[wpdreams_ajaxsearchpro id=1]

میں نے اسلام کیوں قبول کیا؟

کاندیس سالو

س: بہتر ہو کہ سب سے پہلے آپ اپنا تعارف مختصراً کرادیں۔
ج: میرا نام کاندیس سالو ہے۔ میری قومیت امریکی ہے، میں شکاگو (صوبہ الینا، امریکہ) کی رہنے والی ہوں۔ میں نے ایک عرب مسلمان سے شادی کرلی ہے۔ عیسائی ماحول میں میری نشو ونما ہوئی۔ میں اپنی روحانی زندگی کے ابتدائی دور میں کیتھولک فرقے سے تعلق رکھتی تھی، لیکن اللہ تعالیٰ نے مجھے اسلام کی عظیم نعمت سے نوازا، چنانچہ کچھ دنوں پہلے میں مسلمان ہوگئی۔ ریاض (سعودی عرب) کے دعوت و تبلیغ کے ایک دفتر میں، میں نے اپنے اسلام کا اعلان کیا۔
س: آپ کی علمی لیاقت کیا ہے؟
ج: میں نے میدانِ عمل کے حوالے سے کئی ڈگریاں حاصل کیں۔ میرا کام انگریزی زبان کی تدریس و تعلیم ہے۔ میں اپنے اس کام سے بے حد خوش ہوں، کیوں کہ میں اپنے اس کام کے ذریعے کسی نہ کسی طرح دوسروں کی مدد کرتی ہوں۔
س: آپ نے اسلام کے بارے میں کہاں اور کیسے معلومات حاصل کیں؟
ج: پچھلے کئی سالوں کے دوران میں نے اسلام کے بارے میں معلومات حاصل کیں۔ اس کے چند اسباب تھے ۔ان میں ایک اہم سبب میرے شوہر کا عربی مسلمان ہونا تھا،انھوں نے مجھے اسلام کی دعوت دینے اور اس کے اصول و مبادی سے واقف کرانے میں بڑی محنت کی، انھوں نے اپنے اخلاقِ کریمانہ و کردارِ قاہرانہ کے ذریعے مجھے اسلام سے متعارف کرانے کی زیادہ کوشش کی۔ انھوں نے مجھے وہ احترام دیا جس کی میں بحیثیتِ بیوی مستحق تھی، اگرچہ میں ان کے مذہب پر نہ تھی۔ میں اس مسلمان شوہر سے شادی پر خوش ہوں، جس نے اپنی زندگی کو اسلامی تعلیمات کے مطابق ڈھال لیا ہے۔ میرے شوہر کے اخلاقِ کریمانہ کا فطری نتیجہ یہ ہوا کہ وہ سب کی محبت واحترام کے مستحق قرار پائے اور اس لیے بھی انہیں یہ احترام ملا کہ وہ اپنے مذہب کی پابندی کرنے والے سلیم الطبع مسلمان ہیں۔
جس وقت میں کویت میں تھی، میرے شوہر کے چچازاد بھائی نے، جو ایک دعوتی مرکز میں کام کررہے تھے، ایک برطانوی نومسلم خاتون سے مجھے متعارف کرادیا، جو ادارہ دعوت و ارشاد برائے غیر مسلم خواتین کی فعال ممبر تھیں۔ میری اس ادارے کے ذریعے میری ہم وطن نومسلم امریکی خواتین سے شناسائی ہوئی۔ میں ان سے ایمانی ملاقاتیں کرکے لطف اندوز ہوتی تھی۔
س: عالمِ اسلام میں کس چیز نے آپ کی توجہ مبذول کی؟
ج:میں مسلمانوں میں رہ رہی ہوں، یہاں جس چیز نے مجھے سب سے زیادہ اپنی طرف کھینچا وہ مسلمانوں کا طرزِ زندگی ہے۔ کویت اور ریاض دونوں جگہ مجھے ایک ہی صورت نظر آئی۔ مجھے یہ دیکھ کر بڑی حیرت ہوئی کہ مسلمانوں کی روز مرہ زندگی پر ان کے دین کا غیر معمولی اثر ہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ یہ ہونا چاہیے۔ مجھے مسلم فیملی اور اس کے افراد کا باہمی ارتباط و تعلق پسند آیا۔ میں نے دیکھا کہ مسلمان اپنے پروردگار کی مرضی کے مطابق زندگی گزارتے ہیں، یہاں کی سڑکیں سر مستوں اور مدہوش لوگوں سے خالی ہیں، یہاں نہ نشہ خوروں کی ٹولیاں ہیں نہ چوروں اور لٹیروں کی جماعتیں، نہ یہاں وہ سماجی بیماریاں نظر آتی ہیں جن کا مغربی معاشرہ میں دور دورہ ہے، چنانچہ لوگ یہاں پورے اطمینان و سکون سے زندگی گزارتے ہیں۔
