نئی تہذیب کے دور میں

احمد کلیم فیض پوری

جب بھی ریل کسی اسٹیشن پر رکتی وہ بے مزہ سے ہوجاتے۔ جیسے کسی نے کوئی ناپسندیدہ چیز ان کے منہ میں ٹھونس دی ہو۔ اسٹیشن کی چہل پہل انہیں ذرا بھی اچھی نہ لگتی تھی۔ کھڑکی کے پاس چائے والا ہانک لگاتا تو وہ منھ پھیر لیا کرتے۔ ان کا جی یہی چاہتا تھا کہ جتنی جلد ہوسکے منزل پر پہنچ جائیں۔ گاڑی کراسنگ پر رکتی تو تب بھی وہ یہ محسوس کرتے جیسے کائنات تھم سی گئی ہو۔ پھر وہ کمپارٹمنٹ کے شور سے بے نیاز اپنی آنکھیں موند لیتے۔ تب انہیں اپنے تصور کی چاندنی میں نہائے بچے دکھائی دینے لگتے جنہیں وہ جی جان سے چاہتے تھے۔
ویسے اپنا گاؤں اوراپنا گھر چھوڑ کر کہیں جانا انہیں قطعی ناپسند تھا لیکن بچوں سے والہانہ پیار انہیں یہ سفر کرنے پر مجبور کردیا کرتا تھا۔ اپنے کھیت اور کھلیانوں کو بھلا کر ہر تین چار ماہ بعد پوتے پوتیوں سے ملنے ضرور جایا کرتے۔ دوران سفر ان کی آرزو ہوتی کہ ایک جست لگائی اور پہنچ گئے اپنے مونو اور ڈالی کے پاس۔ اگرچہ یہ ممکن نہ تھا پھر بھی اپنے اس جذبے کا کیا کرتے جو ٹرین میں سوار ہوتے ہی اپنے پر نکال لیا کرتا تھا۔
افضل حسین ایک بڑے کاشتکار تھے۔ جنہیں اپنی مٹی کی خوشبو سے لگاؤ تھا۔ خود محنت کرتے اور اپنے لڑکوں سے بھی یہی توقع رکھتے تھے۔ لیکن سب سے چھوٹا ارشدحسین پڑھ لکھ کر ان کے ہاتھ سے نکل گیا۔ تعلیم کی آندھی گاؤں کی دہلیز تک پہنچ گئی تو انہیں ہتھیار ڈالنے ہی پڑے تھے۔ ان کا ماننا تھا کہ کسان ہی ملک میں کلیدی رول ادا کرسکتا ہے جو وکاس کا سرچشمہ بھی ہے۔ اسی لیے گاؤں کا پہلا بچہ ارشد حسین انجینئرنگ کی ڈگری لے کر آیا تو انہیں اتنی خوشی نہیں ہوئی تھی۔
ارشد حسین جب تک بہو کے ساتھ باہر رہا۔ وہ کبھی اس کے گھرنہیں گئے تھے۔ بیٹے اور بہو کا اصرار تھا کہ وہ سب کچھ چھوڑ کر انہی کے پاس رہیں کہ بڑے بوڑھوں کا گھر میں رہنا ایک سائبان کی مانند ہے جس کی چھاؤں دلوں کو راحت پہنچاتی ہے پھر ماں بھی اس دنیا میں نہیں رہیں۔ مگر کوئی دلیل افضل حسین کو متاثر نہ کرتی، پرانی کاٹھی کب ماننے والی تھی۔
دن گذرتے گئے، پہلے سونو اور اس کے بعد ڈالی پیدا ہوئی تو جیسے دادا جی کے دل پر بچوں کے پیار کی پھوار گرنے لگی۔ آج کا سفر بھی اسی پیار کی کشش کانتیجہ تھا۔
