نادان لڑکی

فردوس شاہین فلاحی

مہر آج بہت بن ٹھن کر ایئر پورٹ آئی تھی، کیوں کہ آج اس کے ہونے والے شوہر الطاف سے اس کی پہلی ملاقات ہونے والی تھی۔ الطاف کناڈا میں ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں کمپیوٹر انجینئر ہے اس کے ذہن پر یہ خوف تھا کہ پہلی بار ہی اس انجینئر نے اس کو پسند نہ کیا تو اتنا اچھا رشتہ بنتے بنتے رہ جائے گا۔ پہلے ہی اس کے لے کئی اچھے اچھے رشتے آئے تھے، مگر اللہ کی مرضی نہ تھی۔ اور بات نہ بنی۔ آج مہر کسی بھی طرح کا کوئی جوکھم اٹھانا نہیں چاہتی تھی، وہ بیوٹی پارلر سے اپنا میک اپ کراکر آئی تھی۔ سر سے پیر تک آج وہ ایک حسین مجسمہ لگ رہی تھی جبکہ مہر کے ابا جی بہت سادہ طبیعت آدمی تھے۔ انگلش کے پروفیسر تھے، لیکن بات بات پر انگریزی کے جملے بول کر لوگوں پر اپنی قابلیت کا رعب جمانا انہیں پسند نہ تھا۔ وہ خالص لکھنؤی انداز میں بات کرتے بولتے تو ایسا لگتا کہ وہ شاعری کررہے ہیں۔

وہ پرانی تہذیب کی جیتی جاگتی مثال تو تھے ہی لیکن نئی تہذیب کے بھی وہ خلاف نہ تھے۔ کیونکہ وہ جنریشن گیپ کا مطلب بھی اچھی طرح سے جانتے تھے۔

مہر کی امی لکھنؤ یونیورسٹی سے ایم ایس سی تھیں۔ کچھ دنوں تک انھوں نے کسی کالج میں لیکچرر کی حیثیت سے کام بھی کیا تھا۔ لیکن شادی کے بعد گھر کی ذمہ داری میں وہ ایسا مصروف ہوئیں کہ ان کو کالج کی نوکری چھوڑنی پڑی۔ عام گھریلو عورتوں سے خود کو مختلف ثابت کرنے کے لیے وہ بہت بڑھ چڑھ کر بولتی تھیں۔ ان کی پوری کوشش یہ رہتی کہ کسی بھی مسئلے پر کوئی عورت بحث میں ان سے آگے نہ نکل جائے۔ اکثر وہ اپنے اس مقصد میں کامیاب بھی ہوجاتی تھیں۔ نئی تہذیب کی دلدادہ ہونے کے ساتھ ساتھ فلمی دنیا اور ٹیلی ویژن کا ان پر بہت اثر تھا۔

مہر انگریزی زبان میں ایم اے کررہی تھی، اردو میں شعروشاعری بھی کرلیتی تھی۔ اچھی آواز میں غزلیں بھی گنگنالیتی تھی۔ اس کو گھر میںاچھا اور تعلیم یافتہ ماحول ملا تھا۔ ابا پروفیسر ایک چچا ڈاکٹر اور دوسرے انجینئر تھے۔ پریشانی کی بات یہ تھی کہ مہر کو سنیما کا شوق بیماری کی حد تک تھا۔ پریشانی اس وجہ سے کہ اباجی پکچر ہال جانے کی کبھی اجازت نہیں دیتے تھے۔ چنانچہ مہر خوش تھی کہ اس کی شادی ایک ایسے نوجوان سے ہونے جارہی ہے جو بیرونِ ملک کی سیرکرتا ہے۔ اور اپنی مرضی کا مالک ہے۔ اسے یقین تھا کہ شادی کے بعد وہ اس کو بھی کناڈا لے جائے گا۔ اس لیے مہراپنے آپ کو اس روپ میں ڈھال چکی تھی کہ اگر وہ کناڈا کی سڑکوں پر اپنے شوہر کے ساتھ چلے تو وہ ہندوستان کے کسی گاؤں کی رہنے والی معمولی لڑکی نہ معلوم ہو۔ وہ پوری طرح ماڈرن بن چکی تھی۔ ماڈرن! پر کیا مہر کو یہ یاد ہوگا کہ وہ پہلے مہر النساء تھی! اس نے اپنا نام صرف اس لیے مہر احمد کیا تھا کہ اس کی نظر میں مہر النسا دقیانوسی نام تھا۔ بچپن میں ہی اس نے کلام پاک کا حافظہ کرلیا تھا۔ ان دنوں وہ میلاد شریف پڑھنے کی بہت شوقین تھی۔ گھر کے لوگ اس کو ملانی کہتے تھے مہر کو اپنے بچپن کے وہ دن بھی یاد تھے جب اس کی پردادی کبھی اپنے علاج کے واسطے حکیم صاحب کے دوا خانے جانے کے لیے تیار ہوتیں تو گھر کے مین گیٹ کے ٹھیک سامنے ایک رکشہ لاکر کھڑا کردیا جاتا۔ رکشے کوچاروں طرف سے ایک سفید چادر سے باندھ کر پردا کردیا جاتا۔

