ہر دور میں میری قدر و قیمت تھی اور آج بھی میری اہمیت اسی طرح باقی ہے۔ بلکہ آج کا انسان تو میرے پیچھے سرپٹ بھاگا چلا جارہا ہے۔ سب کچھ چھوڑ کر اور تمام قدروں اور روایات کو تیاگ کر۔ دنیا کی تمام تر اعلیٰ قسم کی مٹھائیوں سے بڑھ کر میرے اندر مٹھاس ہے اور میں خود نہیں بلکہ ہر امیر، غریب، عاقل، بالغ، بچہ، بوڑھا، پڑھا لکھا، جاہل گنوار، حافظ، عالم اور ادنیٰ و اعلیٰ سبھی کہتے ہیں کہ میری مٹھاس و شیرینی میں زندگی بخش توانائی چھپی ہے اور میں حرس الدنیا عذاب الموت کے مریضوں کے لیے ایک کیپسول ہوں۔ ٹانک ہوں۔ مجھے کسی کے ہاتھ پر رکھ دیجیے اور میرا کمال دیکھئے کہ اس کے رگ رگ و ریشے ریشے میں بجلی کے کرنٹ کی طرح دوڑنے لگتا ہوں جس کے پاس میں ہوں بس اسے ہر کوئی سلام کرے۔
کچھ ناسمجھ اور بے خدا لوگوں نے تو مجھے بھگوان ہی سمجھ رکھا ہے اور میری پوجا کرتے ہیں۔ آج کل جو یہ فسادات، ہنگامے، ماردھاڑ، خون خرابے، لوٹ مار اورساتھ ساتھ دنیاوی چمک دمک و گہما فہمی بھی میری ہی مرہونِ منت ہے۔
اس طرح میں عوام کے ساتھ ساتھ سرکار کا بھی چہیتا اور ناک چڑھا ہوں الیکشن میں سرکار کی طرف سے لگاتار جان توڑمحنت کرتا ہوں اور میری محنتوںکے باعث ہی سرکار الیکشن جیت جاتی ہے۔ میں جس پارٹی کا بھی ساتھ دوں وہ پارٹی کبھی بھی ہار نہیں سکتی یہ میرا چیلنج ہے حالانکہ میں پیدائشی بہرہ ہوں، گونگا ہوں، لولا لنگڑا ہوں۔
میرے پاس ایک خاص فن بھی ہے وہ یہ کہ میں ایسے ایسے کرامات اور کارنامے دکھاتا ہوں کہ انسان حیران رہ جاتے ہیں۔ جو کام عام لوگوں کے لیے ناممکن ہوتا ہے اسے میں بہ آسانی کرڈالتا ہوں۔ میرے پاس ایک ’’خدائی خوبی‘‘ بھی ہے کہ میں لوگوں کے عیوب اور برائیوں پر پردہ ڈالنے والا ایک خوبصورت زرین، نقش دار ایمبرائڈری چادر ہوں جو تمام تر عیوب کو ڈھانپ لیتی ہے۔ کسی شاعر نے میرے ہی بارے میں کہا تھا کہ
غربت نے ڈھانپ لی ہیں میری خوبیاں تمام
دولت نے سارے عیب تمہارے چھپا لیے
لوگ مجھے کیا سمجھتے ہیں اور مجھے کہاں کہاں سے اور کیسے کیسے استعمال کرتے ہیں اس کا ذمہ درا تو میں نہیں ہوں۔ یہ تو ان لوگوں کا کام ہے جو میرے مالک ہیں، میں تو یہی کہوں گا کہ میں ہرگز ہرگز خدا نہیں، اور نہ ہی حاجتوں کو پورا کرنا میرا کام ہے اور نہ ہی مجھ سے کچھ ہوسکتا ہے۔ میں تو ایک عارضی سی شے ہوں۔ دائمی ضرورتوں کو پورا کرنا ، عیبوں کو چھپانا اور رزق کا دینا تو صفاتِ قدرت میں سے ہیں اب لوگ اگر مجھے خدا یا خدا سے بھی بڑا کوئی بنادے یا سمجھنے لگے تو میں کیا کروں۔ بلکہ میں تو یہ بھی نہیں جانتا کہ وہ کون لوگ ہیں کیونکہ میں نہ دیکھ سکتا ہوں اور نہ سن سکتا ہوں اور نہ ہی اپنے پیروں سے چل سکتا ہوں۔
لیکن میں اپنے بارے میں بتاتے ہوئے ہوش مند لوگوں سے یہ بات ضرور بتاتا ہوں کہ میں دنیا میں جس کے پاس بھی رہوں اس کے لیے آزمائش بن جاتا ہوں۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے میرے بارے میں فرمایا تھا:
إنما اموالکم واولادکم فتنۃ۔
’’بے شک تمہارے اموال اور تمہاری اولاد تمہارے لیے آزمائش ہیں۔‘‘
سمجھ گئے نا میں کون ہوں؟