ایک لمبے سفر کا اختتام ہوا۔ افضل حسین اپنا سامان لیے اترنے والے تھے کہ ارشد حسین اور دونوں بچے دوڑ کر وہاں پہنچ گئے۔ دادا جی نے انہیں بانہوں میں بھر لیا۔ وہ محسوس کررہے تھے جیسے برف کی بوندیں اندر ہی اندر ٹپک رہی ہیں۔
ہلکی بارش کے بعد شام نکھر آئی تھی۔ سورج کا گلابی چہرہ بادلوں کی اوٹ سے جھانک رہا تھا۔ ارشد کی کار گیلی سڑک پرچلتی بنگلہ تک پہنچی تو بہو کو سراپا انتظار پایا، گھر میں ایک رونق سی آگئی تھی۔
سونیا … ہٹو بھئی، یہ تمہاری عادت ٹھیک نہیں، یوں پیٹھ پر سوار ہوگے تو ہم باغبانی کیسے کرپائیں گے۔ دادا جی نے بے حد پیار سے کہا … اسی وقت سونو روٹھ کر دور جابیٹھا۔ دادا جی نے دیکھا تو لگے منانے۔
’’منے بیٹے، کیا ہم نے غلط کہا تھا…؟‘‘
’’نہیں دادا جی، مگر آپ نے ہمیں سونیا کیوں کہا؟ کیا ہم لڑکی ہیں، سب یہی کہیں گے۔‘‘
دادا جی سونو کے پاس گئے اور اپنے دونوں کان پکڑ کر معافی مانگی، سونو کھل کھلا کر ہنس دیا، اسی وقت ڈالی آوارد ہوئی۔ پاس ہی پڑی قینچی ہاتھ میں لیے مہندی کا حلیہ بگاڑنے جارہی تھی کہ دادا جی نے اسے گود میں اٹھالیا۔
بنگلہ کے وسیع لان میں ایک خوبصورت باغیچہ تھا۔ دادا جی صبح صبح باغبانی میں مصروف ہوجاتے۔ انہیں لگتا جیسے وہ اپنے کھیت کی منڈیر پر ہوں۔ جب وہ زائد اگی ہوئی گھاس صاف کررہے ہوں تو بچے شرارت سے باز نہ آتے اور ان کے کام میں خلل ڈالتے رہتے۔ اس طرح دادا جی کو پریشان کرنے میں انہیں بڑا مزہ آتا۔ دادا جی بھی برا نہیں مانتے اور جب بچے اسکول چلے جاتے تو ان کے آنے تک دادا جی اپنی اداسی کو نہیں چھپا پاتے تھے۔ سونو آٹھ سال کا تھا اور ڈالی اس سے دوسال چھوٹی۔
افضل حسین کو آئے تین ہفتے گذر چکے تھے۔ اب وہ اپنی واپسی کا ارادہ ظاہر کرنے لگے تھے۔ انہیں معلوم تھا کہ ابھی سے مدعا بیان کیا جائے۔ تب ہی ہفتہ دس دن بعد نکلنا ہوگا۔ گھر میں کوئی بھی انہیں آسانی سے چھوڑنے والا نہیں تھا۔ خاص طور پر سلمیٰ جو انہیں باپ کی جگہ مانتی تھی۔ بے حد غریب گھر کی خوبصورت لڑکی، ایک انجینئر سے بیاہی گئی تھی۔ محض افضل حسین کی پسند اور رضا کی خاطر ، ورنہ وہ بھی اپنی بہنوں کی طرح کسی رکشہ والے سے بیاہ دی جاتی۔ یہ بات اس کے دل پر انمٹ نقوش چھوڑ گئی تھی۔
ایک دن رکشہ نہیں آئی۔ ارشد حسین چاہتا تھا کہ اپنی اسکوٹر سے ڈالی کو اسکول چھوڑ آئے۔ مگر افضل حسین تیار ہوگئے۔ پیدل واپس آرہے تھے کہ کار سے حادثہ کا شکار۔ لوگوں کی بھیڑ میں ایک شخص نے انہیں پہچان لیا اور کچھ لوگوں کی مدد سے اسپتال میں داخل کرادیا۔ جیسے ہی ارشد حسین کے گھر اطلاع پہنچی دونوں دوڑ پڑے۔ افضل حسین کے سر میں کافی چوٹیں آئی تھیں، پورا سر پٹیوں سے بندھا ہوا تھا، سلائن لگی ہوئی تھی اور افضل حسین بے ہوشی کی حالت میں پلنگ پر لیتے ہوئے تھے۔