س:وہ کیا چیز ہے جو آپ کے قبولِ اسلام کا محرک بنی؟
ج: جو چیز میرے لیے اسلام قبول کرنے کا محرک بنی، وہ ان سعودی طلبہ و طالبات کی (جنھیں میں انگریزی زبان سکھاتی تھی) بے پناہ خواہش تھی کہ میں اسلام قبول کرلوں۔ انھوں نے بار بار اور باصرار مجھ سے اپنی یہ خواہش ظاہر کی کہ میں اسلام قبول کرکے ان کی بہن بن جاؤں۔ ان کی سب سے بڑی آرزو یہ تھی کہ ہم سب جنت میں بھی ایک ساتھ رہیں۔ میں نے ان میں اسلام کی دعوت کے سلسلے میں اخلاص و امانت داری محسوس کی، ان کے ان جذبات سے میرا دل متاثر ہوا، میں ان کی محبت سے خوش ہوئی، چنانچہ میں نے اسلام کا سنجیدگی سے مطالعہ کرنا شروع کردیا۔ میں اسلام کے مطالعے سے اس نتیجے پر پہنچی کہ اسلام کی نمایاں خصوصیت گہرائی و گیرائی ہے، وہ اس لائق ہے کہ اس کے اصول و مبادیات سے آگاہ ہوا جائے۔ چنانچہ میں رفتہ رفتہ حقیقت سے قریب ہوگئی۔
س:قبولِ اسلام سے پہلے آپ نے کون سی کتابیں پڑھیں؟
ج:قبولِ اسلام سے پہلے چوں کہ میرا پس منظر عیسائی تھا، اس لیے عیسائیوں کے کیتھولک فرقے کی روایات کے مطابق میری نشوونما ہوئی، چنانچہ کلیسا کے سربراہ کے ہاتھوں میرا بپتسما (Baptism) (عیسائی مذہب کی ایک رسم جس میں بچے کے سر پر مقدس پانی کے چھینٹے لگا کر اسے عیسائی بناتے ہیں) ہوا۔ اس نے مجھے بہت سی نصیحتیں کیں، ساتھ ہی میں اپنی تعلیم کے ابتدائی دور میں مذہبی اسباق میں حاضر ہوئی، نیز میں راہباؤں کی سرگرمی سے بہت متاثر ہوئی، مجھے بھی شوق ہوا کہ میں بھی کلیسا کی ایک سرگرم رکن بنوں، لیکن ایک اہم واقعہ نے میری روحانی زندگی کے دھارے کو بدل دیا اور میری مذہبی تحریک پر غیر معمولی اثر چھوڑا۔ وہ واقعہ یہ تھا کہ مجھ سے شادی کے لیے ایک عرب نوجوان نے پیش کش کی، چوں کہ میں عیسائی مذہب پر تھی اور اس کی تعلیمات کی حد درجہ پابند تھی، اس لیے میں پورے ہمت و حوصلے سے اس کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوتی تھی، چنانچہ میں کلیسا کہ پادری کے پاس اس شادی کے لیے برکت کی دعا کرانے کی غرض سے گئی، وہ بہت ناراض ہوا اور برکت کی دعا کرنے سے سختی سے انکار کردیا، البتہ اس نے کہا کہ میں ایک شرط پر برکت کی دعا کرسکتا ہوں کہ تم وعدہ کرو کہ اپنے بچوں کو عیسائی مذہب کے مطابق تعلیم و تربیت دو گی۔ عیسائی روایات کے مطابق تعلیم و تربیت کے لیے انہیں کلیسا میں داخل کردینا۔ میں نے اس شرط کو مسترد کردیا، کیوں کہ میں سمجھتی تھی کہ یہ میرے شوہر کا حق ہے، وہ جس طرح مناسب سمجھیں اپنے بچوں کو تعلیم و تربیت دیں۔ نیز میں یہ بھی اچھی طرح جانتی تھی کہ میرا شوہر اپنے بچوں کو کلیسا بھیجنے کے لیے کبھی تیار نہیں ہوگا۔ اللہ کا احسان ہے کہ اس نے مجھے اعلیٰ اخلاق کا مالک شوہر عطا کیا۔ ان کے اخلاق اسلام کے مطابق ہیں۔ ان کے بارگاہِ خداوندی میں سجدہ ریز ہونے کا منظر میرے اندرون کو ہلاکر رکھ دیتا ہے۔ وہ ایک سچے پکے مسلمان ہیں۔ میں نے ہمیشہ کے لیے کلیسا کو خیرباد کہہ دیا، کلیسا چھوڑنے کے دوسرے اسباب بھی تھے، پادری ہمیں ایک چیز سکھاتے اور خود اس کے خلاف کرتے، وہ ہمیں ایک کام کرنے کا حکم دیتے اور معاً بعد اسے ترک کرنے کے لیے کہتے، یہ تلون مزاجی ان کی عادت بن چکی تھی، اس لیے ہم لوگ کسی ایک چیز پر قائم نہیں رہ پاتے تھے۔ اس کے نتیجے میں مجھے اپنی محرومی اور ضائع ہونے کا احساس دامن گیر رہتا تھا۔ لیکن ان سب کے باوجود میرا اللہ پر ایمان مضبوط تھا، چنانچہ میں اللہ سے مغفرت کی دعا مانگتی تھی۔ اس کے بعد میں نے تمام مذہبی فرقوں کو چھوڑ دیا، تاآنکہ میں نے اسلام کے دامن میں پناہ لی۔ میں اسلام کے ساحل پر پہنچنے سے اپنے آپ کو خوش نصیب محسوس کرتی ہوں۔ اسلام نے میری زندگی کے رخ کو یکسر تبدیل کردیا۔ میں اسلام کے ذریعے حق سے آشنا ہوئی اور یقین کے ساحل تک پہنچی۔
س:اس کے علاوہ اور کیا چیز یں ہیں جنھوں نے آپ کو اسلام کا گرویدہ بنایا؟
ج:سب سے اہم چیز جس نے مجھے اسلام کا گرویدہ بنایا وہ قرآنِ کریم ہے۔ جس زمانے میں، میں عیسائی مذہب پر تھی، اس وقت میں عقیدۂ تثلیث کی حقیقت نہیں سمجھ سکتی تھی۔ میں بڑی شدت سے عقیدئہ تثلیث کے بارے میں اطمینان بخش جواب تلاش کررہی تھی، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ پادری لوگ میرے سوالات کا بہت سخت اور خشک جواب دیتے، وہ مجھ سے مطالبہ کرتے کہ میں خاموش رہوں اور اپنے ذہن کو اس قسم کے اوہام و خیالات میں لگائے بغیر ایمان لے آؤں، جس چیز کا مجھ سے مطالبہ تھا وہ صرف ایمان تھا نہ کہ ردّ و قدح۔
میں ہمیشہ اپنے دل ہی دل میں یہ سوال کرتی کہ ہم حضرت مریم علیہا السلام کے سامنے کیوں سجدہ ریز ہوتے ہیں؟ اللہ کے علاوہ ہم انہیں کیوں پکارتے ہیں؟ بلکہ ہم پادریوں کے سامنے کیوں سر بہ سجود ہوتے ہیں؟ ہم ان سے کیوں دعا مانگتے ہیں؟ ہم حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی عبادت کیوں کرتے ہیں؟ ہم ان سے کیوںلو لگاتے ہیں؟ اور اللہ سے دعا کیوں نہیں کرتے؟ کیا گوشت و پوست سے بنا ہوا ایک انسان اللہ تعالیٰ کابیٹا ہوسکتا ہے؟
اس کے باوجود پادری ہم سے مطالبہ کرتے تھے کہ ہم آنکھیں بند کرکے ایمان لے آئیں، خاموش رہیں اور اس طرح کے موضوعات کو چھیڑنے سے احتراز کریں جن کا کوئی جواب نہیں ہے۔
س:زبان سے کلمۂ شہادت پڑھتے وقت آپ کے کیا جذبات تھے؟
ج:جب میں نے کلمۂ شہادت پڑھا تو میرا دل جھوم گیا، میں نے پوری رضا مندی اور مکمل آزادی سے اسلام قبول کیا۔ میرا شوہر اس مسرت بخش خبر سے بہت خوش ہوا، ساتھ ہی انھوں نے میرے قبولِ اسلام کے واقعے کو ایک ذاتی فیصلہ قرار دیا اور یہ کہ میرے پروردگار اور میری ذات کے درمیان ایک معاملہ ہے۔ لیکن ایک دن ہمیں اپنے پروردگار سے ملنا ہے، وہ ہمارے اعمال کا حساب لے گا اور ہر شخص کو اس کے اعمال کے مطابق بدلہ دیا جائے گا۔ میں بخوشی و بطیبِ خاطر اسلام لائی۔ میں نے اپنے شوہر کو خوش کرنے یا دکھانے کے لیے اسلام قبول نہیں کیا۔ میں نے اسی وقت اسلام قبول کیا جب میرے اوپر یہ حقیقت آشکارا ہوگئی، کہ قرآن اللہ کا کلام ہے، وہ برحق ہے اور آخری آسمانی کتاب ہے اس لیے میری زندگی کے حسین ترین لمحات وہ تھے جن میں میں نے اپنی زبان سے کلمۂ شہادت پڑھا، کیوں کہ میں نے یہ کلمہ پڑھ کر وہ سچائی پالی جس کی مجھے تلاش تھی۔
س:آپ کے قبولِ اسلام کے تئیں، آپ کے اہلِ خانہ کا کیا موقف رہا؟
ج:اس سوال کا جواب کچھ دشوار ہے، میرے اپنے خاندان کی حالت بتائے بغیر اس سوال کا جواب مشکل ہوگا۔ واضح رہے کہ یتیمی کے عالم میں میری نشونما ہوئی، میں ماں باپ کی محبت اور اپنے تئیں اہلِ خانہ کے جذبات سے محروم رہی، میں نے عسرت کی زندگی گزاری، کمسنی کے عالم میں میرا گھر چھوٹ گیا تھا، اس کے بعد جلد ہی میں نے شادی کرلی تھی، یہ بات صحیح ہے کہ اکثر رویے الفاظ کی شکل میں نہیں ہوتے، بلکہ کردار کبھی کبھارالفاظ کے مقابلے میں زیادہ بلیغ ہوتے ہیں، مجھے اس کی خاطر دونوں باتوں کا سامنا کرنا پڑے، اس لیے میں نے یہ ذہن سے نکال ہی دیا کہ میرے اسلام لانے کے بعد میرے اہلِ خانہ و اعزہ و اقارب کا میرے تئیں کیا موقف ہوگا؟ اس لیے میں نے ان کے ردِ عمل کی چنداں پرواہ نہیں کی، کیوں کہ میں جانتی تھی کہ یہ میرا حق ہے، اس میںکسی کو مداخلت کرنے کی اجازت نہیں، میں اپنے شوہر، اس کے خاندان اور دینی بھائی بہنوں کو اپنا حقیقی کنبہ و خاندان سمجھتی ہوں۔ حقیقت بھی یہ ہے کہ وہ اس سے خوش ہیں کہ میں اسلام قبول کرکے ان کی دینی بہن بن گئی۔
س:آپ قارئین کو کیاپیغام دینا پسند کریں گی؟
ج:قبولِ اسلام کے فیصلے سے مجھے نفسیاتی سکون اور روحانی اطمینان ملا اور میں اللہ تعالیٰ سے بہت قریب ہوگئی۔
س:کیاقارئین کے نام آپ کا کوئی پیغام ہے؟
ج:مسلمان بھائیوں سے میری درخواست یہ ہے کہ وہ غیر مسلموں کو اسلام کی دعوت دینے میں صبر، بردباری اور سنجیدگی سے کام لیں۔ آج کی دنیا میں بہت سے بھلے لوگ ہیں، لیکن عیسائی کلیسا نے ان کی غفلت سے فائدہ اٹھایا اور انہیں فریب دیا، لہٰذا مسلمان بھائیوں سے میری اپیل ہے کہ وہ ان سرگرداں لوگوں کے لیے دستِ تعاون بڑھائیں اور ان کا ہاتھ پکڑ کر راہِ راست پر لانے کی کوشش کریں۔ان کے لیے قرآن کریم کے نسخے فراہم کریں اور اس بات کا یقین رکھیں کہ حق کی آواز خود بخود بلند ہوگی۔ میں سمجھتی ہوں کہ ہر مسلمان کے لیے اسلام کی نشرواشاعت کرنا ضروری ہے۔ اس کا طریقہ یہ ہونا چاہیے کہ ہر مسلمان اپنے آپ کو اسلامی اخلاق سے آراستہ کرے، روز مرہ کی زندگی میں ان کو مؤثر بنانے کی کوشش کرے۔ کیوں کہ مغرب کے ذہن میں عرب اور مسلمانوں کی بہت خراب تصویر ہے، اس کے ساتھ انصاف کی ضرورت ہے۔ کاش وہ لوگ خواہ تھوڑے ہی وقت کے لیے یہاں سعودی عرب اور مسلمانوں میں رہ کر دیکھتے، یہاں وہ ایک ایسا معاشرہ پائیں گے، جس پر امن و سکون کی بالادستی ہے۔ وہ امن جو ہمیں مغربی معاشروں میں نہیں ملتا۔ یہاں اعلیٰ اقدار، بالخصوص عائلی اقدار پائیں گے، جو آج مغرب کے معاشروں سے ناپید ہوچکی ہیں۔ میں اپنے آپ کو سعادت مند سمجھتی ہوں کہ مشیتِ ایزدی مجھے کام اور رہائش کے لیے یہاں لائی۔ صحیح بات یہ ہے کہ میری داخلی روحانیت بہتر ہوئی، اسلامی عقائد و مذہبیات کے مطالعے سے میری علمی معلومات سوا ہوگئیں، ساتھ ہی یہاں مجھے بہت سے دینی بھائی اور بہن مل گئے، ہم آپس میں ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں۔ بہت اچھے لوگ ہیں۔
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں