ہیں؟‘‘ امی بے حد رنجیدہ ہوگئیں۔
’’میں کیا کہہ سکتا ہوں۔ پیسے مجھے پرسوں تک مل جانے چاہئیں۔‘‘ بھائی جان نے کہا اور باہر چلے گئے۔
امی کا خیال تھا کہ بھیا ذمہ دار افراد کی طرح بہن بھائیوں کا خیال کریں گے، بہنوں کو تعلیم دلائیں گے، کچھ جہیز کی فکر میں بچت کریں گے۔ ابھی انہیں نوکری کرتے دو مہینے ہوئے تھے کہ ایک دن ہماری امیدوں پر بجلی پڑگئی۔ بھیا نے امی کو خوشخبری سنائی تھی ’’ماں میں امریکہ جارہا ہوں۔‘‘
’’تم امریکہ جاؤگے؟‘‘ امی کا منہ حیرت سے کھلا رہ گیا۔
’’تو کیا ساری عمر ڈھائی سو روپلی میں گزارا کرتا رہوں۔ خیال رہے میرا ٹکٹ آگیا ہے۔‘‘
بھائی جان امریکہ چلے گئے۔ ہمارے سارے خواب اور امیدیں ادھوری رہ گئیں۔ ہم سب بہن بھائیوں کے لیے جدوجہد کے ایک نئے دور کا اضافہ ہوگیا۔
دو چار مہینے تو بھائی جان نے باقاعدہ خط لکھے۔ مگر پھر سال بھر بعد ایک جرمن لڑکی کی تصویر آئی۔ ساتھ ہی لکھا تھا: ’’میں نے شادی کرلی ہے۔‘‘ پھر لمبی خاموشی طاری ہوگئی۔ پانچ سال کے بعد خط میں لکھا: ’’بہت مصروف رہتا ہوں۔ میری فکر نہ کریں۔‘‘ انھوں نے کسی بہن بھائی کو بھولے سے بھی سلام و دعا یا پیار نہ لکھا۔
امی کے دل میںبھیا کی بے حسی اور خود غرضی کا گہرا ملال تھا۔ وہ بظاہر چپ رہتیں، مگر جیسے ہی وہ بھیا جان کے کمرے میں جاتیں آنسو آنکھوں سے جاری ہوجاتے۔ ہم انھیں خاموش کرانے کی کوشش کرتے، امی جب وہ ہمیں بھول گئے ہیں تو آپ بھی بھائی جان کو بھول جائیے۔‘‘
’’میں اس کی ماں ہوں، کیسے بھول جاؤں؟ یہ قیامت تک نہ ہوگا۔‘‘
ایک دن امی کی ایک پرانی سہیلی آگئی۔ سعیدہ اختر۔ باتوں ہی باتوں میں بھائی جان کا ذکر چل نکلا۔ ’’کلثوم تمہیں اپنا بیٹا یاد نہیں آتا۔تم نے کیسے دل سے اس کا باہر جانا گوارا کرلیا؟‘‘ اس نے کہا۔
امی نے بڑی مشکل سے آنسو ضبط کیے ’’یاد آتا ہے، کیسے یاد نہ آئے گا، رہ گیا اس کا باہر جانا، تو سعیدہ بہن! ڈھائی سو کی تنخواہ میں اس کا گزارا نہیں ہوتا تھا۔ وہ اپنا مستقبل سنوارنے گیا ہے۔ بڑا ڈاکٹر بنے گا۔ ہم نے اپنا دل چٹان کی طرح بڑا اور مضبوط کرلیا ہے، اسی لیے بیٹے کی جدائی دس سال سے برداشت کیے ہوئے ہیں۔‘‘
بھائی جان نے کبھی پھوٹی کوڑی تک نہ بھیجی تھی۔ رشتے دار ویسے ہی ہم سے کوسوں دور تھے۔ امی نے یوں بھی کبھی کسی عزیز کے سامنے دستِ سوال نہ بڑھایا تھا۔ ایسے مایوس کن تھکا دینے والے حالات میں ہم نے بڑی محنت اور کوشش کی جس قدر ہوسکا پڑھنے کی سعی کی۔ پھر یکے بعد دیگرے سب بہنوں کی شادیاں ہوگئیں۔جہیز بس نام کا تھا۔ ساری بہنیں اپنے اپنے گھروں کو رخصت ہوگئیں۔ باپ تو تھا ہی نہیں۔ بھائی سات سمندر پار جاکر بیگانہ بن گیا تھا۔ ان یتیم و بے کس لڑکیوں کے سر پر ہاتھ رکھ کر کون دعا دیتا؟ دل میں جانے کیسی کیسی حسرتیں اور دکھتے ہوئے احساسات لیے سب اپنی سسرال سدھار گئیں۔
پندرہ سال بیت گئے۔ ہمیں خواب کی طرح لگتا۔ کبھی اپنا بھی ایک بھائی تھا۔ پھر یک لخت بھائی جان نے امی کے نام خط لکھنے شروع کردیے۔ ضرور کوئی خاص مطلب اور سبب ہوگا ورنہ ان صاحب کی پندرہ سالہ نیند کیوں ٹوٹتی؟ میں نے دل ہی دل میں سوچا خط کھول کر پڑھا، لکھا تھا: ’’میری بیوی نے طلاق لے لی ہے۔ کئی لاکھ روپیہ جرمانہ دینا پڑا ہے۔ کار کا ایکسیڈنٹ ہوگیاہے، یہاں کوئی اپنا نہیں، ذہنی طور پر بڑا پریشان ہوں۔‘‘
