نئی نسل کدھرجارہی ہے؟

ام فاکہہ، جدہ

ابھی کچھ دن پہلے پاکستان جانا ہوا، وہاں بازار میں خریداری کے دوران مصنوعی زیورات کی ایک دکان پر گئی جہاں کالج کی تین چار خوبصورت لڑکیاں بھی موجود تھیں۔ جو دکاندار سے ’’کشش کے جھمکے‘‘ طلب کررہی تھیں۔ دکاندار نے کشش کے جھمکے دکھائے تو ان کی قیمت باقی جھمکوں سے دگنی تھی۔ وہ جھمکے دیکھتے ہی لڑکیوں کے چہرے کھل گئے اور وہ دگنی قیمت دے کر جھمکے لے کر چلی گئیں۔

مجھے تجسس ہوا کہ یہ کشش کے جھمکے کیسے ہیں؟ شاید کوئی خاص ڈیزائن بازار میں آیا ہے۔ میں نے کہا کہ مجھے بھی کشش کے جھمکے دکھاؤ، میں نے دیکھا وہ نگوں والے سادہ سے جھمکے تھے، مگر قیمت دگنی اور مانگ زیادہ۔ میں نے دکاندار سے پوچھا کہ اس میں کوئی خاص نگ لگے ہیں، جو یہ اتنے مہنگے ہیں؟ دکاندار نے مجھے بڑے غور سے اس طرح دیکھا جیسے اس کے سامنے کوئی جاہل عورت کھڑی ہو اور پوچھ رہی ہو کہ پرویز مشرف کون ہے؟ یا بش کون ہے؟

اور بڑی حقارت سے کہا کہ لگتا ہے کہ آپ اسٹار پلس نہیں دیکھتیں۔ اس نے یہ سوال مجھ سے ایسے پوچھا جیسے کہہ رہا ہو کہ ’’لگتا ہے آپ کبھی اسکول نہیں گئیں۔‘‘

پھر خود ہی بولا اسٹار پلس پر جو ڈرامہ آتا ہے’’کہیں تو ہوگا‘‘ اس کی ہیروئن نے اسی قسم کے جھمکے پہنے تھے۔ ظاہر ہے اس کی قیمت تو دگنی ہوگی ہی۔

کسی بھی ملک کا مستقبل اس کی نوجوان نسل ہوتی ہے اسی نوجوان نسل کو میں ابھی کچھ لمحے پہلے، خوشی سے کھلکھلاتے، ہار قبول کرتے دیکھ چکی ہوں۔ اس ہار سے زیادہ افسوس مجھے اس ہار کا ہے جو ہر وہ شخص محسوس کررہا ہے جس کے دل میں دین اور اخلاقی قدروں کی رمق باقی ہے۔

چینل کوئی بھی ہو چاہے اپنے ملک کا ہو یا بدیسی۔ سبھی دین، ایمان اور اخلاقی قدروں کو ختم کرنے کابیڑا اٹھائے ہوئے ہیں اور ہمارے بچوں اور نوجوان نسل کے قدم جس راہ پر چلنے کے عادی ہوتے جارہے ہیں اس کی منزل پر نگاہ پڑتے ہی خوف سے کانپ جاتی ہوں۔ مگر غور کیا جائے تو اس میں قصور کس کا ہے؟ کون یہ میٹھا زہر ان کی نسوں میں گھول رہا ہے۔ کون انہیں یہ ماحول دے رہا ہے کہ جس میں ان کی اخلاقی قدریں ختم ہوکر رہ جائیں؟ کون ہے اس کا ذمہ دار؟ ادھر اُدھر معاشرے میں چور کو نہ ڈھونڈھ کر اپنے دل کے آئینے میں اپنی صورت دیکھیں ہم جنہیں والدین کہا جاتا ہے۔ اولاد کی پہلی درسگاہ کہلاتے ہیں کیا ہم خود اپنی اولاد کو اس دلدل میں پھینکنے کے ذمہ دار نہیں ہیں؟

پہلے ماں باپ اپنی اولاد کو کلمہ پڑھنا، بڑوں کو سلام کرنا، ان کی عزت کرنا، … اوڑھنے، اٹھنے بیٹھنے، بات چیت کرنے کا پاک اور خوبصورت انداز سکھاتے تھے۔ وہاں آج کل کے والدین اپنے بچوں کو الٹے سیدھے گانوں پر تھرکتا دیکھ کر فخر محسوس کرتے ہیں۔

مائیں بچیوں کو بچپن میں ایسے لباس پہناتی ہیں جن کو دیکھ کر ہی شرم محسوس ہوتی ہے۔ والدین اپنے بچوں کے ساتھ بیٹھ کر ٹی وی کے وہ واہیات پروگرام دیکھتے ہیں جنہیں شاید ہمارے بزرگ اکیلے دیکھنے میں بھی شرم محسوس کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ رشتوںکے بیچ جو حیا،شرم اور پاکیزگی تھی وہ ختم ہوتی جارہی ہے۔ والدین نے خود حیا اور شرم کا پردہ پھاڑ دیا ہے، تو بچے کسے عزت دیں جنہیں وہ خود دن رات ٹی وی کے سامنے بیٹھے یافضول محفلوں میں اخلاق سے گری ہوئی باتیں کرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ بڑے ہوکر جب یہی نسل ہمیں آؤٹ ڈیٹڈ اور تنگ نظر قرار دے گی تو ہمیں معلوم ہوگا کہ ہم نے ان کی کیا تربیت کی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ ہمارے بڑھاپے کے وقت وہ ہمیں ’’اولڈ ایج ہوم‘‘ میں پہنچا کر اولاد ہونے کا حق ادا کردیں اور ہمیں بڑھاپے کے ایام اولڈ ایج ہوم میں گزارنے پڑیں۔

حالات تیزی سے اسی سمت جارہے ہیں اور ہماری نئی نسل بھی اسی طرف بگ ٹٹ دوڑی جارہی ہے اور ہم ہیں کہ یا توتماشائی بنے ہوئے ہیں، یا اسی کو کامیاب زندگی کی راہ تصور کرتے ہوئے فخر سے گردن ٹیڑھی کیے ہوئے ہیں۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں