نادرنسخہ

عائشہ احسن

میںایک مصنفہ ہوں، لکھنے لکھانے کی صلاحیت مجھے ورثے میں ملی ہے۔ میں جب لکھتی ہوں تو ڈوب کر لکھتی ہوں۔ اپنے پڑھنے والوںمیں میری پہچان ہے۔لوگ مجھے شوق سے پڑھتے ہیں اور میرے لکھے ہوئے مضامین اور افسانوں کو پسند کرتے ہیں۔ یہ خالی خولی دعویٰ نہیں بلکہ اس کاثبوت لاتعداد خطوط ہیں جو ہر ماہ میرے قارئین کی طرف سے مجھے موصول ہوتے ہیں۔ لیکن اِس وقت میں ایک پریشانی سے دوچارہوں۔ لیکن اپنی پریشانی کا تذکرہ کرنے سے پہلے یہ بتادوں کہ میں صرف سچ لکھتی ہوں۔ سچ، جو کہ تلخ اورکڑوا ہو یا پھر شیریں۔ میں نے کبھی جھوٹ نہیں لکھا۔ آج مجھ کو جو پریشانی ہے ایسا محسوس ہوتاہے کہ مجھ کو جھوٹ لکھنا ہی پڑے گا۔ چلیے میں آپ سے شیئر کرتی ہوں، شاید آپ مجھ کو بہتر مشورہ دیں۔ ارے آپ مجھ کو بغور کیوں دیکھ رہے ہیں؟ میری آنکھوں میں آنسو کیوں ہیں؟ آپ تو سراپا سوال ہی بن گئے۔ چلیے میںآپ کو پورا واقعہ سناتی ہوں، اس طرح آپ پر میرے آنسوئوں کاراز کھل ہی جائے گا، کیوں کہ میں آپ کو پہلے ہی بتاچکی ہوں کہ میں صرف سچ ہی لکھتی ہوں۔
کل ایسا ہواکہ میرے شوہر کو شادی میں جاناتھا، اُن کے نہایت عزیز دوست کی شادی تھی۔ میں نے چاہاکہ وہ اپنے ساتھ شازی کو بھی لے جائیں۔ شاہ زیب میرے سب سے چھوٹے بیٹے کانام ہے جس کو ہم پیار سے شازی کہتے ہیں۔ میں نے نہایت عاجزی سے درخواست کی کہ آپ شازی کو بھی اپنے ساتھ لے جائیں۔ چونکہ اُن کاموڈ نہیں تھا لہٰذا اس کاجواب یہ ہونا چاہیے تھا کہ میں لے کر نہیں جارہا۔ لیکن بالکل اچانک اور خلافِ توقع ان کو غصہ آگیا اور انہوںنے نہایت نازیبا کلمات سے مجھ کو نوازا۔ بس یہیں سے اس کہانی کاآغاز ہوگیا۔ چلیے میں آپ کو کہانی پڑھواتی ہوں۔ سنیے:
روبی طارق سے مخاطب ہوئی’’آپ ذرا منے کو بھی شادی میں لے جائیں، یہ گھرمیں اکیلا گھبرائے گا۔‘‘
’’تم پاگل تو نہیں ہو‘‘ طارق نے غصے سے اس کو گھورا ’’میں شادی میں جارہاہوں تم چاہ رہی ہو کہ میں بچہ سنبھالتا رہوں۔‘‘
’’تو کیاہوا…؟‘‘ روبی معصومیت سے بولی۔ ’’کیا یہ صرف میرا ہی بچہ ہے؟ آپ کابھی فرض ہے اس کوسنبھالنا۔‘‘
’’تم بالکل احمق اور جاہل ہو۔‘‘طارق غصے سے بھڑک اٹھا ’’جب بھی مجھ کو کہیں جانا ہوتاہے تم بچوں کو پیچھے لگادیتی ہو۔ تم ہر کام میں اپنی مرضی چلاتی ہو۔ تم چاہتی ہو کہ جو تم چاہو وہ ہو، تمہاری مرضی چلے اور میں تمہارے پیچھے دُم ہلاتا رہوں۔ تمہاری جی حضوری کرتارہوں۔‘‘
’’اصل میں آپ چاہتے ہیں کہ ہر وقت ننھے کا کے بنے رہیں، جہاں جائیں لوگ آپ کو غیرشادی شدہ سمجھیں، لڑکیاں مسکرامسکراکر آپ کو دیکھیں۔ مائیں آپ کے صدقے واری ہوں۔‘‘ روبی کا لہجہ طنزیہ ہوگیا۔
’’کیا…؟‘‘ طارق نے چلاکر کہا۔ غصے سے اس کے منہ سے جھاگ نکلنے لگے۔ آنکھوں میں شعلے بھڑک اٹھے۔ ’’تم سمجھتی کیا ہو اپنے آپ کو! تمہاری سوچ، تمہارے خاندان کی طرح نیچ اور گھٹیا ہے۔‘‘
’’میرے خاندان تک نہ پہنچنا۔‘‘ روبی گرجی، ’’ورنہ…‘‘
’’ورنہ…!!‘‘ طارق نے مصنوعی حیرت سے آنکھیں پھیلاکر دیکھا۔ روبی کے انداز میں بے بسی درآئی۔ وہ کچھ دیر خاموشی سے ا س کو دیکھتی رہی، پھر منے کو لے کر دوسرے کمرے میں بندہوگئی۔ تھوڑی دیر بعد دروازہ بند ہونے اور گاڑی اسٹارٹ ہونے کی آواز آئی تو روبی کمرے سے باہر نکلی۔ طارق جاچکاتھا۔ روروکر روبی کی آنکھیں سوج گئی تھیں۔
…٭…
جی ہاں قارئین! آپ نے پڑھا کہ کیا زبردست معرکہ ہوا میرا اور میرے شوہر صاحب کا۔ جناب مجازی خدا تو بڑے ٹھسے سے شادی میں شرکت کے لیے روانہ ہوگئے اور اِدھر رو رو کر میری آنکھیں سوج گئیں۔ دل چاہ رہا تھا کہ سب کچھ تہس نہس کردوں، ہر چیز توڑدوں۔ کچھ نہیں کرسکتی تو دیوار سے سرٹکراٹکراکر اپنے آپ کو ختم کرلوں۔ لیکن کیوں کہ اس میں میرا ہی نقصان تھا لہٰذاایسا کچھ نہیں کیا بلکہ آنسو صاف کرکے بچوں کو کھانا کھلایا، پھر سلاکر کاغذ قلم لے کر بیٹھ گئی۔ مجھے کیا معلوم تھاکہ اب ایساشاندار افسانہ تخلیق ہوگا جو کہ مدتوں یادرکھاجائے گا، کیوں کہ یہ میں دل سے لکھوںگی۔ لیکن میری ہیروئن کا ایک ہی بیٹا ہے۔ میرے میکے میں تو کوئی نہیں ہے کہ میں اپنے شوہر سے ناراض ہوکر جاسکوں۔ لیکن میری ہیروئن کا میکہ بڑا مضبوط ہے، پیار کرنے والے ماں باپ، جان چھڑکنے والے بھائی اور محبت کرنے والی بھابھیاں اس کو ہر دم خوش آمدید کہنے کے لیے تیار ہیں۔ لیکن وہ میری ہیروئن ہے لہٰذا اس کو ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنا ہوگا۔ ایسانہیں ہوسکتاکہ وہ ناراض ہوکر میکے جاکر بیٹھ جائے، کیوں کہ میں اپنی قارئین کو ایسا کوئی سبق نہیں دیناچاہتی کہ وہ بھی معمولی معمولی باتوں پراپنے شوہر سے ناراض ہوجائیںاور گھر چھوڑدیں۔ سوچنا تو یہ ہے کہ اب میری ہیروئن کیا کرے کہ اس کی انا بھی سلامت رہے۔ خود معافی مانگے یا پھر انتظار کرے کہ اس کا شوہر اس کو منالے۔ آپ میرے بارے میںپوچھ رہے ہیں کہ میں کیا کروں گی تومیں نے فیصلہ کیاہے کہ میں معافی نہیں مانگوںگی۔ میرا جب قصور ہی نہیں ہے تو میںکیوں جھکوں؟ ہمیشہ میں ہی جھکتی چلی آئی ہوں، لیکن اس مرتبہ شوہر صاحب کو ہی گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردوںگی۔
…٭…
صبح ہوتی ہے، سورج نکلتاہے جو اندھیرے کو نگل لیتاہے۔ اسی طرح صبح ہوئی اور میرے نہ جھکنے اورنہ مَننے کے ارادے بھاپ بن کر تحلیل ہوگئے۔ آپ حیرت سے مجھے دیکھ رہے ہیں کہ ایسا کیا ہوا! چلیے آپ ایک کونے میں چھپ جائیں، میں آپ کو منظر دکھاتی ہوں۔ یہ میرا بیڈروم ہے۔ شوہر صاحب محوِاستراحت ہیں۔ بیگم صاحبہ بچوں کو اسکول کے لیے تیار کررہی ہیں۔ بچے ہیںاٹھنے کا نام نہیں لے رہے ۔ خیربڑی مشکل سے بچوں کو کھینچ کھانچ کر اٹھایا اور تیارکرکے اسکول بھیج دیا۔ دل عجیب بجھا بجھا سا ہے،کیوں کہ رات کو شوہر صاحب سے جھگڑا ہواہے۔ خیربچوں کو اسکول بھیج کر اوپر سے دیکھتی ہوں۔ بچے وین میں بیٹھ رہے ہیں۔ اوہو! یہ سب بچوں کے ہاتھ میں پھول کیوں ہیں؟ یاد آیاکہ آج شازی کے اسکول میں بہار ڈے منایاجارہاہے اور بچوں کو تازہ گلدستہ لے کرجاناتھا۔ ارے اب کیا کروں! اب تو شوہر صاحب کی طرف پیش قدمی کرنی ہی پڑے گی۔ جھکنا ہی پڑے گا۔ ورنہ میرا بچہ اسکول میں پریشان ہوگا۔ چلو شوہر صاحب سے درخواست کی کہ ’’میں تو بھول ہی گئی تھی کہ آج شازی کو پھول لے کر جانے تھے۔‘‘