سلمیٰ اپنے آپ پر قابو نہیں رکھ پارہی تھی۔ آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ اپنے باپ کی موت پر بھی وہ اتنا نہیںروئی تھی۔ افضل حسین باہر سے کتنے ہی سخت دکھائی دیتے ہوں، اندر سے موم کی طرح نرم تھے۔ پائنتی بیٹھے وہ شکوہ سنج تھی کہ اللہ ہم نے کبھی کسی کا برا نہیں چاہا۔ خسر صاحب نے کتنوں کی مدد کی، کتنی بیواؤں پر رحم کھایا، غریبوں کی سرپرستی کی، پھر یہ مصیبت کیوں؟ یہ سزا کس بات کی؟
ادھر ارشد حسین پر سکتہ طاری تھا۔ اس کا جی چاہ رہا تھا کہ باپ سے لپٹ کر خوب روئے۔ مگر وہ ایسا نہیں کرسکتا تھا۔ جانتا تھا کہ اس کے صبر کا باندھ ٹوٹ گیا، تو سب بے قابو ہوجائیں گے۔ بچوں کی چھٹی ہوئی تو ارشد حسین انہیں لے کر اسپتال پہنچا۔ دادا جی کی حالت دیکھ کر وہ بلبلا اٹھے، ان کی چیخوں سے کمرے کے درودیوار ہل گئے، نرس آئی اور بمشکل سب کو الگ کیا۔ ڈاکٹر پہلے ارشد حسین کو بتا چکا تھا کہ سر میں زبردست چوٹ لگی ہے کومہ میں چلے گئے ہیں۔ ہر ممکن کوشش کی جائے گی دیکھیں آپریشن کے بعد کیا ہوتا ہے۔ ویسے امید کم ہی دکھائی دیتی ہے۔ یہ سن کر ارشد حسین پر جو بیتی اس کا اظہار کسی کے سامنے نہیں کرسکتا تھا۔ یہ لمحے اس کے لیے بے حد اذیت ناک تھے۔
آج اسپتال کا تیسواں دن تھا، جہاں آج بھی وہ بے حس و حرکت پڑے ہوئے تھے۔ اب تک ان کے دو آپریشن ہوچکے تھے۔ مگر اس کے گھروندے میں کوئی کوشش سرخ رو نہ ہوئی تھی۔ سانسوں کی ایک نازک ڈور تھی جس کا رشتہ فقط روح سے جڑا ہوا تھا۔ باقی ایک ڈھانچہ، پنجرا سا جس میں بیٹھی مینا اڑ کر جانے کے لیے پر تول رہی تھی۔
اس دوران کئی رشتہ دار آئے، دوست احباب کا تانتا بندھا رہا۔ ہر ایک نے اپنے اپنے انداز میں اظہار غم کیا۔ مگر یہ اتنا گہرا تھا کہ اس کے آگے ارشد حسین کے جذبوں کا رنگ پھیکا پڑا ہوا تھا۔
ارشد حسین کا کام اگرچہ اس کا اسسٹنٹ دیکھ رہا تھا پھر بھی کچھ کام ایسے ہوتے ہیں جو ایک معینہ مدت میں پورے کرنے تھے۔ چنانچہ اس نے وقت نکالنا شروع کیا۔ مگر جہاں بھی ہوتا باپ کا بے جان چہرہ اس کی آنکھوں میں سمایا رہتا۔ سلمیٰ کی جھیل سی آنکھیں سوکھ گئیں تھیں، اور بچوں کی معصوم پکار کانوں میں گرم لوہا پگھلاتی تھی جو بلک بلک کر پوچھتے کہ دادا جی آنکھیں کب کھولیں گے۔ وہ یہ دردوکرب خاموشی کے ساتھ جھیل رہا تھا۔
دس ماہ بعد ڈاکٹر نے جواب دے دیا۔ اس دوران وہ امریکہ سے آئے ایک ماہرڈاکٹر سے بھی رجوع کرچکا تھا۔ مگر نو چانس، ڈاکٹر نے کہا: ’’سوری مسٹر ارشد، ہم ہر طرح کی کوشش کرچکے ہیں۔ بہتر ہوگا کہ آپ انہیں گھر لے جائیں، اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں کہ یہ کب ہوش میں آئیں گے؟‘‘
دن تو گزرنا ہی تھے، چھ سال کا طویل عرصہ غم کی ایک لمبی داستان سنا گیا ایک مریض کے رہتے ارشد حسین کا خوشیوں بھرا گھر اسپتال میں تبدیل ہوچکا تھا۔ وہی پلنگ، صاف شفاف بستر اور سلائن سے ٹپکتی ایک ایک بوند زندگی کے معمولات بدل چکی تھی۔ سلمیٰ کی آنکھوں میں آنسو خشک ہوچکے تھے۔ ارشد حسین کی پنڈلیوں میں درد رہنے لگا تھا سونو کالج پہنچ گیا تھا۔ اور سب سے بڑی بات کہ وقت کے ساتھ ساتھ دکھ کا احساس ناپید ہوچلا تھا۔
رات کے گیارہ بجے وہ ایک کمرے میں بیٹھے محو گفتگو تھے۔ ورما، ارشد حسین کو سمجھا رہا تھا: ’’یہ کیا بے وقوفی ہے، یہ طے ہے کہ وہ جانبر نہ ہوسکیں گے،زندہ لاش کی طرح پڑے ہیں۔ چھ سال کا عرصہ کم نہیں ہوتا۔ نہ جانے کتنے برس اور گذر جائیں گے۔ تیس سال بعد بھی مریض کومہ سے نہیں نکلتا، اسی حالت میں دم توڑدیتا ہے تو کیا تم انتظار کرو گے؟ بہت کرلیا۔ بہت سہ لیا۔ یہ تیمارداری کا عذاب کب تک، اپنے گھر کو دیکھ اس سوگوار ماحول میں کوئی کیسے جی سکتا ہے۔ بچوں کی تعلیم کا کیا ہوگا۔ ان کا مستقبل مٹھی سے نکل گیا تو کس مقصد کے لیے زندہ رہنا پسند کروگے۔ ورما نے پائپ جلایا اور آگے کہنا شروع کیا۔
’’یہ دنیا بہت بدل چکی ہے، دوست، رشتے ناطے، محبت وشفقت، ظلم وزیادتی سب کے معنی وہ نہیں رہ گئے ہیں جو پہلے ہوا کرتے تھے۔ تم نے بہت ہاتھ پیر مارلیے۔ کیا اب بھی یہ سمجھتے ہو کہ مریخ کو چھولو گے! شکر مانو کہ اپنی ترقی پسند ریاست نے مرسی کلنگ کا قانون پاس کردیا ہے۔ کسی طرح ہاتھ نہ آنے والے مریضوں کے لیے آسان موت کی اپیل، لوگ فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ تم بھی اٹھاؤ، میں کہتا ہوں یقینی طور پر مرنے والے اپنے باپ کے لیے کلنگ کی درخواست دے ہی ڈالو، او کے؟‘‘ اس سے پہلے کہ ارشد حسین کچھ کہتا ورما اور اس کی غیر ملکی بیوی بنگلہ کا صدر دروازہ پار کرچکے تھے۔ سلمیٰ وہاں تک گئی اور پھیکی مسکراہٹ کے ساتھ انہیں الوداع کہا۔
