آج موسم بہت ہی خوشگوار تھا۔ ہلکی ہلکی ہوائیں چل رہی تھیں۔ لگتا ہے ہلکی بوندا باندی ہونے والی ہے۔ آمنہ نے کھڑکی کے پردے سرکاتے ہوئے سوچا اور باہر کی تازہ ہوا کو اپنے اندر تک اتارا۔
وہ اپنے ذہن میں کام ترتیب دے رہی تھی کہ ایسا کرتی ہوں سب سے پہلے تمام گھر کی صفائی کرلیتی ہوں۔ پھر صحن کو دھوؤں گی آخر میں۔ اللہ کرے آج عمر جلدی آجائیں تو چائے ساتھ مل کر پئیں گے صحن میں بیٹھ کر۔ موسم کا مزہ بھی آئے گا۔ میں نے سب کام اپنے ذہن میں ترتیب دیے اور کام شروع کیا۔ بسم اللہ کہہ کر۔
چھوٹا بیٹا ابھی سو رہا تھا۔ اس کے جاگنے تک تو میں اپنے کام انشاء اللہ مکمل کرلوں گی۔ میں نے جلدی جلدی بیسن بھگویا یہ سوچ کر کہ چائے کے ساتھ تھوڑے پکوڑے بھی تل لوں گی ۔
آمنہ اور عمر کی شادی کو ۵؍سال کا عرصہ ہوچکا تھا۔ ساس سسر کا انتقال ہوچکا تھا۔ ایک ہی بھائی تھے اور وہ دوسرے شہر میں تھے۔ دونوں کا تعلق متوسط خاندان سے تھا۔ عمر کی ملازمت بھی بہتر ہی تھی۔ دونوں ہی میں قناعت پسندی تھی اس لیے گزارا اچھے سے ہورہا تھا۔ خاص طور سے عمر کا مزاج بہت نرم اور قناعت پسند تھا۔ دونوں میں ذہنی مطابقت بھی ماشاء اللہ بہت تھی۔ ایک بیٹا اور بیٹی تھے۔ بیٹی اسکول جاتی تھی اور بیٹا ابھی دو سال کا تھا۔ گھر بھی سادہ سا تھا۔چھوٹا سا صحن بھی تھا جو آمنہ کو بہت پسند تھا۔ اس نے اپنے پسندیدہ پھولوں کے گملے وہاں لگائے ہوئے تھے اس لیے اس صحن کی خوبصورتی میں مزید اضافہ ہوگیا تھا۔ دونوں کی قناعت پسندی نے ان کے گھر کو جنت کا نمونہ بنادیا تھا۔ آمنہ نے وقت دیکھا۔ اُف پانچ بج چکے ہیں۔ جلدی سے اپنا حلیہ ٹھیک کرلوں ورنہ عمر کہیں گے یہ کونسی ماسی گھر میں کام کے لیے آئی ہے۔ اس نے کپڑے تبدیل کیے اور مطمئن ہوگئی۔ مریم کے اسکول سے آنے کا وقت ہوچکا تھا۔ السلام علیکم امی! اس نے سلام کا جواب دیا اور پوچھا کہ آج کا دن کلاس میں کیسے گزرا۔ مریم نے جواب دیا : امی آج مجھے کلاس میں چاکلیٹ گفٹ ملا ہے کیونکہ میں نے سب سے اچھا ٹیسٹ کیا تھا۔ ماشاء اللہ ہماری بیٹی بہت ذہین ہے۔ چلو اب جلدی سے منھ ہاتھ دھوکر فریش ہوجاؤ اور کپڑے تبدیل کرلو۔ آپ کے بابا آنے والے ہیں۔ جی امی۔
گھر کے باہر سے کافی آوازیں آرہی تھیں۔ آمنہ نے سوچا، لگتا ہے کوئی نئے پڑوسی آئے ہیں۔ ان کے گھر کے برابر ہی کسی نے بہت شاندار ڈبل اسٹوری مکان بنوایا تھا۔ پہلے وہاں کوئی فیملی نہیں تھی۔ جن کا بھی گھر تھا وہ لوگ صرف کبھی کبھار سیروتفریح کے لیے وہاں آکر ٹھہرتے اور پھر چلے جاتے۔ لگتا ہے اب کوئی مستقل رہنے کے لیے آیاہے۔ آمنہ نے دل میں سوچا۔ چلو اچھا ہے مجھے پڑوسی مل جائیں گے تو آنا جانا لگا رہے گا۔ اس نے چائے کپ میں نکالی اور پلیٹ میں پکوڑے رکھے، اتنے میں ہی عمر کی آواز آئی۔ السلام علیکم۔ واہ بھائی، آج تو بہت اہتمام ہوا ہے چائے کا۔ عمر نے کچن میں داخل ہوتے ہوئے کہا۔ جی ہاں آج موسم اتنا اچھا تھا۔ میں نے سوچا چائے کے ساتھ کچھ اور بھی بنالیا جائے۔ اور دعا بھی کی تھی کہ آپ جلدی آجائیں۔ آئیے جلدی ورنہ چائے ٹھنڈی ہوجائے گی آمنہ نے کہا۔ صحن میں ہی دری بچھا کر اس نے تمام چیزیں وہاں رکھ دیں۔ عمر نے چائے کے دوران کہا کوئی فیملی شفٹ ہورہی ہے یہاں۔ سامان رکھا جارہا ہے۔ ’’چلو اچھا ہے مجھے بھی ساتھ مل جائے گا۔‘‘ آمنہ نے کہا۔ اللہ کرے اچھے پڑوسی ہوں، عمر نے دعا کی۔
دوسرے دن آمنہ نے جلدی جلدی گھر کی چیزیں سمیٹیں، عمر آفس جاچکے تھے، مریم بھی اسکول چلی گئی تھی۔اس نے اچھا سا ناشتہ بنایا اور ٹرے میں سیٹ کرکے پڑوس میں جانے کے لیے تیار ہونے لگی۔ رنگ کرنے پر دروازہ اس کی ہی ایک ہم عمر خاتون نے کھولا۔ مریم نے خوش دلی سے سلام کیا۔ خاتون نے اندر آنے کے لیے کہا تو وہ اندر داخل ہوئی۔ آج پہلی دفعہ اس نے اس گھر کو دیکھا تھا۔ بہت ہی اسٹائلش اور خوبصورت گھر تھا۔ اس نے ایک طائرانہ نگاہ کمرے پر ڈالی اور اس خاتون کی طرف متوجہ ہوئی جو غالباً ٹرے کچن میں رکھ کر واپس آگئی تھی۔ دونوں نے آپس میں ایک دوسرے کا تعارف کرایا۔ پڑوسن کا نام صبا تھا۔ ان کے بھی دو بچے تھے ، دونوں بیٹے ہی تھے۔ صبا کے شوہر انکم ٹیکس آفس میں کام کرتے تھے۔ آمنہ نے سوچا پہلے دن زیادہ دیر بیٹھنا مناسب نہیں۔ اس نے نکلتے ہوئے اپنے گھر آنے کی دعوت دی اورکہا کسی بھی چیز کی ضرورت ہو تو بلا جھجھک بتائیں۔ صبا نے اس کا شکریہ ادا کیا اور کہا آپ نے ویسے ہی بہت تکلیف کی۔ پھر بھی اگر کسی چیز کی ضرورت ہوئی تو آپ سے ہی کہوں گی۔ آمنہ نے عمر کے آنے کے بعد، پڑوس میں جانے کی روداد سنائی۔ کافی خوش اخلاق خاتون لگی مجھے تو۔ اس نے عمر سے کہا۔ چلو اچھا ہے لیکن پھر بھی احتیاط سے دوستی کرنا ورنہ تم بہت سیدھی ہو کوئی بھی تمہیں بے وقوف بناسکتا ہے۔ عمر نے شرارت سے آمنہ کی طرف دیکھ کر کہا۔ آپ کو تو میری ذہانت پر کبھی یقین ہی نہیں آئے گا۔ آمنہ نے مصنوعی ناراضگی سے کہا۔ ذہانت ہو تو یقین کریں نا بھئی ہم۔ جب ہو ہی نا تو کس طرح یقین کریں۔ عمر نے اسے مزید چھیڑا۔ آمنہ حقیقت میں برا مان گئی۔ اسی طرح دونوں میں ہلکی پھلکی بات چلتی رہتی لیکن دونوں ہی کبھی ایک دوسرے سے زیادہ دیر ناراض نہیں ہوتے تھے۔
