یہ قصہ لیلیٰ مجنوں یا شیریں فرہاد کے دور کا نہیں ہے، آج کے زمانے کا ہے، جسے ترقی یافتہ دور کہا جاتا ہے جس میں ایک ماں کی ممتا ممی کی لفظی محبت میں تبدیل (convert)نہیں ہوئی تھی۔قصہ سنیے:
ایک تھا لڑکا، ایک تھی لڑکی۔ لڑکی کی عمر تقریباً پچیس تیس برس، مگر لگتی تھی وہ پینتیس چالیس سال کی۔ اس کے رخساروں پر سیب کے چھلکوں کی طرح سرخی نہیں تھی۔ بال بھی ریشم کی طرح ملائم نہیں تھے۔ وٹامن سی اور ڈی کی گولیاں کھانے کے بعد بھی روکھے کے روکھے رہے اور چہرے پر کیلوں اور مہاسوں کے نشانات مختلف قسم کے کریم لگانے پر بھی قائم تھے۔
لڑکا بھی کوئی بانکا جوان نہیں دکھائی دیتا تھا۔ آنکھوں کے گرد پڑی جھریاں اور ہونٹوں کے قریب ناک کے نتھنوں سے ٹھوڑی تک اتری لکیریں، چہرے کا روکھا پن دیکھ کر لڑکا بھی پچیس، تیس برس کا جوان نہیں لگتا تھا۔
بہ ہرحال دونوں اپنے اپنے چہروں کو پرکشش بنانے کے لیے ’’بیوٹی پارلر‘‘ جاتے اور فل میک اپ کروا کر جب نکلتے تو لڑکی اٹھارہ برس کی نوخیز حسینہ لگتی اور لڑکا بیس سال کا بانکا جوان اور دونوں الگ الگ بیوٹی پارلرمیں جاتے تھے۔ ایک دن دونوں میں عشق ہوگیا، کب اور کیسے ہوا۔ اس کی ہم نے تحقیق نہیں کی کیوں کہ ہم جو بات آپ کو بتانے جارہے ہیں اس کے لیے اُن کے عشق کی تحقیقی رپورٹ بتانا غیر ضروری ہے۔ ویسے آج کی ماڈرن فیملی کے بچے بھی یہ بہ خوبی جانتے اور سمجھتے ہیں کہ عشق کیسا ہوتا ہے یا کیسے کیا جاتا ہے۔ پہلے یہ فلموں کے ذریعہ سمجھایا جاتا تھا اب یہ ٹریننگ اسمارٹ فون کے استعمال سے بھی با آسانی مل جاتی ہے۔ بہ ہرکیف ہم ان کے عشق کی شدت بتانے جارہے ہیں جو ان خیالوں ہی میں نہیں، خوابوں میں بھی تھی۔
خواب میں لڑکا اپنی معشوقہ سے بیاہ رچا لیتا ہے اور کبھی معشوقہ کے باپ کو چکما دے کر اسے بھگا لے جاتا ہے۔ لڑکی بھی خواب میںاس کی دلہن بن کرسسرال پہنچ جاتی ہے۔ رانی بن کر وہا ںحکومت کرنے لگتی ہے اور ساس اس کی خادمہ بن جاتی ہے۔
اس طرح کے خواب دیکھتے ہوئے عاشق و معشوق کی راتیں گزرتیں۔ دن میں جب بھی وہ ملتے تو ایک مخصوص جگہ جاکر بیٹھ جاتے جو عشق ہوتے ہی انھوں نے کھوج نکالی تھی۔ وہ جگہ دور افق کے پار نہیں تھی جہاں رومانی افسانوں کے عاشق و معشوق اور پرانی فلموں کے محبوب اور محبوبہ سماج کے ظلم و ستم سے مجبور ہوکر ایک دوسرے کو چلنے کا کہتے ہیں۔ خیر جو جگہ انھوں نے کھوجی تھی وہ پارک کا ایک گوشہ تھا جو مہندی کی گھنی باڑھ سے گھرا ہوا تھا۔
ایک دن حسبِ معمول دونوں ایک دوسرے سے ملے۔ اس دن موسم ابر آلود تھا۔ دونوں بیوٹی پارلر سے سج دھج کر نکلے تھے کہ یکلخت ٹھنڈی ہواؤں کے ساتھ دھواں دھار بارش شروع ہوگئی۔ عاشق حیرت سے اپنی معشوق کو دیکھنے لگا اور معشوقہ بھی متحیر نگاہوں سے اپنے عاشق کا جائزہ لینے لگی۔
کچھ دیر دونوں نے ایک دوسرے کو نگاہوں سے ٹٹولا پھر معشوقہ استہزائیہ لہجے میں بولی: ’’ارتے تم! بوڑھے لگ رہے ہو —— بوڑھے! تمہارے چہرے پر کتنی جھریاں ہیں!‘‘ معشوقہ لبوں پر ہاتھ رکھ کر ہنسنے لگی۔ عاشق کی تیوری پر چند لمحوں کے لیے بل پڑگئے پھر وہ بھی ٹھٹا مار کر بولا : ’’تم بھی اپنا چہرہ ذرا آئینہ میں دیکھو، مہاسوں اور کیلوں سے ایسا بھرا ہوا ہے کہ شریفہ لگ رہا ہے۔ رخسار باسی آلو کی طرح دکھائی دے رہے ہیں۔‘‘
