جون کا آگ برسانے والا آسمان سرخ تانبے کی رنگت لیے ہوئے تھا۔ فضا میں بے پناہ حدت تھی۔ زمین کے سینے سے گرمی کے بخارات اٹھ رہے تھے۔ ہریالی جھلس گئی تھی۔ نظر نہ آنے والی آگ کی لپٹیں ہر شے کو جلا رہی تھیں۔ میں نے چہرے سے پسینہ پونچھا اور بچوں کو ساتھ لیے پلیٹ فارم کی طرف قدم بڑھائے۔
جن سیوا ایکسپریس موسم کی شدت سے بے نیاز مقررہ وقت پر پلیٹ فارم پر کھڑی تھی۔ اس کی روانگی میں صرف چند منٹ باقی رہ گئے تھے۔ کمپارٹمنٹ میں داخل ہونے کا مرحلہ بڑا دشوار تھا۔ مسافر ایک دوسرے سے الجھ رہے تھے۔ کوئی سیٹوں کے لیے جھگڑ رہا تھا، کوئی سامان کھڑکی میں سے اندر پھینک رہا تھا، کوئی نیچے اترنے کی تگ و دو کررہا تھا تو کوئی اوپر چڑھنے کے لیے زور لگا رہا تھا۔ غرض ہر طرف عجیب افراتفری تھی۔ میرا دل ہول اٹھا۔ بھلا اس بے ہنگم شوروغل میں بچوں کے ساتھ میں کس طرح ڈبے میں جگہ لے سکوں گی۔
مجھے بلا رزرویشن اسی گاڑی سے سفر کرنا تھا۔ کام کچھ ایسا آن پڑا تھا کہ میں اسی گاڑی سے وہاں پہنچ سکتی تھی۔ بچوں کا ساتھ، قیامت کی گرمی، جن سیوا ایکسپریس کا سفر۔ یہ میرے لیے خاصا تلخ تجربہ تھا۔ لیکن تجربے ہی تو علم کو وسعت و گہرائی عطاکرتے ہیں۔ یوں دل کو تسلی دیتے ہوئے بڑی دقت سے میں ڈبے میں گھسی۔ ایک نیک آدمی کی مدد سے بچے پہلے ہی اندر پہنچ گئے تھے۔ میں بیگ اٹھائے دروازے میں سے ہوکر اندر پہنچی تو وہ پریشان ہوکر چیخ رہے تھے۔ بچے بھی کون سے کم تھے… پورے سات… ایک بھائی کا، ایک بہن کا، تین بھانجی کے، اور دو اپنے۔ سات بچوں کو سنبھالنا یقینا مشکل ترین کام تھا۔ یہ خوش قسمتی ہی تھی کہ اگلے اسٹیشن پر جاکر پوری برتھ خالی ہوگئی۔ میں نے بچوں کو اشارہ کیا اور وہ بڑی ہوشیاری سے اس پر براجمان ہوگئے۔ سامان وغیرہ ٹھیک کرنے کے بعد میں نے بھی اپنے لیے تھوڑی سی جگہ بنائی اور بیٹھ گئی۔ پسینے سے میرے کپڑے تر تھے اور حبس کی وجہ سے ڈبے میں سڑاند سی اٹھ رہی تھی۔ سامنے برتھ پر بیٹھی عورتوں نے کھڑکیاں بند کررکھی تھیں کیوں کہ دھوپ کا رخ اسی طرف تھا۔
گاڑی چل پڑی تو قدرے سکون ملا، لیکن بچوں کی فوجِ ظفر موج کے ساتھ یہ سکون بھلا کتنی دیر قائم رہ سکتا تھا؟ چند ہی لمحے بعد ککو اور جمی جگہ کے لیے لڑنے لگے، جازی کو نیند آنے لگی، اس نے پاؤں پسارنے شروع کیے۔ لبنیٰ کو اس کے پاؤں کی ٹھوکر لگی۔ اس نے لڑکے پر ہلہ بول دیا۔ جازی کمزور پڑتا تھا، اس نے گلا پھاڑ پھاڑ کر رونا شروع کیا۔ پورے ڈبے میں اس کی آہ و بکا گونجنے لگی۔ اس موقع سے فائدہ اٹھا کر فری نے لبنیٰ کی جیب سے چیونگم کا پیکٹ اڑا لیا اور دوسری طرف منہ کرکے اس نے آدھی پپو کے منہ میں ڈالی اور آدھی وہ خود چبانے لگی۔ لبنیٰ کو پتا چلا تو وہ غراتی ہوئی لپکی۔ اس کا گھونسا فری کے بجائے خاموش بیٹھے سمیع کو جالگا۔ بس پھر کیا تھا، فری نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، لبنیٰ کے بال پکڑ لیے۔ ڈبے میں دھینگا مشتی دیکھ کر میں اپنی جگہ سے اٹھی اور انہیں خاموش کرانے لگی۔ اتنے میں کہیں سے بوتل والا آگیا۔
