سائنسی ایجادات اور ترقیات کے اس دور میں جبکہ عورتیں اپنے حقوق اور آزادی کے نام پر تحریکیں چلا رہی ہیں، کھلے عام بازاروں میں گھوم رہی ہیں، اور نیم برہنہ ہوکر اشتہارات کے ذریعہ اپنے ذوق نمائش کو تسکین دے رہی ہیں، میں پردہ کرنے میں فخر محسوس کرتی ہوں۔ اس لیے کہ میں مسلمان ہوں اور ایک مسلمان کے لیے اللہ اور اس کے پیارے رسولﷺ کی رضا و خوشنودی سے بڑھ کر کوئی دولت نہیں ہوسکتی جو دونوں جہاں میں کام آنے والی چیز ہے۔ اس کے اہتمام اور تاکید کا اندازہ اس حدیث سے لگایا جاسکتا ہے کہ تاجدار مدینہ محمد عربیؐ کی خدمت اقدس میں ایک نابینا صحابی تشریف لائے، حضورؐ نے اپنی زوجہ محترمہ سے پردہ کرنے کے لیے کہا تو انھوں نے عرض کیا کہ حضورؐ یہ تو نابینا ہیں؟ آپؐ نے فرمایا تمہیں تو اللہ پاک نے آنکھیں عطا فرمائی ہیں۔ اسلام میں پردہ کا حکم ان تمام برائیوں کے دروازے بند کردیتا ہے جو موجودہ سماج میں تیزی سے پھیل رہی ہیں۔ اور جن کے تدارک کے لیے دنیا کی بڑی بڑی مملکتیں قوانین بنانے پر مجبور ہیں۔ لیکن ان تمام قوانین کے باوجود عورتوں کے خلاف جرائم کم ہونے کے بجائے روز بروز بڑھ رہے ہیں اور وہ غیر محفوظ ہوتی جارہی ہیں۔ اسلام چاہتا ہے کہ سماج میں برائیوں کو پھیلنے سے روکا جائے اور پردہ اس کی کلید ہے۔ جو لوگ پردے کو اختیار کرتے ہیں وہ نسبتاً زیادہ محفوظ ہیں۔ بعض لوگ پردہ کو ترقی کی راہ میں روڑا تصور کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو مغرب کے ترقی یافتہ ممالک کو دیکھنا چاہیے جہاں کی تعلیم یافتہ خواتین عریانیت کی برائیوں سے اکتا کر پردہ میں پناہ لے رہی ہیں۔
ہاں اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ پردہ کا مطلب کچھ لوگوں نے عورتوں اور اپنی بچیوں کو گھر کی چہار دیواری میں رکھنے اور ان پر بیجا سختی کرنے اور اس کا بہانہ بناکر انہیں تعلیم سے محروم رکھنے کو سمجھ لیا ہے، جو بے بنیاد ہے، احتیاط اور کسی جگہ کے ماحول کا خیال کرنا دوسری چیز ہے، لیکن اس کا بہانہ بناکر تعلیم و ترقی سے دور رکھنا نہ تو عقلمندی ہے اور مزاج اسلام سے میل کھاتاہے۔