’’بس، بس، رہنے دو!‘؟‘ معشوقہ روٹھ گئی۔
عاشق سٹپٹا گیا: ’’ارے میری محبوبہ! میری جان سے پیاری! تم ناراض ہوگئیں، میں تو مذاق کررہا تھا۔ میں تم سے پیا رکرتا ہوں، تمہارے چہرے سے نہیں۔‘‘
’’سچا پیار کرتے ہو؟‘‘ معشوقہ کا لہجہ استفہامیہ تھا۔
’’ہاں ——!‘‘ عاشق نے بہ آواز بلند اقرار کیا۔
’’معشوقہ کچھ سوچ کر بولی: ’’میں تم سے جو کہوں گی وہ کروگے۔‘‘
’’حکم تو دیجیے سرکار! میں آپ کے لیے آسمان سے چاند ستارے توڑ لے آؤں !‘‘
’’اونہہ، یہ ڈائیلاگ کافی گھسا پٹا ہوگیا ہے، جیسے نیتاؤں کی جھوٹی باتیں۔ خیر مجھے آسمان کے چاند ستارے نہیں چاہئیں، بے چارہ آسمان بے رونق ہوجائے گا۔ دنیا میں بس وہی تو ایک سجا سنورا بچا ہے۔ جسے ابھی تک اجاڑا نہیں گیا۔ مجھے تو تمہاری ممی کا دل چاہیے۔‘‘
’’بس، اتنی سی بات ——، ابھی لے آتا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر عاشق بڑی عجلت سے پارک کے باہر آیا اور تیز تیز قدموں سے گھر کی طرف چل پڑا۔
چلتے چلتے وہ اپنی ماں کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ میری ممی بوڑھی ہوچکی ہیں، آئے دن بیمار رہتی ہیں۔ ذرا سردی بڑھی کے زکام ہوگیا، بارش کا موسم آیا اور کھانسی کا دورہ پڑگیا۔ گرمیوں میں بخار، کبھی گھبراہٹ، کبھی چکر آنا، ہر وقت بس کراہتی ہی رہتی ہیں۔
’’خدایا! میرے بیٹے کی شادی کے بعد مجھے موت دے دے میں اپنی زندگی سے عاجز آچکی ہوں۔‘‘
سوچتے سوچتے اس کے کانوںمیں ماں کی آواز گونجی ’’ہاں! میری ممی سچ کہتی ہیں، یہ جینابھی کوئی جینا ہوا۔ آئے دن بیماریوں کا حملہ … کراہنا …. اوں، ہونہہ! میں اب اپنی ممی کو ایسی اذیت دہ زندگی نہیں جینے دوں گا۔ ویسے بھی وہ بہت جی چکی ہیں۔ڈیڈی تو پچھلے سال پینسٹھ سال کی عمر میں ہی میری شادی کی تمنا لیے اللہ کو پیارے ہوگئے تھے۔ ایک میری ممی ہیں اللہ کو ان پر ابھی تک پیا رنہیں آیا۔ خیر مجھے تو اپنی ممی سے پیار ہے۔ میں اُن کے جسم سے دل نکال کر انہیں اس کراہتی زندگی سے نجات دوں گا۔ ممی کو اذیت ناک زندگی سے چھٹکارا مل جائے گا اور میری جان سے پیاری محبوبہ سے کیا وعدہ بھی پورا ہوجائے گا۔ یہی نہیں میری ممی کی عظیم ترین خواہش بھی پوری ہوجائے گی جو یہ تھی کہ میں شادی شدہ ہوجاؤں۔
یہ سوچتے ہوئے جیسے ہی وہ گھر پہنچا، ماں کو بستر پر چت سوتا پایا۔
’’ارے واہ!‘‘ اس کی باچھیں کھل گئیں، ’’میری پیاری ممی سوئی بھی اسی اسٹائل میں ہے کہ ایک ہی وار میں سینہ چاک کیا جاسکتا ہے!‘‘
خوش ہوکر وہ فوراً باورچی خانے میں گھسا اور چھری لے آیا اور پھر مشاق سرجن کی طرح ماں کا سینہ چاک کرکے بغیر وقت ضائع کیے پسلیوں کے پنجرے سے ماں کا دھڑکتا دل نکال لیا۔
اب وہ امپورٹیڈ بیگ لیے تیز تیز قدموں سے معشوقہ سے ملنے جارہا تھا۔ بیگ میں ماں کا دل تھا۔ چلتے چلتے اسے ٹھوکر لگی—— ماں کے دل سے آواز آئی، ’’بیٹا! ذرا سنبھل کر میری اور اپنے ڈیڈی کی خواہش کا پاس رکھو، اس طرح عجلت کرو گے تو جہیز دان سے ہاتھ دھو بیٹھو گے سمجھے.
مزید افسانے
https://hijabislami.in/9595/
https://hijabislami.in/7557/