ایک خوشگوار خاندان کے لئے جہاںیہ ضروری ہے کہ دولہا اور دلہن کے درمیان نہایت مضبوط اور خوشگوار تعلقات استوار ہوں وہیں یہ بھی ضروری ہے کہ دونوں اپنے نئے سسرالی رشتہ دارون سے بھی محبت و اعتماد کی بنیادوں پر تعلقات قائم کریں۔ خصوصاً ہندوستانی معاشرہ مین ساس اور بہو کے درمیان تعلق کی بڑی اہمیت ہے۔ گھر کے ماحول کو خوشگوار بنانے میں اس تعلق کا بڑااہم رول ہوتا ہے۔ اگر ساس اپنی بہو کو بیٹی کی طرح پیار اور بہو اپنی ساس کو ماں کا مقام دینے میں کامیاب ہوجائے تو گھر سکون کا گہوارا بن جاتا ہے۔ بیوی کے شوہر سے تعلقات بھی بے حد مضبوط ہوجاتے ہیں۔ بچوں کو ایک پرسکون گھر اور پچھلی دو نسلوں کی شفقت و پیار کا فیضان میسر آجاتا ہے۔اس کے برخلاف یہ نازک رشتہ تناؤ کا شکار ہوجائے تو گھر میں طرح طرح کے مسائل جنم لینے لگتے ہیں۔ بے اعتماد ی اور شک کی فضا عام ہوجاتی ہے۔ شکوے، شکایات اور اس سے آگے بڑھ کر فتنے اور سازشیں ڈیرہ ڈالنے لگتی ہیں۔ اس کا خراب اثرخود شوہر اور بیوی کے تعلقات پر بھی پڑتا ہے۔ اکثر خاندانی تنازعات کی جڑ یہی نازک تعلق ہوتا ہے۔ اس تعلق کو نبھانے میں شوہر اور بیوی کا بھی اہم رول ہوتا ہے اور شوہر کی ماں کا بھی۔ اس سے قبل شادی سے قبل کونسلنگ کے موضوع کے تحت اس مسئلہ سے متعلق اُن امور کا ہم نے احاطہ کیا تھا جن کا تعلق شوہر یا بیوی سے ہوتا ہے۔ آج کے اس مضمون میں ہم اُن امور پر روشنی ڈالیں گے جو یگر سسرالی رشتہ داروں خصوصا ًساس یا شوہر کی ماں سے متعلق ہیں۔
دنیا کی ہر ماں اپنے بیٹے کی دلہن کا کھلی بانہوں کے ساتھ پر جوش استقبال کرنا چاہتی ہے۔ جس ماں نے اپنے بیٹے کے سکھ کے لئے دنیا کی ہر مصیبت برداشت کی اور ہر طرح کی قربانی دی، وہ کیسے یہ چاہ سکتی ہے کہ اس کی ازدواجی زندگی تلخیوں کی شکار ہوجائے؟ ہر ماں اپنی ہونے والی بہو کے بارے میں سپنے دیکھتی ہے۔ بڑے ارمانوں کے ساتھ بیٹے کی شادی کی تیاری کرتی ہے۔ شہر شہر گھوم کر ، دلہن کا انتخاب کرتی ہے۔شادی کی تیاریاں کرتی ہے اور بڑی امیدوں اور مسرتوں کے ساتھ اس نئے مہمان کا گھر میں استقبال کرتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ آخر اس کے بعد کیا ہوجاتا ہے کہ اپنے ارمانوں کی مرکز، اپنی پسند سے منتخب، اس خوب صورت لڑکی سے اچانک اُس کے تنازعات شروع ہوجاتے ہیں؟ اور کبھی کبھی یہ تنازعات اس حد کو پہنچ جاتے ہیں کہ گھر ٹوٹنے کی نوبت آجاتی ہے؟ اس مسئلہ کے نفسیاتی اسباب کو ہم سمجھ جائیں اور تھوڑی سمجھ داری سے کام لیں تو بہت آسانی سے اس پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ یقینا اس سلسلہ میں ساس کو اپنا رول ادا کرنا ہے اور بہو کو بھی اپنا رول ادا کرنا ہے لیکن موضوع کی مناسبت سے آج کے مضمون میں ہم ساس اور سسرالی رشتہ داروں کے مطلوبہ رول کو زیر بحث لائیں گے۔
پوری شخصیت کا استقبال کیجئے!