اس کے بعد پردادی سر سے پیر تک نقاب میں ڈھکی ہوئی بجلی کی سی تیزی سے گھر کی دہلیز سے باہر نکلتیں اور جھٹ سے پردا اٹھا کر رکشے پر بیٹھ جاتیں۔ مہر ایک خوبصورت گڑیا کی طرح پھدک کر اپنی دادی کے ساتھ خوشی خوشی رکشے پر بیٹھ جاتی تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب عورتوں کا پردے میں رہنا شریف گھرانے کی نشانی سمجھا جاتا تھا۔ اس وقت کوئی ایسا ترقی پسند شخص پیدا نہیں ہوا تھا جو یہ کہتا کہ پردے میں رہنے سے عورتوں کی ذہنی ترقی رک جاتی ہے۔

مہر کی پردادی کے انتقال کے ساتھ ہی رکشے پر لگائی جانے والی وہ سفید چادر بے داغ ہونے کے باوجود اتار کر پھینک دی گئی۔ شاید اس وجہ سے کہ اس کی دادی قدیم زمانے کی خاتون تھیں اس لیے ان کے ساتھ ہی ان کی روایات کو بھی چلے جانا چاہیے کیونکہ یہ ترقی یافتہ زمانے سے میل نہیں کھاتیں حالانکہ اس چادر کا کسی ترقی یا پچھڑے پن سے کوئی تعلق نہ تھا وہ تو اپنے دامن میں ایک سنسکرتی، ایک تہذیب سمیٹے ایک تحفظ کا احساس دلانے والی ، ایک تہذیب اور ایک ثقافت کی علامت تھی جو پردادی کے رخصت ہوتے ہی ختم ہوگئی تھی۔مہر کے دل میں بیتے دنوں کی یادیں ہو یا نہ ہوں اس سے کیا فرق پڑتا تھا۔ اس کو تو بس اپنے آنے والے دنوں کی فکر تھی۔ وہ دن جو اس کی شادی کے بعد اس کی زندگی میں ڈھیر ساری خوشیاں لانے والے تھے۔

