میں یہی عرض کروںگی کہ پردہ اس لیے کرتی ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے پردہ کرنا میرے لیے فرض قرار دے دیا ہے۔ قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے:
’’اے نبیؐ! اپنی بیویوں اور مسلمان عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے گھونگھٹ ڈال لیا کریں۔ اس سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ پہچانی جائیں گی اور ان کو ستایا نہ جائے گا۔‘‘ (الاحزاب)
جب میں نے قرآن کی یہ آیت ترجمے اور تفسیر کے ساتھ پڑھی تو مجھے معلوم ہوا کہ پردہ میرے لیے کرنا فرض ہے۔ اور قرآن کی یہ آیت پڑھنے سے پہلے بھی مجھے پردہ کرنے کا اشتیاق تھا۔ اور مجھے پردہ کرنے والی خواتین اور لڑکیاں بہت اچھی لگتی تھیں۔ پھر جب میں نے غور کیا تو مجھے معلوم ہوا کہ قرآن کی یہ آیت صرف نبیؐ کی بیویوں ہی سے مخاطب نہیں ہے بلکہ یہ تو مسلمان عورتوں سے بھی مخاطب ہے تو پھر میرا ضمیر مجھے یہ اجازت نہیں دیتا تھا کہ میں پردہ کیے بغیر گھر سے باہر جاؤں۔
اسی طرح سورہ نور میں ارشاد ہوتا ہے:
’’اے نبیؐ! مومن مردوں سے کہو کہ اپنی نظر نیچی رکھیں اور اپنی عصمت و عفت کی حفاظت کریں۔ یہ ان کے لیے پاکیزگی کا طریقہ ہے۔ یقینا اللہ جانتا ہے جو کچھ وہ کرتے ہیں۔ اور مومن عورتوں سے کہو کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی عصمت کی حفاظت کریں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں۔ سوائے اس زینت کے جو خود ظاہر ہوجائے اور وہ اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیوں کے بکل مار لیا کریں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں مگر ان لوگوں کے سامنے: شوہر، باپ، خسر، بیٹے، سوتیلے بیٹے، بھائی، بھتیجے، بھانجے، اپنی عورتیں، اپنے غلام، وہ مرد خدمت گار جو عورتوں سے کچھ مطلب نہیں رکھتے۔ وہ لڑکے جو ابھی عورتوں کی پردہ کی باتوں سے آگاہ نہیں ہوئے ہیں۔ (نیز ان کو حکم دو) وہ چلے وقت اپنے پاؤں زمین پر اس طرح نہ مارتی چلیں کہ جو زینت انھوں نے چھپا رکھی ہے (آواز کے ذریعہ) اس کا اظہار ہو۔‘‘
اس طرح جب میں نے ان آیات پر غور کیا تو مجھے معلوم ہوا کہ مردوں کو تو صرف اس قدر تاکید کی گئی ہے کہ اپنی نگاہیں پست رکھیں اور فواحش سے اپنے اخلاق کی حفاظت کریں۔ مگر عورتوں کو مردوں کی طرح ان دونوں چیزوں کا حکم بھی دیا گیا ہے۔ اور پھر معاشرت اور برتاؤ کے بارے میں چند ہدایتیں بھی دی گئی ہیں۔ اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ ان کے اخلاق کی حفاظت کے لیے صرف غض بصر اور حفظ فروج کی کوشش ہی کافی نہیں ہے بلکہ کچھ اور ضوابط کی ضرورت ہے۔
حکم الٰہی کا اصل مقصد یہ نہیں ہے کہ لوگ ہر وقت نیچے ہی دیکھتے رہیں اور کبھی اوپر نظر ہی نہ اٹھائیں۔ مدعا دراصل یہ ہے کہ اس چیز سے پرہیز کرو جس کو حدیث میں آنکھوں کا زنا کہا گیا ہے۔ اجنبی عورتوں کے حسن اور ان کی زینت کی دید سے لذت اندوز ہونا مردوں کے لیے اور اجنبی مردوں کو مطمع نظر بنانا عورتوں کے لیے فتنے کا موجب ہے۔ فساد کی ابتدا طبعاً و عادتاً یہیں سے ہوتی ہے۔
’’حضرت بریدہؓ کی روایت ہے کہ رسولؐ نے حضرت علیؓ سے فرمایا: اے علیؓ! ایک نظر کے بعد دوسری نظر نہ ڈالو۔ پہلی نظر تمہیں معاف ہے مگر دوسری نظر کی اجازت نہیں۔‘‘
ابتدائے عہد اسلام میں عورتیں زمانہ جاہلیت کی طرح قمیص اور دوپٹے کے ساتھ نکلتی تھیں اور شریف عورتوں کا لباس ادنی درجہ کی عورتوں سے مختلف نہ تھا۔ پھر حکم دیا گیا کہ وہ چادریں اوڑھیں اور اپنے سر اور چہرے کو چھپائیں تاکہ لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ وہ شریف عورتیں ہیں فاحشہ نہیں ہیں۔
اس طرح جب میں نے آیت قرآن کے الفاظ اور ان کی مقبول عام اور متفق علیہ تفسیر اور عہد نبوی کے عمل کو دیکھا۔ تو میرے لیے اس حقیقت سے انکار کی مجال باقی نہ رہی کہ شریعت اسلامیہ میں عورت کے لیے چہرے کو ایک جانب سے مستور رکھنے کا حکم ہے اور اسی پر خود نبی اکرم ﷺ کے زمانہ سے عمل کیا جارہا ہے۔ نقاب اگر لفظاً نہیں تو معنی و حقیقت میں خود قرآن عظیم کی تجویز کردہ چیز ہے۔ جس ذات مقدس پر قرآن نازل ہوا تھا اسی کی آنکھوں کے سامنے خواتین اسلام نے اس چیز کو اپنے خارجی لباس کا جزو بتایا تھا اور اس زمانہ میں بھی اس چیز کا نام ’’نقاب‘‘ ہی تھا۔
اور یہ وہی ’’نقاب‘‘ ہے جس کو یورپ انتہا درجہ کی مکروہ اور گھناؤنی چیز سمجھتا ہے، جس کا محض تصور ہی اس پر ایک بار گراں ہے، جس کو ظلم اور تنگ خیالی اور وحشت کی علامت قرار دیا جاتا ہے۔ ہاں یہ وہی چیز ہے جس کا نام کسی مشرقی قوم کی جہالت اور تمدنی پسماندگی کے ذکر میں سب سے پہلے لیا جاتا ہے اور جب یہ بیان کرنا ہوتا ہے کہ کوئی مشرقی قوم تمدن و تہذیب میں ترقی کررہی ہے تو سب سے پہلے جس بات کا ذکر بڑے انشراح و انبساط کے ساتھ کیا جاتا ہے وہ یہی ہے کہ اس قوم سے ’’حجاب‘‘ رخصت ہوگیا ہے۔
اسلام اور مغربی تہذیب کے مقاصد میں بعد المشرقین ہے اور وہ شخص غلطی کرتا ہے جو مغربی نقطۂ نظر سے اسلامی احکامات کی تعبیر کرتا ہے۔ مغرب میں اشیاء کی قدروقیمت کا جو معیار ہے، اسلامی معیار سے بالکل مختلف ہے۔ مغرب جن چیزوں کو اہم اور مقصود حیات سمجھتا ہے، اسلام کی نگاہ میں ان کی کوئی اہمیت نہیں۔