آپ دلہن کی صورت میں ایک نئی شخصیت کا اپنے گھر میں استقبال کرنے جارہی ہیں۔ انسانی شخصیت صرف جسمانی وجود کا نام نہیں ہے۔ ہر شخصیت کی اپنی خصوصیات ہوتی ہیں۔ اچھی بھی اور بری بھی۔ شخصیت جسم کے ساتھ ساتھ صلاحیتوں، اوصاف، جذبات، مزاج اور عادات وغیرہ کے مجموعہ کا نام ہے۔ یہ لڑکی جو آپ کے گھر آئی ہے، ایک خاص ماحول میں اس کی پرورش ہوئی ہے۔ ایسا عین ممکن ہے کہ اس کے بہت سے رواج آپ کے گھر کے رواجوں سے مختلف بلکہ متصادم ہوں،اس کی عادتیں الگ ہوں، کھانے پکانے کے طور طریقے الگ ہوں اور پسند مختلف ہو۔ شخصیت کے استقبال کا مطلب ان سب چیزوں کا استقبال ہے۔ یہی چیزیں آپ کی بہو کی شخصیت کا جزو ہیں۔انہی چیزوں کے ساتھ اس کی پرورش ہوئی ہے۔ اب وہ اس کے لاشعور کا حصہ ہیں۔ آپ کی یہ ذمہ داری ہے کہ اس کی شخصیت کی انفرادیت کا احترام کریں۔ اسے اپنی پسند کی زندگی گذارنے کا حق دیں ۔ اُسے اس کی پسند کا کھانا ملے۔ اپنی عادت کے مطابق سونے جاگنے اوررہنے سہنے کی سہولت ملے۔ اکثر تنازعات، اس تنوع کو نہ سمجھنے کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔ ’’ہمارے ہاں ایسا نہیں ہوتا‘‘، ’’ہم اس طرح نہیں اس طرح کرتے ہیں‘‘، ایسے جملوں کی تکرار ، آپ کے خاندان کی اس نئی نویلی رکن کے اندر اجنبیت کا احساس پیدا کرتی ہے۔ ان جملوں کی گونج اس کے لاشعور میں یہ احساس جاگزیں کرتی ہے کہ وہ اس گھر میں اجنبی اور یہاں کے ماحول کے لئے نامانوس ہے۔ ’’ یہ تو تم نے بالکل نئے طریقہ سے بہت اچھی چیز پکائی ہے‘‘، ’’بہت خوب، یہ تو اچھا طریقہ ہے‘‘ ، ’’واہ ، تمہارے گھر کا یہ طریقہ تو بہت ہی خوب ہے‘‘۔ اگر بہو کے مختلف طور طریقوں کے سلسلہ میں یہ اپروچ آپ اختیار کریں تو وہ خود کو گھر کی اہم رکن تصور کرے گی۔ اپنی اچھی چیزوں سے آپ کے گھر کو مالا مال کرے گی اور آپ کے گھر کے رواج بھی سیکھے گی اور اپنائے گی۔اگر آپ دلہن کی مکمل شخصیت کا، اس کے مزاج کی تمام خصوصیات کے ساتھ استقبال کرنے کے لئے خود کو تیار کرلیں اور اس کی ان تمام باتوں کو خوشدلی سے قبول کرلیں جو شریعت یا اخلاق کے اصولوں کے لحاظ سے غلط نہ ہوں، تو ان شاء اللہ تنازعات کے زیادہ تر امکانات ختم ہوجائیں گے۔
آپ کا بیٹا
اب آپ کا بیٹا صرف بیٹا نہیں رہا، اپنی بیوی کا شوہر بھی ہے اور ان دونوں کی اپنی فیملی بھی ہے۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے۔
اکثرمائیں اپنی بہو کا استقبال کرتے ہوئے یہ بھول جاتی ہیں کہ وہ اپنے بیٹے کی دلہن کا استقبال کررہی ہیں۔ یہ لڑکی اب آپ کے بیٹے کی زندگی کا اہم حصہ بلکہ اس کی نصف بہتر بن گئی ہے۔ وہ آپ کے بیٹے کا لباس اور اس کے لئے وجہ سکون بننے والی ہے۔، ویسے ہی جیسے کبھی آپ اپنے شوہر کی زندگی میں داخل ہوئی تھیں۔ ابھی تک آپ کے بیٹے کی شخصیت پوری طرح آپ کے ساتھ وابستہ تھی، ا ب اس کی زندگی میں اس کی دلہن آئی ہے جو اس کے وقت کا بھی حصہ لے گی اور اس کی دلچسپیوں کا بھی۔ یہ دونوں مل کر اپنا ایک خاندان بنائیں گے۔ اس جوڑے کو بہت سارا تنہائی کا وقت بھی درکار ہوگا۔ ان کے بہت سے راز بھی ہوں گے۔ بہت سے فیصلے یہ دونوں مل کر کریں گے۔ سمجھ دار ساس ، اپنے بیٹے اور بہو کی ان ضرورتوں کو سمجھتی ہے۔ وہ اس بات کے لئے ذہنی اور جذباتی طورپر تیار رہتی ہے کہ اب اس کا بیٹے کے ساتھ تعلقات کا ایک نیا دور شروع ہورہا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ بیٹے کے ساتھ تعلق کمزور ہورہا ہے، مطلب صرف یہ ہے کہ اس کی نوعیت بدل گئی ہے۔ آپ کا بیٹا جب آپ کے پیٹ میں تھا تو تعلق کی نوعیت کچھ اور تھی، جب دودھ پینے لگا تو نوعیت کچھ اور ہوگئی، اسی طرح بچپن، لڑکپن، جوانی ہر مرحلہ کی نوعیت الگ تھی۔ ہر مرحلہ کے تقاضے الگ تھے۔ بالکل اسی طرح اب وہ شوہر بن گیا ہے تو تعلق کی نوعیت میں کچھ تبدیلی آئے گی۔ اس بدلے ہوئے تعلق کو سمجھے بغیر آپ اس کا حق ادا نہیں کرسکتیں۔اچھی اور سمجھ دار ماں اپنے بیٹے اور بہو کو آزادی دیتی ہے۔ غیر ضروری مشورے نہیں دیتی۔ ان کی ہر بات میں ٹانگ اڑانے کی کوشش نہیں کرتی۔ ان کی باہم ہونے والی بات چیت کی سن گن لینے کی کوشش نہیں کرتی نہ ان کے ذاتی اوقات میں گھسنے کی کوشش کرتی ہے۔
جب پوتے پوتیاں پیدا ہوں تو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ آپ کے بیٹے اور بہو کو ان کی تربیت و تعلیم سے متعلق ضروری فیصلے کرنے کا حق حاصل ہے۔ انہیں مفید مشورے ضرور دیجئے اوران کی رہنمائی بھی کیجئے۔ لیکن ان کا یہ حق بھی تسلیم کیجئے کہ اپنے بچوں کے بارے میں وہ فیصلے کرسکیں۔
ریپو بلڈنگ Rapport Building
اپنی بہو کو اپنا دوست اور محبوب بنایئے۔ ناتجربہ کا ر کم عمر لڑکی کے مقابلہ میں آپ اس کی زیادہ صلاحیت رکھتی ہیں کہ اس کا دل جیت کر اسے اپنا بہترین دوست بنائیں۔دوستی یا ریپو، اشتراک سے پیدا ہوتا اور ترقی کرتا ہے۔ اپنے اور اپنی بہو کے درمیان مشترک امور تلاش کیجئے۔ ہوسکتا ہے کچھ مشاغل مشترک ہوں۔ اسے بھی شجر کاری کا شوق ہو اور آپ کو بھی۔ ہوسکتا ہے دونوں کے پسندیدہ مصنّفین مشترک ہوں گی۔رنگوں کی پسند ایک جیسی ہو۔کسی خاص مقرر کی تقریریں پسند ہوں۔ تلاش کریں گی تو ایسی کئی چیزیں ملیں گی جو آپ کے اور بہو کے درمیان مشترک ہیں۔ تعلقات انہی مشترک چیزوں سے مستحکم ہوتے ہیں۔ جن امور میں اختلاف ہے ان میں تنوع اور ایک دوسرے کی پسند کا احترام اور جو امور مشترک ہیں ان کو مل جل کر انجام دینا، اور ان کے ذریعہ رشتہ کو مستحکم بنانا، یہی اچھے تعلقات کا کارگر فارمولہ ہے۔ جب دلچسپیوں کا اشتراک معلوم ہوجائے تو اسے ایک دوسرے سے جڑنے کی بنیاد بنا لیجئے۔ مل جل کر شجر کاری کیجئے۔ پسندیدہ مصنف کی تازہ تصنیف پر تبادلہ خیال کیجئے۔ تقریر مل کر سنیئے اور اس پر گفتگو کیجئے۔
تعریف و دلجوئی
شادی ایک لڑکی کے لئے بہت چیلنجنگ اور جذباتی مرحلہ ہوتا ہے۔ جہاں وہ زندگی کی سب سے بڑی مسرت سے ہم کنار ہوتی ہے وہیں ، ماں باپ، بھائی بہن، گھر بار، رشتہ دار احباب اور اپنی زندگی کے تمام اثاثوں کو چھوڑ کر آپ کے گھر چلی آتی ہے۔ایک اجنبی گھر میں ، اجنبی شریک زندگی کے ساتھ زندگی کا نیا سفر شروع کرتے ہوئے اسے بہت سے خدشات اور اندیشے بھی لاحق ہوتے ہیں۔ آپ کو سمجھنا چاہیے کہ ماں باپ اور بھائی بہنوں کے لاڈ پیار میں پلی بڑھی یہ معصوم سی لڑکی اپنی زندگی کے نہایت اہم جذباتی مرحلہ سے گذررہی ہے۔ اس مرحلہ میں اس سے غلطیوں کا صدور بھی ممکن ہے اور اس کو بھرپور جذباتی سہارے اور دلجوئی کی ضرورت ہے۔ یہ کام آپ ہی کرسکتی ہیں۔