ورما، ارشد حسین کا کلاس میٹ تھا۔ اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکہ گیا تو وہیں بس گیا۔ امریکن لڑکی سے شادی کی اور سسر کے کروڑوں کے بزنس کا پاٹنر بن گیا، آج ہی صبح کی فلائٹ سے پہنچا تھا، جیسے ہی گھر والوں نے بتایا شام کے وقت ہی یہاں پہنچ گیا تھا۔
شب کے بارہ بچنے کو تھے، سلمیٰ افضل حسین کے کمرے میں سونے چلی گئی، ادھر ارشد حسین کی نیند اڑ چکی تھی۔ اس کے دماغ میں ورما کی یہ بات بار بار گشت کررہی تھی کہ ان کا مستقبل مٹھی سے نکل گیا تو تم کس مقصد کے لیے زندہ رہوگے؟ وہ سوچنے پر مجبور تھا کہ آج نہیں کل باپ کا ماتم کرنا ہی ہے۔ بچوں کو ضائع نہیں کیا جاسکتا ہے، ارشد حسین کو آج پہلی بار احساس ہوا تھا کے بچے دو تین نمبروں سے سہی کلاس میں اول پوزیشن کیوں حاصل نہیں کرپارہے ہیں، اور اس نے ذہنی طور پر ورما کی بات قبول کرلی۔
اگلی صبح بیڈ ٹی لیے سلمیٰ کمرے میں داخل ہوئی تو اس نے بے چینی سے بچوں کی پڑھائی کے بارے میں پوچھا۔ یہ بھی پوچھا کہ وہ کیوں اول نہیں آرہے؟ سلمیٰ نے عجیب نظروں سے اسے گھورا، بچوں کے لیے ارشد کا شک و شبہ میں مبتلا ہونا اس کے لیے غیر متوقع تھا۔
’’جس اسکول میں نئے پولیس جنرل انسپکٹر کے بچے داخلہ لے چکے ہوں وہاں کسی کی کیا بساط؟‘‘ کہتے ہوئے وہ ناشتہ بنانے کچن میں گھس گئے۔
ارشد دیر تک پیالے میں رکھی چائے کی مانند ٹھنڈا پڑگیا۔ اس کو ورما کی باتیں دودھ میں اٹھے ابال کی طرح لگ رہی تھیں، جو تھوڑی دیر بعد بیٹھ جاتا ہے۔ اگرچہ اس کا ذہن ورما کی باتیں ماننے کو تیار ہوچکا تھا۔ لیکن دل کچھ اور کہتاتھا۔ اور اس کا کہا زمین کی حقیقتوں سے قریب تر تھا۔ اولاد کے لیے ماں باپ کی دعائیں کامرانی اور نجات کا وسیلہ ہوا کرتی ہیں۔
ارشد حسین کے دل میں ایک ہوک سی اٹھی، جو چنگاری بن کر سارے بدن میں سرایت کرگئی اب وہ اس آگ سے اپنے اندر چھپی کشمکش کی مورت کو جلاکر خاکستر کردینا چاہتاتھا۔
کہانی کار کی نیند ایک جھٹکے کے ساتھ کھل گئی، اس نے سوچا کیا یہ خواب ہے؟ دوسرے ہی لمحے ا س کے خیال میں آیاکہ نہیں یہ حقیقت ہے جو سماج میں ’’ تعلیم یافتہ‘‘ لوگوں نے رائج کی ہے۔ مگر میں یہ نہیں سمجھ پارہا ہوں کہ آخر انسان اتنا تنگ دل کیوں اور کیسے ہوجاتا ہے؟

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146