’’کوک، سیون اَپ، فینٹا!‘‘ اس نے صدا لگائی۔
’’امی! پھپھو! خالہ!‘‘ بچے لڑائی جھگڑابھول کر مجھے پکارنے لگے۔ میں ان سے بیزار ہوکر سامنے والی سیٹ پر جابیٹھی۔ ایک مسافر خاتون مجھ سے ہمدردی جتا رہی تھی۔ مگر میں نے کوئی جواب نہ دیا۔ میرا ذہن بڑا پریشان تھا۔
’’تم لوگ آرام سے بیٹھو گے تو کوک ملے گا۔‘‘ میں نے کچھ دیر بعد بچوں سے کہا۔
میری اس تنبیہ کا خاطر خواہ اثر ہوا۔ بچے سارے جھگڑے بھول کر سیٹ پر سکون اور تمیز سے بیٹھ گئے۔ میں نے بوتل والے کو بلایا۔ بارہ تیرہ سال کا منحنی سا بچہ بڑی سی بالٹی اٹھائے نزدیک آگیا۔ بالٹی میں کم و بیش بیس پچیس بوتلیں تھیں۔ برف اور پانی الگ۔ اتنی وزنی بالٹی اس نے بازو کے سہارے اٹھا رکھی تھی۔ مجھے یوں لگا جیسے اس بچے کے بازو کی ہڈی وزن سے کمان کی طرح کھنچ گئی ہو۔ میری نگاہیں غیر ارادی طور پر اس کا جائزہ لینے لگیں۔ چہرے پر بچپن کے بھولپن کی ادنیٰ سی جھلک بھی نہ تھی، البتہ آنکھوں میں گزرے ہوئے بے رونق دنوں کے سائے ضرور تھے۔ پھٹی قمیص، میلے کچیلے پاجامہ اور پیوند لگی بوسیدہ چپلیں… وہ مجھے بے کسی کی تصویر دکھائی دیا۔
میں نے بچوں کو ایک ایک بوتل دلائی۔ ایک ساتھ والی خاتون کو بھی اخلاقاً پیش کی، پھر ایک خود بھی لے لی۔ برف میں لگی بوتلیں، واقعی اس جان لیوا گرمی میں فرحت بخش نعمت معلوم ہوئیں۔ ہمیں ٹھنڈی بوتلوں سے پیاس بجھاتے دیکھ کر پچھلی سیٹ پر بیٹھے ہوئے بچوں نے بھی فینٹا کے لیے شور مچایا۔ بالٹی والا انہیں بھی بوتلیں دینے لگا۔ گھڑی بھر میں اس کی پندرہ سولہ بوتلیں بک گئیں۔ گاڑی تیز چل رہی تھی۔ خالی بوتلوں کے انتظار میں وہ دروازے کے پاس جاکھڑا ہوا۔ بچے اب قدرے مطمئن تھے۔ جازی اور سمیع کہانیوں کی کتاب پڑھنے لگے۔ لبنیٰ ککو اور جمی سے گھل مل کر باتیں کرتی رہی۔ پپو، فری کے شانے سے اپنا سر لگا کر اونگھنے لگا۔ میں نے بھی اطمینان کا سانس لیا۔ ساتھ والی خاتون کو شاید نیند آرہی تھی۔ انھوں نے اپنے پاؤں پھیلادیے۔ یہ جگہ خالی کرنے کا اشارہ تھا۔ میں چپ چاپ اٹھ گئی۔
بچوں نے اپنی برتھ پر کھسک کر میرے لیے جگہ بنائی، لیکن میں ذرا سی جگہ پر بیٹھے بیٹھے نڈھال سی ہوگئی تھی۔ پھر حبس بھی ناقابلِ برداشت تھا، چنانچہ بچوں کو آرام سے بیٹھنے کی ہدایت کرکے میں اس دروازے کے نزدیک جا کھڑی ہوئی جہاں وہ لڑکا وزنی بالٹی فرش پر ٹکائے باہر دیکھ رہا تھا۔ گاڑی پہاڑوں کے غیر ہموار علاقے سے گزر رہی تھی۔ باہر کی طرف جھانکا تو لو کے گرم جھونکے چہرے سے ٹکرانے لگے۔ چنانچہ میں دروازے سے ہٹ کر کھڑی ہوگئی۔ میرے سامنے برتھ پر ایک عورت بیٹھی تھی۔