اس کو بھرپور محبت دیجئے۔ دل کھول کر تعریف کیجئے۔ اس کی تمام اچھی عادتوں کی بھرپور ستائش کیجئے۔ کھانا پکائے تو کھانے کی تعریف کیجئے۔گھر کی سجاوٹ کرے تو اس کی تصویریں شیر کیجئے۔ اس کے علاوہ اس کے شوہر کے سامنے، ماں باپ کے سامنے، اپنی بیٹیوں اور دوسری بہوؤں کے سامنے بھی اس کی اچھی عادتوں کے گن گایئے (لیکن دوسری بہوئوں کی بھی تعریف کرنا مت بھولئے) ۔ آدمی اپنے علاوہ، اپنے چاہنے والوں کی بھی قدر چاہتا ہے۔ اس کے ماں باپ، بھائی بہنوں کا اچھے الفاظ میں تذکرہ کیجئے۔ ان کو بھر پورا حترام، عزت اور محبت دیجئے۔ ان کی اچھی باتوں کی ستائش کیجئے۔ .اس جذباتی مرحلہ میں آپ کا یہ حسن سلوک اس کے معصوم دل پر ہمیشہ کے لئے نقش ہوجائے گا۔ پھر وہ بھی آپ کو ٹوٹ کر چاہنے لگے گی۔
اصلاح و تربیت
بے شک آپ خاندان کی بزرگ ہیں۔ بہو میں کچھ کمزوریاں ہیں تو ان کی اصلاح آپ کی ذمہ داری ہے۔ بہو کو اپنے خاندان کے طور طریقوں سے بھی آپ واقف کرانا چاہتی ہیں، اس میں بھی کوئی بری بات نہیں ہے۔ لیکن ان مقاصد کو حاصل کرتے ہوئے احتیاط سے کام لینا اور نفسیات کے اصولوں کا لحاظ رکھنا ضروری ہے، خصوصا اس وجہ سے کہ یہ رشتہ بہت نازک بھی ہے اور بہت بدنام بھی۔ اچھی نیت کے ساتھ کیا گیا آپ کا اقدام بھی کبھی بہت مہلک نتائج پیدا کرسکتا ہے۔ اصلاح کا عمل تدریج کے ساتھ ہی ہوسکتا ہے، اس میں گڑ بڑ اور جلد بازی نہیں کرنی چاہیے۔ آپ کی بہو ایک بالغ انسان ہے۔ ہوسکتا ہے آپ سے زیادہ تعلیم یافتہ بھی ہو۔ ہمارے معاشرہ نے اس کے معصوم ذہن میں ساس کی ایک ظالم امیج بھی بنا رکھی ہے۔ وہ اپنے خاندان اور خاندان کی روایتوں وغیرہ کو لے کر حساس بھی ہے۔ سمجھدار ساس اصلاح کا کام کرتے ہوئے ان سب باتوں کا لحاظ رکھتی ہے۔ اصلاح کا کام تدریج کے ساتھ مناسب موقع ومحل کا لحاظ رکھتے ہوئے نرمی و شفقت سے بات چیت کرتے ہوئے ہوتا ہے۔ طنز و تشنیع اور بالواسطہ باتیں، غیر ضروری طور پر بہو کے ماں باپ یا خاندان کے تذکرے وغیرہ سے اصلاح نہیں ہوتی، صرف تعلقات خراب ہوتے ہیں۔ میرے پاس جو کیس آتے ہیں ان کی بنیاد پر میں کہہ سکتی ہوں کہ ساس بہو کے تعلقات کی خرابی میں اسی فیصد رول غیر ضروری طنزیہ باتوں کا ہوتا ہے۔ اسی طرح کوشش کیجئے کہ اپنی بہو کی شکایت کبھی بیٹے سے نہ کریں۔ اس سے اس مثلث کے تینوں اجزا کے ایک دوسرے سے تعلقات خراب ہونے کا اندیشہ پیدا ہوتا ہے۔ یہ آپ کی بہو اور آپ کی بیٹی ہے۔ اس سے مناسب موقع دیکھ کر اور مناسب زبان اور لہجہ کا استعمال کرتے ہوئے راست بات کیجئے۔
باتیں تو اور بھی بہت ہوسکتی ہیں۔ لیکن ان پانچ باتوں پر بھی ہم توجہ دے سکیں تو ان شاء اللہ ہمارے گھر ضرور جنت کا نمونہ بنیں گے۔lll
email:coachnazneen@innerpeacelife.com
website:www.innerpeacelife.com