ایک ہفتہ گزر چکا تھا۔ آمنہ کی صبا سے ملاقات نہیں ہوئی۔آج اس نے گھر کے کام نبٹائے تاکہ ملنے جاسکے۔ صبا کے گھر گئی تو وہ اپنے ارد گرد کپڑے پھیلائے بیٹھی تھی۔ آؤ آمنہ آج میں تمہیں بلانے ہی والی تھی۔ اصل میں شاپنگ میں مصروف تھی اس لیے تم سے ملنے نہ آسکی۔ وہ تفصیل بتانے لگی یہ چیز میں نے فلاں مارکیٹ اور فلاں شاپ سے خریدی ہے۔ یہ جاپان کا ہے اور اس کی قیمت اتنی ہے۔ تفصیل بتاتے بتاتے اس نے آمنہ سے پوچھا تمہیں اس میں کون سا ڈریس پسند آرہا ہے۔ آمنہ نے تمام ڈریسز پر نظر ڈالی۔ اور کہا ویسے تو سبھی ماشا ء اللہ بہت اچھے ہیں لیکن یہ میرون کلر سب سے اچھا ہے۔ آمنہ کو چونکہ یہ کلر پسند تھا اس لیے اسے وہ ڈریس زیادہ پسند آیا۔ صبا نے فوراً کہا تو پھر ٹھیک ہے یہ ڈریس تم اپنے لیے رکھ لو۔ آمنہ بدک گئی اور قطعیت سے کہنے لگی۔ نہیں نہیں! مجھے نہیں لینا ہے۔ یہ تم پر ہی زیادہ سوٹ کرے گا۔ تمہارا رنگ فیئر ہے اس لیے۔ پلیز آمنہ تکلف نہ کرو۔ میں نے ایک ڈریس تمہارے لیے ہی خریدا تھا۔ کیا پڑوسی کا حق پڑوسی پر نہیں ہوتا۔ آمنہ نے نہ چاہتے ہوئے بھی، صبا کے اصرار پر وہ ڈریس رکھ لیا جو کہ بہت قیمتی تھا۔ صبا نے کہا: تم کلر کے بارے میں کامپلیکس کا شکار کیوں ہو؟ تمہارے چہرے پرتو زیادہ کشش ہے۔ تم اگر میرے ساتھ پارلر چلو تو مزید نکھر جاؤ گی۔ آمنہ نے جواب دیا۔ میں ایسے ہی ٹھیک ہوں۔ پہلے تو آمنہ صبا کی باتوں پر انکار کرتی رہی لیکن پھر دھیرے دھیرے ایسا ہونے لگا کہ جو صبا کہتی آمنہ مانتی چلی جاتی۔ آمنہ بھی صبا کے مزاج سے غیر محسوس طریقے پر ہم آہنگ ہونے لگی۔ ایک دن عمر آفس کے لیے گھر سے نکل رہے تھے۔ آمنہ نے کہا آپ سے مجھے بات کرنی ہے۔ ہاں کہو: پوچھنے کی بھلا کیا ضرورت ہے۔ عمر! کیا آپ کی تنخواہ بڑھ نہیں سکتی؟ میرا مطلب ہے کچھ اور آمدنی کا ذریعہ نہیں ہو سکتا۔ آمنہ نے اٹک اٹک کر کہا۔ ہم بھی اوپر کاپورشن بنوالیں گے۔ عمر نے بہت حیرت سے آمنہ کی طرف دیکھا۔ کچھ کہنا چاہ رہا تھا کہ اس نے سوچا ابھی فوراً اگر نہ کہوں گا تو آمنہ کو ضد ہوجائے گی۔ کچھ سوچتے ہوئے اس نے کہا آفس سے آنے کے بعد بات کریں گے۔ آمنہ نے دل میں سوچا، عمر کبھی بھی راضی نہیں ہوںگے۔ کچھ اور طریقے سے منانا پڑے گا۔ پھر آمنہ کی فرمائشیں اور اصرار بڑھتا ہی چلا گیا۔ کبھی تو عمر سمجھا دیتا کبھی کوئی فرمائش پوری کردیتا۔ آج بھی آمنہ نے کچھ فرمائش کی تھی لیکن عمر نے بہت اچھے طریقے سے سمجھا دیا تھا کہ جتنی ہماری آمدنی ہے، اتنا ہی ہمیں خرچ کرنا چاہیے۔ لیکن آمنہ کی سمجھ میں یہ بات نہیں آرہی تھی۔ تھوڑی دیر بعد صبا آگئی۔ آمنہ نے دونوں کے لیے چائے بنائی اور ساتھ میں کچھ بسکٹ وغیرہ بھی لے آئی۔ تب تک صبا اس کے چھوٹے بیٹے سے باتیں کرتی رہی۔ کیا بات ہے آمنہ تم کچھ خاموش خاموش سی لگ رہی ہو؟ آمنہ نے تھوڑے پس و پیش کے بعد صبا کو بتایا کہ عمر اس کی کچھ بات نہیں مان رہے ہیں۔ صبا نے کہا تمہیں شوہر سے کچھ منوانا آتا ہی نہیں۔ مجھے دیکھو میں ایک دفعہ کہہ دوں اپنے شوہر سے کسی چیز کے بارے میں، مجال ہے کہ وہ انکار کردیں۔ صبا نے اسے اکسایا۔ نہیں پہلے ایسے نہیں ہوتا تھا۔ عمر میری ہر بات مان لیتے تھے۔ معلوم نہیں اب کیا ہوگیا ہے۔ آمنہ نے پر سوچ لہجے میں کہا۔
اسی لیے کہتی ہوں اپنے آپ پر تھوڑی محنت کرو۔ باہر لڑکیاں اتنی نک سک سے درست نظر آتی ہیں کہ پھر شوہر کو سیدھی سادی بیوی نظر نہیں آتی۔ آج تو تمہیں میرے ساتھ پارلر چلنا ہی پڑے گا۔ اس کے بعد بات کرنا، پھر دیکھنا کیسے نہیں مانتے۔ نہیں میں عمر سے پوچھے بغیر نہیں جاسکتی۔ آمنہ نے انکا رکیا۔ تم کتنی ڈرپوک ہو، اتنے چھوٹے چھوٹے کاموں کے لیے بھی شوہر کی اجازت لیتی ہو۔ تم تو کہتی ہو کہ عمر بہت اچھے ہیں، پھر بھلا تمہیں اتنا ڈرنے کی کیا ضرورت؟ مجھے دیکھو، میں تو کبھی اتنی چھوٹی چھوٹی باتوں کے لیے اپنے شوہر سے اجازت نہیں لیتی۔ صبا نے اس طرح سے موازنہ کیا تو آمنہ بھی راضی ہوگئی ساتھ جانے کے لیے۔ جب وہ لوگ گھر لوٹے تو شام ہورہی تھی۔ آمنہ نے سوچا آج تو پکوان بھی نہیں ہوسکا۔ اس لیے اس نے جلدی جلدی دال بنائی پھر تیار ہونے چلی گئی۔ اس نے اپنا سراپا آئینے میں دیکھا اسے خود یقین نہیں آرہا تھا کہ یہ آمنہ ہے۔ اس نے دل میں سوچا، آج تو عمر ضرور حیران ہوں گے۔ اس کی نظر بار بار گھڑی کی طرف اٹھ رہی تھی۔ تب ہی عمر کے سلام کرنے کی آواز آئی۔ واقعی عمر حیران رہ گئے تھے آمنہ کو دیکھ کر، انہیں جھٹکا سا لگا۔ عمر کی خاموشی سے آمنہ سمجھ گئی کہ یہ سب عمر کو پسند نہیں آیا۔ پھر بھی اس نے پوچھا کہ آپ کو کوئی تبدیلی نظر نہیں آرہی۔ عمر نے مسکرا کر بے ساختہ کہا:
مرتا ہوں سادگی پہ کہ یہ فطرت کا حسن ہے
میرے لیے نہ خود کو سنوارا کرے کوئی
بات آئی گئی ہوگئی۔ عمر نے جان بوجھ کر نظر انداز کردیا کہ گھر کا ماحول خراب نہ ہو۔ کچھ دنوں بعد آمنہ نے ایک اور نئی فرمائش کردی۔ مجھے گھر کی شاپنگ کے لیے کچھ رقم چاہیے؟ وہ کل صبا کی شاپنگ کے لیے گئی تھی، اس لیے اس کا دل بھی چاہ رہا تھا ویسی ہی چیزیں خریدنے کے لیے۔ عمر نے پوچھا کتنی رقم چاہیے؟ یہی کوئی پانچ ہزار۔ آمنہ نے اتنی آسانی سے کہا: جیسے کہہ رہی ہو سو ڈیڑھ سو۔ ٹھیک ہے ایک دو دن میں انتظام ہوجائے گا۔ کل تم کہیں باہر گئی تھیں؟ عمر نے نارمل انداز میں کہا۔ ہاں عمر! وہ اصل میں صبا بہت فورس کررہی تھی ساتھ چلنے کے لیے۔ میں نے کہا بھی کہ میں عمر سے بغیر پوچھے نہیں جاتی ہوں۔ لیکن اس نے کہا کہ تم عمر کی اتنی تعریف کرتی ہو تو وہ یقینا تمہیں کچھ نہیں کہیں گے، اس لیے میں چلی گئی۔