پھر ایک اور خط ملا: ’’اگلے مہینے وطن آرہا ہوں۔ میری شادی کے لیے کوئی خوبصورت سی لڑکی تلاش کیجیے۔‘‘ اتنی کم مدت میں کوئی اچھا رشتہ تو مل نہ سکا، مگر بھائی جان ایک میرج بیورو والے سے جاٹکرائے جس نے دس پانچ ہزار روپے لے کر پندرہ دن کے اندر ان کی شادی کرانے کا وعدہ کرلیا۔ یہ خاندان ظاہر کچھ تھا اور باطن کچھ… اور اشتہاری شادیوں میں یہی کچھ ہوتا ہے۔
شادی کے بعد بھائی جان بیوی کو لے کر واشنگٹن ڈی سی چلے گئے۔ دو سال بعد ان کے گھر بیٹی پیدا ہوئی، تبھی انھوں نے امی کو لکھنا شروع کردیا۔ ’’آپ امریکہ آجائیں۔‘‘ پھر بہت اصرار کرنے لگے۔ امی ٹالتی رہیں۔ مگر ہم بہنوں نے اصرار کیا’’چلی جائیے، دل نہ لگے، تو واپس آجائیے گا، سیاحت ہی سہی۔‘‘
امی امریکہ چلی گئیں۔ چھ مہینے، پھر سال ہوگیا۔ وہ دو تین مہینے بعد خط لکھتیں۔ ’’میں ٹھیک ہوں۔ ننھی افشاں مجھ سے بہت مانوس ہوگئی ہے۔‘‘
دو سال گزرگئے۔ میں سوچتی امی پتہ نہیں کس حال میںہیں! کاش امی آپ اتنی دور نہ ہوتیں تو میں ضرور آپ کا حال معلوم کرنے آتی مگر … ایک دن امی اکیلی واپس آگئیں… وہ بہت دبلی کمزور اور بیمار تھیں میں نے وہاں کے حالات کریدنے کی کوشش کی وہ چپ ہوگئیں۔ اب وہ تنہا پھر اسی پرانے شہر کے گھر میں رہنے لگیں۔ میں نے کوشش کی کہ وہ ہمارے پاس آجائیں، مگر انھوںنے صاف انکار کردیا: ’’نہیں گڈی میں کسی پر بوجھ نہیں بننا چاہتی۔‘‘ میں نے امریکہ کی بات چھیڑ دی تو امی نے کہا: ’’اس بڑھاپے میںتمام گھر اور بچی کی ذمہ داری مجھ ناتواں پر ڈال دی۔ میاں بیوی خود سیر و تفریح کرکے آدھی رات کوگھر لوٹتے۔ میں تھک گئی تھی۔ کچھ بیمار بھی رہنے لگی۔ بیٹے نے واپسی کے لیے ٹکٹ لے کر دینے سے انکار کردیا۔ ایک دن یہاں کی چند فیملیز سے میں نے اپنی مشکل بیان کی ان خدا کے بندوں نے چندہ کرکے مجھے ٹکٹ دیا اور میں زندہ لوٹ آئی۔‘‘
ساری عمر سخت کوشی، دکھ تکلیف، اپنوں کے زخم، بیماری، بڑھاپا اور پھر تنہائی سب نے امی کی صحت تباہ کردی ہے۔
وہ پندرہ بیس دن بعد مجھ سے ملنے آتی ہیں۔ مگر میں اپنے گھر اور بچوں کی مصروفیات کی وجہ سے مہینے دو مہینے بعد ہی بمشکل شہر جاسکتی ہوں۔
امی میرے پاس دیر تک چپ بیٹھی رہتی ہیں۔ پھر پوچھتی ہیں: ’’تمہارے ایم اے کرنے کا کیا فائدہ؟ جب تم مجھے یہ نہیں بتاسکتیں کہ اب میں کس بات کے انتظار میں زندہ ہوں۔‘‘
’’للہ! امی خدا کی رحمت سے مایوس نہیں ہوتے۔ ہمیں اچھی باتوں کی امید رکھنی چاہیے۔‘‘ میں تسلی دیتی ہوں۔
’’کیوں نہیں، اس زمین پر مجھ سے زیادہ خوش نصیب کون ہوگا؟ میرے دس بچے ہیں۔ لڑکیاں اپنے گھروں میں خوش حال ہیں اور بیٹے کتنے نالائق ہیں! کوئی آئی اسپیشلسٹ، کوئی ایم کام، کوئی فارن ایم ایس سی، وہ بڑے بڑے ملکی غیر ملکی عہدوں پر فائز ہیں۔ میری خدمت کرتے ہیں کتنا خیال رکھتے ہیں میرا… مجھے تو اب یہ بھی نہیں کہنا پڑتا کہ میں تمہاری ماں ہوں کہ میں تمہاری ماں ہوں۔‘‘ یہ کہتے ہوئے امی کی آنکھوں میں ویرانیاں چھا جاتی ہیں۔ پھر مجھے ان کی طرف دیکھنے کی بھی ہمت نہیں پڑتی۔
(حجاب اگست ۱۹۸۱ء سے)