اگر ایک باغبان اپنی تمام صلاحیتیں صرف کرکے بیج بوئے، کچھ عرصے میں پودے اور ان میں کلیاں آجائیں تو آپ اس کی خوشی کا اندازہ کرسکتے ہیں۔ لیکن جب کلیاں کھلنے کو تیار ہوں اور وہ خاردار جھاڑیوں کا جھنڈ لے کر آئے اور ان کلیوں کی حفاظت کی نیت سے ان پر ڈال دے تو کیا خاک حفاظت ہوگی، ہاں اتنا ضرور ہوگا کہ کئی کلیاں پھول بننے سے پہلے ہی کانٹوں کی نذر ہوجائیں گی۔
کچھ ایسا ہی حال ہم آنگن میں کھیلنے والے ننھے منے پھولوں کا بھی کرتے ہیں۔ بچے کسی قوم کا وہ سرمایہ ہوتے ہیں جن کو آپ جس رخ پر موڑنا چاہیں اور جو دینا چاہیں، مثلِ آئینہ وہ آپ کو وہی کچھ لوٹائیں گے۔ یہ کچے ذہن اس پنسل کے نشان کی طرح سب کچھ اپنے حافظے میں منتقل کرتے جاتے ہیں جس کو ربر سے مٹا بھی دیا جائے تو نقش باقی رہ جاتی ہے۔
اب ذرا دیکھیں کہ ہم انفرادی طور پر یا بحیثیت قوم کون سے نقوش اپنے بچوں کے ذہنوں میں ڈال رہے ہیں۔ ایک ماں جو کردار سازی کا کام کرتی ہے، جس سے بڑے بڑے فلسفی، مفکر، ڈاکٹر، سائنسداں، بڑے بڑے فقہا اور مجاہدین جنم لیتے نظر آتے تھے، اب وہ نام کسی بڑے انقلاب کا پروانہ نہیں دیتے۔ وجہ نہایت مختصر ہے کہ ماں نے خود اپنے کردار کو فراموش کردیا۔ زمین خود کو پھاڑ کر پودے کو جنم دیتی ہے تو اپنی ساری توانائیاں اس کی آبیاری میں صرف کردیتی ہے۔ لیکن آج کی عورت ماں بننے کے بعد بھی اپنی معراج کو نہ جان سکی، بلکہ کچے اذہان کو الیکٹرانک میڈیا کا تحفہ دے کر سمجھنے لگی کہ وہ اپنے فرض سے سبکدوش ہوگئی ہے۔
آج سے چند سال پہلے جب ایک ماں خوداپنے بچوں کو لے کر بیٹھتی تھی، اٹھتے بیٹھتے اپنی روایات، اپنی اقدار، بزرگوں کا احترام، اسلامی اصول، تعلیمی ضروریات کو ان کے اندر قطرہ قطرہ انڈیلتی تھی تو بڑے ہونے پر وہی بچے سمجھدار اور باشعور نوجوانوں کا روپ دھارتے تھے۔ اور ایسے ہی بچے محمد بن قاسم، ٹیپو سلطان، امام شافعی، امام بخاری جیسے مردِ جلیل بن کر معاشرے کا رخ بدل دیتے تھے۔ یہی بچے پلٹ کر اپنے والدین کو احترام، مروت، خودداری اور اقدار کا پاس جیسے انمول تحفے دیتے تھے۔ ماں کے سائے میں ہر دم رہنے والے یہ ننھے ذہن جو شعور اپناتے تھے وہ آج کے معاشرے میں عنقا ہے۔ ایک اور پہلو یہ ہے کہ آج کے بزرگ اور والدین یہ شکایت کرتے نظر آتے ہیں کہ نوجوان نسل وہ سب کچھ نہیں کرسکی جو ہم نے کیا۔ خود غرضی، بے مروتی، بے ادبی ان کا وطیرہ ہے۔ جبکہ ان کے بارے میں یہ پروپیگنڈہ انتہائی غلط ہے۔ جو بچہ ماں کے سائے میں پلنے کے بجائے دن رات کمپیوٹر، ٹی وی، موبائل وغیرہ کے تحت رہتا ہو وہ اسلامی تعلیمات، روایات اور اقدار کو کبھی نہیں جان سکتا۔
جس بچے کو شروع سے تعلیم کا مقصد ہائی فائی اسٹیٹس، گاڑی، گھر وغیرہ سمجھایا جائے اور معاشرے سے کٹ کر رہنے کو پروفیشنل ازم کا نام دیا جائے، اس سے یہ توقع رکھنا یقینا غلط ہے کہ وہ سمجھدار نوجوان بن کر نکلے گا۔کسی نے کہا تھا: تم مجھے ایک اچھی ماں دو، میں تمھیں اچھی قوم دوں گا۔‘‘
ضرورت اس امر کی ہے کہ ماں کا کردار ایک دفعہ پھر بدلا جائے، سائنسی ایجادات کو استعمال تو کیا جائے، لیکن بچے کو ان کے حوالے نہ کیا جائے۔ معاشرے میں مادیت پرستی، خود پسندی اورخود غرضی کے جرثوموں کو ختم کرکے اسلامی روایات کو پروان چڑھایا جائے۔ ایجادات ہماری مدد تو کرسکتی ہیں، لیکن ذہن سازی کا کام صرف اور صرف ہمارا ہے، اور ایک باشعور ماں ہی باشعور معاشرے کو پروان چڑھا سکتی ہے۔
——