دو دن بعد عمر نے رقم آمنہ کے حوالے کردی۔ آمنہ نے دل میں سوچا کہ پوچھے رقم کا انتظام کہاں سے ہوا، پھر اس نے سر جھٹک دیا۔ اور خود ہی جواب دینے لگی کیا بھلا میں اتنی رقم بھی نہیں مانگ سکتی۔ صبا کے شوہر نے بھی تو اسے شاپنگ کے لیے اتنی ساری رقم دی تھی۔ خود ہی سوال جواب کرکے دراصل وہ اپنے آپ کو مطمئن کررہی تھی۔ ضمیر کی آواز کو دبانے کی کوشش کررہی تھی۔ دوسرے دن صبا کے ساتھ جاکر خوب شاپنگ کی۔ بڑی مہنگی مہنگی دکانوں سے شاپنگ کرکے، وہ اپنے آپ کو بھی کوئی بڑی چیز سمجھ رہی تھی۔ شیطان اسی طرح اصراف کرنے پر آمادہ کرتا ہے۔ دھیرے دھیرے اس پر صبا کا اثر گہرا ہوتا گیا اور وہ صرف ظاہر داری کے فریب میں ہی الجھ کر رہ گئی۔
آج بھی اتفاق سے ویسا ہی خوش گوار موسم تھا۔ لیکن آج آمنہ کا مزاج بدلا ہوا تھا، عمر جب گھر میں داخل ہوا تو صحن میں بہت ابتری سی نظر آئی۔ لگتا تھا کہ بہت دنوں سے صحن پر توجہ نہیں دی گئی۔ اس نے وہ سب نظر انداز کرکے، خوش دلی سے سلام کیا۔ اور فرمائش کی کہ کیوں نا آج چائے صحن میں پی جائے، موسم بہت اچھا ہے؟ کیا اتنے گندے صحن میں ہم نیچے بیٹھ کر چائے پئیں گے؟ آپ سے تو اتنا بھی نہ ہوسکا کہ یہاں میز اور کرسیاں ہی لاکر سیٹ کردیتے۔ آمنہ کے لہجے میں بیزاری، طنز اور بھی نہ جانے کیا کیا تھا…
آمنہ یہ وہی صحن ہے جہاں ہم پہلے بھی بیٹھ کر چائے پیتے تھے۔ اب اچانک اس میں کہاں سے خرابی آگئی۔ میں دیکھ رہا ہوں، تم دن بدن گھر اور گھر والوں سے دور ہوتی چلی جارہی ہو۔ تمہاری بھلائی کے لیے کہہ رہا ہوں کہ خدا کے لیے اپنے گھر کو منتشر نہ کرو۔ ورنہ پچھتاؤگی۔ عمر کا اتنا کہنا تھا کہ آمنہ آپے سے باہر ہوگئی۔ ہاں آپ مجھے ہی موردِ الزام ٹھہراتے ہیں۔ ہمیشہ لیکچر، یہ کرو، وہ نہ کرو… عمر حیران ہوگیا کہ آج آمنہ کو کیا ہوگیا۔ اس نے کبھی اونچی آواز میں بات تک نہیں کی تھی۔ وہ سوچتا رہا اور اللہ سے دعا کی۔ آج پہلی دفعہ ایسا ہوا کہ صبح آفس جاتے وقت اس نے عمر سے بات نہیں کی۔ اس نے تیاری کی کہ صبا کے گھر جاکر کل کا واقعہ اسے بتائے۔ وہ صبا کے گھر پہنچی تو خلافِ توقع آج ڈرائنگ روم کا دروازہ کھلا تھا اور وہاں سے خوب زور زور سے آوازیں آرہی تھیں۔ سب سے نمایاں آواز صبا کی تھی۔ آمنہ پلٹنے ہی والی تھی واپس جانے کے لیے کہ اپنا نام سن کر ٹھٹک گئی۔ صبا کہہ رہی تھی آمنہ کا شوہر اپنی بیوی کا کتنا خیال رکھتا ہے اور ایک تم ہو … تمہیں تو گھر سے کوئی دلچسپی ہی نہیں۔
