میں ہر سال لوگوں کو حج کے لیے جاتے دیکھتا تھا اور خدا سے دعا کرتا تھا کہ یہ سعادت مجھ کو بھی نصیب ہوجائے، میں بھی اللہ کا گھر دیکھوں ۔ لیکن سرمایہ اتنا نہیں تھا کہ وہاں کا خرچ برداشت کرسکوں اور ساتھ ہی گھر والوں کے لیے اتنا کچھ کر جاؤں کہ وہ میرے پیچھے آرام سے زندگی بسر کرتے رہیں۔ لیکن خدا سب کی سنتا ہے اور جب مصمم ارادہ ہوجائے تو خدا بھی مدد کو آجاتا ہے۔ ایسا ہی میرے ساتھ بھی ہوا۔
کھیتی سے مجھے کافی آمدنی ہوئی، گنے کا ریٹ کیا بڑھا وارے کے نیارے ہوگئے اور دوکان پر اچھی بکری ہونے لگی۔ میں نے خدا کا نام لے کر فارم بھر دیا۔ اور قسمت کی خوش نصیبی دیکھئے میرا نام پہلی ہی لسٹ میں آگیا۔ میں حج کے انتظام میں لگ گیا۔ بہت سے معاملوں میں دل میں دکھداہی بھی ہوتی پھر خیال آتا جاکر خدا سے خوب توبہ تلا کروں گا اور اس طرح میرا خدا ضرور میرے گناہ معاف کردے گا۔ خدا خدا کر کے روانگی کا دن بھی آگیا۔ دوست احباب ہوائی اڈے تک آئے اور ہمیں اندر داخل کر کے چلے گئے۔ اب ایک طرف میرا شوق بڑھتا جا رہا تھا اور دوسری طرف یہ پریشانی لاحق تھی کہ اپنی آمدنی کی طرف سے مجھے مکمل شرح صدر نہ تھا۔ بہت سی راز کی باتیں بس یا تو میں جانتا تھا یا میرا اللہ۔
سرزمین حجاز پر قدم رکھتے ہی زبان پر بس یہی کلمہ جاری تھا، اے اللہ میں حاضر ہوں اے اللہ میں حاضر ہوں یہاں آکر جس کو دیکھو یہی کلمہ پڑھ رہا تھا۔ خانہ کعبہ کو دیکھ کر تو چیخ نکل گئی۔ اے میرے اللہ! یہ ہے تیرا گھر۔ کتنا عظیم کتنا سادہ۔ میں گھنٹوں اُسے ٹکٹکی باندھے دیکھتا رہا۔ ہماری زبان تو بدلی ہی تھی ہمارے کپڑے بھی بدل گئے۔ ہم اب حد نگاہ تک ایک ہی طرح کے فقیرانہ لباس میں تھے، نہ کوئی بڑا تھا نہ چھوٹا نہ اعلیٰ نہ ادنیٰ۔ آخر حج کا دن بھی آگیا۔ تمام ارکان ادا کیے۔ بیٹے کی قربانی کی یاد میں ذبیحہ بھی کیا اور شیطان نے جہاں حضرت ابراہیم و اسمٰعیل علیہما السلام کو بہکانے کی کوشش کی تھی اور بہلا پھسلا کر صراطِ مستقیم سے ہٹانا چاہتا تھا ان مقامات پر بنے جمرات کو کنکریاں بھی ماریں۔ اور اس طرح یہ دیرینہ خواہش پوری ہوئی کہ میں نے فریضۂ حج ادا کرلیا۔ مجھے اس بات کی بھی خوشی تھی کہ لوگ اب میرا پہلے سے زیادہ اعتبار و یقین کریں گے اور میں جلدی ہی اپنی تمام رقم پوری کرلوں گا جو میں نے حج پر خرچ کی ہے۔
حج ختم ہونے کے بعد مدینہ بھی گئے اور اللہ کے رسول کے روضے کی زیارت کی اور مسجد نبویؐ میں نمازیں بھی ادا کیں لیکن ایمان افروز باتوں اور مناظر کے باوجود گھر بہت یاد آنے لگا اور وہ دن بھی آیا جب ہوائی جہاز میں واپسی کے سفر کے لیے سوار ہوگئے۔ چند گھنٹوں کے بعد اپنے وطن پہنچ جانا ہے۔ سفر میں ایک طرف جلد پہنچنے کا شوق اور بے چینی تھی اور دوسری طرف بار بار یہ بھی خیال آتا تھا کہ اب ہمیں بدلنا ہے اور اگر تم پھر ایسی ڈگر پر چلے جس پر حج سے پہلے چلتے رہے تھے تو حاجی تو ضرور کہلاؤگے مگر اندر کچھ نہ ہوگا اور پھر جیسے ایک دن گھر چھوڑا تھا، دنیا بھی چھوڑ دینی ہوگی۔ دوسری طرف یہ بھی یقین تھا کہ حج کر کے آدمی ایسا پاک صاف ہو جاتا ہے جیسا کہ ایک بچہ۔ گویا حج سے سارے گناہ معاف ہو جاتے ہیں اور ایک طرح کی روحانی پیدائش ہوتی ہے۔ حج کا مطلب صرف طوافِ کعبہ ہی نہیں بلکہ پوری زندگی کو خدا کے حوالے کرنا ہے۔ حج تو ہو ہی گیا لیکن یہ قبول جب ہی ہوگا جب کہ تم دن کے اجالے اور رات کے اندھیرے میں اپنے مالک سے برابر ڈرتے رہو اور سیدھی سچی ایمانداری کی زندگی گزارو۔ خیر چند گھنٹوں کے بعد یہ سفر ختم ہوا اور ہوائی اڈے سے باہر نکل کر اپنے دوست احباب کے ساتھ اپنے وطن آگیا۔
صبح ہی سے لوگوں کا تانتا بندھ گیا۔ کوئی خیریت پوچھ رہا تھا تو کوئی وہاں کے حال احوال، میں سب کو جواب دے رہا تھا اور حج سے لایا ہوا تحفہ زم زم اور کھجوریں بھی لیکن بار بار بھولو کا خیال آرہا تھا کہ وہ بھی ضرور آئے گا۔ اور اگر ننوا کو خبر ہوگئی تو وہ شاید ہی رُکے۔ اور پتہ نہیں بہن بہنوئی بھی آئیں گے کہ نہیں۔ وہ اگر حج کا واسطہ دے کر اپنا حق مانگنے لگے تو کیا ہوگا۔ میرے پاس تو کچھ بھی نہیں رہے گا۔ رات بھر میں یہی کچھ سوچتا رہا اور پھر اللہ کا نام لے کر یہ ارادہ کر لیا کہ گو میں حج کر آیا ہوں لیکن میرا حج جب ہی قبول ہوسکتا ہے جب کہ میں حج کے سارے تقاضے پوری کروں۔ نیک بنوں نیکی پھیلاؤں۔
خدا خدا کرے رات کٹی اور صبح ہی مبارک باد دینے کے لیے بھولو خود ہی آگیا۔ اس نے آتے ہی کہا بھیا سلام! تمہیں حج کی بہت بہت بدھائی۔ ’’ پر اَب‘‘ میں نے بھولو کی بات بیچ ہی میں کاٹ دی بھولو بھیا! تم مجھے معاف کردو۔ آج تو اتوار ہے کل تحصیل چل کر میں سب لکھت پڑھت کردوں گا اور یہ تھوڑے سے روپے رکھ لو اور لو بچوں کے لیے یہ عرب کی طرح طرح کی کھجوریں لے جاؤ۔ بھولو جہاں کھڑا تھا وہیں کھڑا کا کھڑا رہ گیا اس کے پاس کچھ بھی کہنے کو نہیں تھا بس آنکھوں سے ٹپاٹپ آنسو گر رہے تھے۔ میں نے ایک بار پھر اسے اپنے سینے سے لگایا اور اس کی ڈھارس بندھائی۔ دوپہر بعد ننوا بھی آگیا۔میں نے اس کو ملتے ہی دوکان کی چابی تھما دی۔ لے یہ تیری دوکان تجھے واپس۔ اگلے دن بہن بہنوئی کو فون کر کے خود ہی بلایا وہ آتو گئے مگر انہیں یقین نہیں تھا کہ میرے اندر ایسی تبدیلی آگئی ہے کہ میں ان کا حق بخوشی دے دوں گا۔
میں نے ان سے بھی اپنا معاملہ صاف کیا اور دوکان کو ٹھیک ٹھاک کیا۔ تمام سودوں کی قیمتیں جائز حد میں درست کیں۔ اور اپنے اوپر والے کمرے کی وہ کھڑکیاں بھی سدا کے لیے بند کردیں جن کے ذریعہ پڑوسی کی بے پردگی ہوتی تھی۔
یہ سب میں نے اس لیے کیا کہ مجھے حاجی کہلانا نہیں حاجی بننا تھا خدا کی نظر میں بھی اور لوگوں کی نظر میں بھی۔ حج تو فی الواقع کردار سازی ہی کی عبادت ہے اور یہ ہی نہ ہو تو پھر حج کس کام کا۔lll