’’تو میں کیا کروں…!‘‘ بڑے درشت لہجے میں فرمایا گیا۔ ’’وہ آپ ذرا چلے چلیں، قریب ہی نرسری سے خرید کردے دیںگے، ورنہ بچے کا دل بُرا ہوگا۔‘‘
’’تم بالکل احمق اور بے وقوف ہو۔‘‘ شوہر صاحب گرجے ’’یاد رکھنے والی باتیں تم کو یاد نہیں رہتیں۔ اپنے اوسان ٹھکانے رکھا کرو…‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ دل اکسارہاہے کہ ’’جواب دو… جواب دو۔‘‘ لیکن دماغ کہہ رہاہے ’’خاموش… خاموشی ہی بہتر ہے۔‘‘ خیر گھر سے نکل کر پھول خریدنے سے لے کر بچے تک پہنچانے تک ایک عجیب اعصابی تنائو نے گھیرے رکھا۔ اب جب گھر واپس آنے لگے تو نہ جانے کہاں سے پیار کے جذبات امڈامڈ کر آنے لگے۔ آخر یہ میرے شوہر ہیں۔ میرے بچوں کے باپ ہیں۔ اگر میں ان کو منالوں تو اس میں حرج ہی کیا ہے! دل کڑاکر کے ان کے شانے پر ہاتھ رکھا اور اپنے لہجے میں محبت کی نرمی اور پیار کی مٹھاس کو سموتے ہوئے کہا ’’آپ ناراض ہیں مجھ سے؟‘‘
’’مجھ سے بات مت کرو۔‘‘ انتہائی سخت لہجے میں فرمایاگیا۔
’’اچھا بھئی میں معافی چاہتی ہوں۔‘‘
’’میں کہہ رہاہوں مجھ سے بالکل مت بولو۔‘‘
’’اچھا آپ کو کیسے منائوں؟ کیا گاکر سنائوں؟‘‘
’’ہٹ جائو میرے سامنے سے۔‘‘ چلّاکرکہاگیا۔
اب یہ دل بھربھر کر آرہاہے۔ آنکھوں میں آنسو کیوں ہیں، اب پتا چلا! اب سوال یہ ہے کہ اب کیاکیاجائے؟ افسانے کا کیا اینڈہوناچاہیے۔ ہیروئن نے معافی مانگی لیکن پھر بھی شوہر صاحب نہ مانے تو اب بہتریہ ہے کہ ہیروئن گھر چھوڑکر چلی جائے۔ ایک ہی اس کابچہ ہے۔ میں تو پانچ بچوں کو لے کر جانے سے رہی، مجھ کو کون برداشت کرے گا! لیکن اب کیا میںاپنی ہیروئن کو گھرچھوڑکر جانے دوں یا پھر جھوٹ لکھ دوں کہ ہیروئن نے اپنے گھر کی سلامتی کے لیے اپنی انا کی قربانی دی اور صلح ہوگئی۔ اب کیا کروں! خیر اب اس افسانے کو اٹھاکر الماری کی دراز میں ڈالنا ہی پڑے گا کیوں کہ میں آپ کو پہلے ہی بتاچکی ہوں کہ میں صرف سچ ہی لکھتی ہوں۔
…٭…
ارے اب آپ مجھ کو دیکھ کر حیرت سے اچھل ہی پڑے۔ حیرت کی تو بات ہی ہے کہ آج میں آپ کو بے انتہاخوش دکھائی دے رہی ہوں۔ یہ آپ دیکھ رہے ہیں میرے ہاتھ میں پھول ہیں جو کہ دوستی اور محبت کی علامت ہیں۔ یہ پھول کہاں سے آئے…! ارے نہیں آپ غلط سمجھے، یہ بازار سے میں نے نہیں خریدے بلکہ یہ شوہر صاحب ہی لے کر آئے ہیں۔ لیکن یہ ہوا کیسے؟ آپ کی حیرت بجا ہے۔ چلیے ہے تو راز کی بات لیکن کان میں بتادیتی ہوں روٹھے محبوب کو منانے کی ترکیب، یعنی محبوب آپ کے قدموں میں کیسے آئے گا۔ ایک نادر و نایاب نسخہ میں آپ کے نام کرتی ہوں۔ خالقِ کائنات جوکہ دلوں کو جوڑنے والا اور محبت پیدا کرنے والا ہے آپ اس کے آگے اپنا سررکھ دیں۔ اگر حسب خواہش نتیجہ نہ نکلے تو جو چور کی سزا وہ میری۔ پھرکیا خیال ہے ابھی آزمائیے اور کامیاب ہوجائیے۔
——

 

 

 

 

 

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146