مہر اپنے منگیتر کے بارے میں زیادہ کچھ نہیں جانتی تھی۔ ہاں صرف اتنا جانتی تھی کہ الطاف کا اس دنیا میں کوئی نہیں ہے اس کی پرورش یتیم خانے میں ہوئی ہے۔ اس نے اپنی محنت اور لگن سے ہی اعلیٰ تعلیم حاصل کی ہے اور اللہ کے فضل سے کمپیوٹر انجینئر بن کر کناڈا سروس کرنے چلا گیا ہے۔ چونکہ مہر نے الطاف کو پہلے کبھی نہ دیکھا تھا اس لیے وہ اپنے ذہن میں اس کی خیالی تصویر ہی بناپائی تھی۔ وہ کبھی سوچتی کناڈا سے لوٹ کر آنے والا کمپیوٹر انجینئر فلم کے ہیرو جیسا شوخ و چنچل ہوگا، لیکن دوسرے ہی پل اس کے دل میں خیال آتا کہ جو شخص بہت دنوں سے کناڈا جیسے ملک میں انجینئر ہے وہ ہندوستانی فلموں کے چھچھلی اور سطحی حرکتیں کرنے والے ہیرو جیسا کیوں ہو وہ ہالی ووڈ کے بہادر اور ایڈوانچرس ہیرو کی طرح غضب کا اسمارٹ اور عزم و حوصلے والا کیوں نہیں ہوسکتا۔ کبھی کبھی مہر کے دل میں یہ بھی خیال آتا کہ اتنی ہائی سوسائٹی میں رہنے والا وہ انجینئر کیا اس کو اپنی شریک حیات بناناپسند کرے گا۔ بس اسی مقام پر اس کے دل کی دھڑکن سست پڑجاتی اور دل بیٹھنے لگتا۔ مہر اپنے آنے والے دنوں کے بارے میں سوچ رہی تھی کہ ائیر پورٹ پر اناؤنسر کی آواز آئی ریاض کے راستے جدہ سے آنے والی ایئر انڈیاکی اُڑان لکھنؤ آپہنچی ہے۔ اس فلائٹ کے مسافروں کا انتظار کرنے والے حضرات برائے مہربانی گیٹ نمبر پانچ پر پہنچیں۔ اتنا سننا تھا کہ مہر کے ابا جی اور اس کا چھوٹا بھائی گیٹ نمبر پانچ کی جانب چل دئیے۔ الطاف سعودی عرب ہوتے ہوئے لکھنؤ آرہے تھے۔ گیٹ پر پہنچ کر وہ لوگ الطاف کا انتظار کرنے لگے۔ مہر اس کی امی شمع، چچیری بہن نیلوفر اور اس کی نانی کچھ دوری پر ہی ایک صوفے پر بیٹھی ہوئی تھیں۔ سب کی نگاہیں اس انجان شخص کو دیکھنے کے لیے بے چین تھیں جس کے بارے میں تعریفیں بہت سنی تھیں مگر دیکھا کسی نے نہیں تھا۔ مہر کے دل کی دھڑکنیں تیز ہوتی جارہی تھیں وہ بار بار یہی سوچ رہی تھی کہ کیا کناڈا جیسے ترقی یافتہ ملک میں رہنے والا الطاف لکھنؤ جیسے چھوٹے شہر میں رہنے والی لڑکی کو پسند کرلے گا؟ وہا ںکے لوگ تو بہت آزاد خیال ہوتے ہیں۔ اتنا سوچتے ہی اس نے اپنے سینے پر پڑے دوپٹے کوجھٹک کر ایک خاص اسٹائل سے اپنے کندھے پر لٹکا لیا اور تن کر کھڑی ہوگئی۔ اس کے اندر شعور جاگا کہ وہ بھی کسی سے کم نہیں ہے۔ مسافر نکلنا شروع ہوگئے تھے مہر کے ابا جی اور اس کا بھائی گیٹ سے نکلنے والے ہر نوجوان کو غور سے دیکھ رہے تھے۔ مہر کے ابا جی الطاف کا خیر مقدم کرنے کے لیے اپنے ہاتھوں میں پھولوں کا ایک بڑا سا گلدستہ پکڑے تھے۔ اس کے بھائی نے اپنے ہاتھ میں ایک تختی لی ہوئی تھی جس پر لکھا تھا، ویلکم انجینئر الطاف حسین، آنے والے لوگوں میں بہت سے غیر ملکی تھے۔ ان میں سے ایک نورانی چہرے والا گورا چٹا خوبصورت نوجوان ایک ٹرالی پر اپنا سامان لیے ہوئے گیٹ نمبر پانچ سے نکلتے ہی اس کے بھائی علی احمد کی طرف دیکھ کر مسکرانے لگا۔ وہ نوجوان بے داغ اجلا کرتا پائجامہ پہنے ہوئے تھا۔ اس کے سر پر سفید گول ٹوپی تھی، مہر دور سے سارا منظر دیکھ رہی تھی اس نوجوان نے علی احمد سے ہاتھ ملایا۔ مہر کے ابا جی نے اسے پھولوں کا گلدستہ پیش کیا وہ ابا جی کے سینے سے لگ گیا۔ مہر سوچنے لگی، کیا یہی الطاف حسین ہیں۔ وہ پتھرائی آنکھوں سے اسے دیکھ رہی تھی۔ اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا نے لگا تھا۔ اس کے حسین خواب ریت پر بنے ہوئے محل کی طرح بھربھرا کر گرنے لگے۔ اس کے ابا جی تو بہت خوش نظر آرہے تھے، مگر وہ پل پل بجھتی جارہی تھی۔ اس کی آنکھوں سے ناامیدی کے آنسو گرنے لگے۔ وہ اپنی امی کے آنچل میں منھ چھپا کر رونے لگی، وہ سسکیوں کے بیچ اپنی امی سے کچھ کہتی جارہی تھی، اس کی امی اس کو سمجھا رہی تھیں۔ بیٹی! الطاف کے چہرے پر داڑھی ہے تو کیا ہوا، اس کی اتنی اچھی نوکری بھی تو ہے۔ ایسا اچھا رشتہ کہا ںملے گا؟

مہر کی نانی تو تسبیح کے دانوں کے سہارے کلمہ پڑھتی جارہی تھیں اچانک بول پڑیں مہر نادانی مت کرو اپنے سر پر دوپٹہ ڈالو، دیکھو تمہارے ابا جی الطاف کو لے کر ادھر ہی چلے آرہے ہیں۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146