ایک روز میں اپنے لمبے سفید لباس میں ملبوس اپنی گلی سے گزر رہی تھی، میرے بال صرف ایک انچ لمبے تھے۔ ایک ٹرک ڈرائیور نے میری طرف دیکھا اور انتہائی فحش انداز میں سیٹی بجائی۔ میں انتہائی شرمندہ ہوئی۔ کیونکہ ابھی ابھی تو میں ایک بال تراش کی دکان سے باہر نکلی تھی جس سے بڑی پرزور فرمائش کرتے ہوئے میں نے اپنے بال بالکل لڑکوں جیسے بنانے کے لیے کہا تھا۔ اور میری ہیئر ڈریسر ہر ایک انچ بال کاٹنے کے بعد مجھ سے کہتی کہ اس سے زیادہ کٹوانا حماقت ہوگی لیکن تب مجھے حماقت محسوس نہ ہوئی۔ مگر اب مجھے محسوس ہوا کہ یہ قطع وبرید بالوں کے ساتھ نہیں بلکہ میرے ساتھ کی گئی ہے۔
میں اپنی نسوانیت ختم کررہی تھی۔ یہ صرف ہیئر کٹ ہی نہیں تھا بلکہ اس سے بہت زیادہ تھا۔ میں اس کوشش میں تھی کہ بالوں کا ایسا انداز اپنانے سے لوگ مجھے زیادہ عزت دیں گے اور میں زیادہ شوخ اور خوبصورت نظر آؤں گی۔ درحقیقت میں اپنی نسوانیت ختم کرنا چاہتی تھی۔ لیکن اس سب کے باوجود مردوں کی نگاہیں میری طرف یونہی اٹھتی رہیں گویا میں ان کے لیے صنفی کشش رکھنے والی کوئی شئے ہوں۔ دراصل میں بہت بڑی غلط فہمی کا شکار تھی۔ میرے مسائل کی اصل بنیاد میری نسوانی ادائیں نہیں بلکہ میری صنف تھی۔ میں ایک عورت ہوں اور یہ امر حیاتیاتی طور پر تسلیم شدہ ہے۔ میری طرف دیکھنے والے مجھے ایسے دیکھتے ہیں جیسا کہ میں نظر آتی ہوں قطع نظر اس سے کہ میں اصل میں کیا ہوں۔ لیکن ان کے اس طرح دیکھنے کو بھی الزام نہیں دیا جاسکتا جب تک کہ میں خود یہ نہ جان لوں کہ میری حقیقت کیا ہے؟ میں کون ہوں؟ کیا محض صنفی کشش رکھنے والا ایک وجود…؟ میں یقین رکھتی ہوں کہ جو مرد عورتوں کو محض صنفی لذت کا سامان سمجھ کر دیکھتے ہیں وہ ان کے خلاف جرم کا ارتکاب کرتے ہیں بالکل اسی طرح جیسے عورتوں کو مارنا پیٹنا اور ان کی عصمت دری کرنا جرم ہے۔ اب کبھی کبھی میں یہ سوچتی ہوں کہ مجھ سے کتنی بار ایسا سلوک کیا گیا۔ میرے جسم پر پڑنے والی نگاہوں نے کتنی بار مجھ سے بدسلوکی کی ہوگی، کتنی مرتبہ میری عصمت دری کی ہوگی… اس تصور سے ہی میرا وجود کانپنے لگتا ہے۔
میں انہیں اپنے خلاف اس جرم سے کیسے روک سکتی ہوں؟ مردوں کو کیسے مجبور کرسکتی ہوں کہ وہ مجھے ایک جسم کی حیثیت سے نہیں بلکہ ایک عورت کی حیثیت سے دیکھیں؟ میں کس طرح انہیں ایک جسم اور ایک عورت میں تفریق کرنے پر آمادہ کرسکتی ہوں؟ مردوں کی طرف سے دہشت ناک رویے کے تجربات کے بعد میں کس طرح زندگی گزاروں؟ ان تجربات نے مجھے اپنی شناخت کے متعلق بہت کچھ سوچنے اور بہت سے سوالات کرنے پر مجبور کردیا ہے۔
کیا میں بھی ہزاروں لاکھوں چینی اور امریکی عورتوں میں سے ایک عورت ہوں؟ میں نے بارہا اس موضوع پر سوچا کیونکہ یہ میری شناخت کا مسئلہ تھا اور مجھے بہر حال کسی نتیجے پر تو پہنچنا تھا کہ میں اصل میں کون ہوں؟
حجاب کے بارے میں میرا پہلا تجربہ متعلمانہ نوعیت کا تھا جب مجھے ایک نیوز میگزین کے ایک منصوبے کی خاطر مسلمان عورتوں جیسا لباس پہننا اور تین مسلمان مردوں کے ساتھ سفر کرنا پڑا۔ میں نے ایک لمبی سوتی قمیص اور جینز پہنی۔ پاؤں میں ٹینس شوز اور ایک پھولدار ریشمی اسکارف جس نے میرے سر کو ڈھک لیا۔
تھوڑے ہی وقت میں میں نے نہ صرف دیکھا بلکہ محسوس بھی کیا… لوگوں کی نظریں اب میری طرف اس طرح نہیں اٹھتی تھیں جس طرح اس سے پہلے وہ مجھے محض ایک صنفی کشش کا سامان سمجھ کر دیکھا کرتے تھے۔ اب انہیں معلوم تھا کہ میں ایک مسلمان عورت ہوں اور وہ پہلے جیسے جملے اور فقرے کسنے سے باز رہتے۔ میں نے بغور جائزہ لیا کہ اب مردوں کی نگاہیں میرے جسم کا محاصرہ اس طرح نہیں کرتیں جیسے اس وقت کرتی تھیں جب میں حجاب استعمال نہیں کرتی تھی۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب میں ایک اسلامی مرکز گئی تو ایک سیاہ فام امریکی شخص نے مجھے ’’بہن‘‘ کہہ کر پکارا اور مجھ سے پوچھا کہ میں کہاں سے آئی ہوں۔
حجاب نے میرے بارے میں دوسروں کا نقطہ نظر بدل دیا ایک روز میں اسٹور سے باہر آئی اور اپنے ساتھ آئے ہوئے مسلمان مردوں میں سے ایک سے پوچھا کہ ’’کیا میں مسلمان ہوں؟‘‘ اس نے مجھے بتایا کہ مسلمان تو ہر ذی روح ہے، بات صرف خدا کے سامنے سر تسلیم خم کردینے کی ہے۔ تب میں نے محسوس کیا کہ بالکل اسی طرح میں بھی مسلمان ہوں لیکن مجھے اس کا علم نہیں تھا۔ میں نے ابھی تک باقاعدہ اسلام قبول نہیں کیا۔ میں اسلام کے بارے میں اتنا نہیں جانتی کہ میں مسلمان ہونے کا دعویٰ کرسکوں۔
حجاب پہننے یا نہ پہننے سے مسلمان ہونے یا نہ ہونے پر تو کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اس سے میرے بارے میں دوسروں کے تاثرات اور رویے تبدیل ہوگئے ہیں۔
میں نے حجاب کا استعمال انتہائی شعور کے ساتھ شروع کیا ہے کیونکہ میں مردوں سے اپنی عزت کروانا چاہتی ہوں۔ ابتدائی طور پر ’’تعلیم نسواں‘‘ سے منسلک ہونے اور ایک مفکر ہونے کی وجہ سے میں مغرب کے اس نقطہ نظر سے متاثر تھی کہ حجاب عورتوں پر جبر ہے۔ لیکن اپنے تجربات کے بعد میں بالآخر اس نتیجے پر پہنچی ہوں کہ یہ نقطہ نظر گمراہ کن اور غلط معلومات کی وجہ سے ہے۔ حجاب جبر نہیں اگر اسے اسلام کو سمجھتے ہوئے شعوری طور پر اختیار کیا جائے۔
میری زندگی کا سب سے خوش کن تجربہ اس دن کا ہے جب پہلی مرتبہ میں نے حجاب پہنا۔ اب مجھے ایک عورت اور ایک شخصیت کی حیثیت سے جانا جاتا ہے۔ مجھے معلوم ہوا کہ میرے لباس کے تبدیل ہونے سے لوگوں کا میرے بارے میں تاثر تبدیل ہوگیا ہے۔ اور یہ حقیقت ہے کہ میں نے اپنے بارے میں تاثر کی جنگ جیت لی ہے۔
اب دراصل میں نے اپنی صنف کو ڈھانپ لیا ہے، اپنی نسوانیت کو نہیں کیونکہ صنف کو ڈھانپنے میں ہی دراصل نسوانیت کی آزادی ہے۔