بس بند کرو اپنی بکواس۔ صبا کے شوہر کی بہت ہی بے زار سی آواز آئی۔ تمہیں خود یہ زندگی چاہیے تھی۔ میں نے تم کو تمہاری خواہش پر یہ سب کچھ دیا ہے۔ تم نے خود مجھے رشوت لینے پر اکسایا … خود چاہا اونچی سوسائٹی میں موو کرنا اور اب رونا روہی ہو۔ یہ سب باتیں تم کو پہلے سوچنی تھیں۔ اب اپر کلاس کی کچھ ضرورتیں ہوتی ہیں وہ تو پوری کرنی ہی پڑتی ہیں… نہیں چاہیے مجھے ایسی زندگی … جس میں میرا شوہر ہی میرا اپنا نہ رہے۔ کس کرب سے گزرتی ہو ںمیں، جب تمہیں کسی اور کے ساتھ دیکھتی ہوں… صبا نے بے بسی سے کہا۔
بس اپنے آپ کو زیادہ مظلوم ثابت نہ کرو۔ تم خود گھر اور شوہر پر توجہ نہیں دیتی ہو۔ جب مرد کو گھر میں سکون نہ ملے تو وہ باہر ہی سکون تلاش کرے گا نہ؟ تمہیں تو اپنے آپ کو سنوارنے سے فرصت نہیں۔ شاپنگ سے فرصت نہیں۔ تم شوہر کی خدمت کیا کرو گی؟ صبا کے خاوند نے ایک ہی سانس میں کہہ ڈالا۔
ان دونوں میں مزید جھڑپ بڑھتی ہی جارہی تھی۔ آمنہ پلٹ کر گھر آگئی۔ اسے بہت بری طرح شاک لگا تھا۔ بچہ رو رہا تھا تو بھی اسے احساس نہیں ہوا۔ کافی دیر بعد اس نے بے دلی سے اٹھ کر اسے دودھ دیا اور پھر سوچوں میں گھرگئی۔ کتنی بے وقوف ہوں میں … اپنے ہاتھوں اپنا اتنا پیارا گھر برباد کرنے چلی تھی۔ واقعی مجھ سے بڑھ کر کوئی بے وقوف نہ ہوگا۔ کیا کوئی اس طرح بھی اپنے ہاتھوں اپنے بسے ہوئے گھر کو آگ لگاتا ہے؟ عمر صحیح کہتے ہیں، میں بہت جلد کسی کے بھی فریب میں آجاتی ہوں، یہ سوچے بغیر کہ اس کا انجام کیا ہوگا۔ آج حقیقت کھلی کہ صبا اپنے شوہر کے تعلق سے جھوٹ کا سہارا لیتی تھی۔
یا اللہ! میں کتنا شکر ادا کروں تیرا۔ تو نے مجھے اس فریب سے بچالیا، اور گرنے سے پہلے تھام لیا۔ میں تو اپنے رب اور شوہر دونوں کی نافرمانی کررہی تھی۔ کس طرح آخرت میں کامیاب ہوتی؟ کئی دن سے عمر سے سیدھے منھ بات بھی نہیں کی… اس کی آنکھوں میں خود بخود آنسو بہنے لگے۔ معلوم نہیں ہم عورتیں یہ کیوں بھول جاتی ہیں کہ شوہر کی فرمانبرداری اور قناعت میں ہی ازدواجی زندگی کا سکون ہے اور پھر آخرت میں جنت کی خوشخبری بھی۔
اس نے نماز پڑھی اور اللہ سے خوب رو رو کر معافی مانگی۔ پھر ایک نئے جذبے اور نئی لگن سے اس نے گھر کے کام کی ابتدا کی کیوں کہ اس پر یہ حقیقت آشکارا ہوگئی تھی کہ گھر جنت کا نمونہ اسی وقت ہوتا ہے جب آپس میں understandingہو اور یہ قناعت، قربانی اور ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے سے ہوتا ہے۔
——