’’کس بلا کی گرمی ہے!‘‘ اس نے دوپٹے سے اپنے چہرے کو ہوا دیتے ہوئے کہا۔ میں نے اس کے خیال کی تائید کی، پھر گرمی کے تپتے ہوئے دنوں کے بارے میں باتیںہونے لگیں۔
’’پانی پیوگی؟‘‘تھوڑی دیر بعد اس عورت نے اخلاقاً پوچھا۔ میں نے شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا: ’’ابھی پیاہے، آپ پئیں! کیا لیں گی؟‘‘
’’فینٹا۔‘‘ اس نے کہا۔میں نے مڑ کر لڑکے کی طرف دیکھا۔ وہ ٹھنڈی بوتل منہ سے لگائے غٹاغٹ پی رہا تھا۔
’’یہ فینٹا مانگ رہی ہیں۔‘‘ میں نے لڑکے سے کہا۔
اُس نے جلدی سے بوتل بالٹی میں سیدھی رکھ دی اور فینٹا کا مشروب عورت کو پیش کردیا۔
’’تم بوتل پی رہے تھے؟‘‘ میں نے اس لڑکے سے پوچھا۔
’’نہیں جی!‘‘
’’تو یہ کیا تھا؟‘‘
’’پانی!‘‘
’’پانی…؟‘‘
’’جی… خالی بوتل میں پانی بھر کر برف میں رکھ لیتا ہوں، خوب ٹھنڈا ہوجاتا ہے۔ گرمی میں پیاس بہت لگتی ہے نا۔‘‘ اس نے پھر آدھی بوتل نکالی اور پانی حلق میں انڈیلنے لگا۔ میں چند ساعت اسے غور سے دیکھتی رہی۔ یکایک مجھے خیال آیا یہ بھی آخر بچہ ہی تو ہے،کیا اس کا جی نہ چاہتا ہوگا فینٹا، سیون اپ یا کوک پینے کو؟ اتنی بڑی آزمائش وہ ہر وقت اٹھائے پھرتا ہے، نہ جانے کیوں مجھے اس بچے سے ہمدردی سی ہونے لگی۔ میں نے نرمی سے پوچھا: ’’کیا تم بوتل نہیں پیتے؟‘‘
’’دس روپے کی بوتل ہے بیگم صاحبہ!‘‘ اس نے تلخ مسکراہٹ کے ساتھ کہا: ’’میری تو سارے دن کی کمائی بیس روپے ہوتی ہے، بوتل کہاں سے پیوں گا؟‘‘
’’تم دن بھر بوتلیں بیچتے پھرتے ہو؟ کیا تمہارا جی نہیں چاہتا کہ خود بھی ایک پی لو؟‘‘ میں نے اس کے چہرے کا جائزہ لیا۔
وہ کچھ نہ بولا۔ ہاں، اس کی بے رنگ آنکھوں میں ایک جاندار خواہش کی رمق ضرور جاگی تھی۔ میرا دل اس کی خاموشی پر اندر ہی اندر کٹنے لگا۔
’’بوتل پیوگے؟‘‘ میں نے شفقت سے پوچھا۔ اس نے بے یقینی سے مجھے دیکھتے ہوئے اپنا سر نفی میں ہلادیا۔
’’یہ لو دس روپے اور بوتل پی لو۔‘‘ میں نے بٹوے سے روپے نکال کر اس کی طرف بڑھا دیے۔
وہ حیرت زدہ سا رہ گیا۔ جانے یہ بات اس کی توقع سے بعید تھی یا اس کی اَنا پر تازیانہ! وہ عجیب سی نظروں سے کبھی مجھے اور کبھی میرے ہاتھ میں پکڑے ہوئے نوٹ کودیکھ رہا تھا۔
’’لے لو بیٹے! کوئی بات نہیں! میں نے ابھی ابھی اتنے بچوں کو بوتلیں دلائی ہیں، ایک تم بھی پی لو۔‘‘ میں نے ممتا بھرے انداز میں اصرار کیا۔
’’نہیں جی … نہیں!‘‘ وہ ہکلاتے ہوئے بولا اور پیچھے ہٹ گیا۔ اگرچہ روپے اس نے پکڑے نہ تھے، مگر اس کی آنکھوں میں زندگی کی چمک ضرور ابھر آئی تھی۔ وہ انکار کرتا رہا اور میں اصرار۔ آخر وہ بچہ ہی تھا ناں! جب اصرار میں خلوص کا رنگ گھل جائے تو اجنبیت خود بخود ختم ہوجاتی ہے۔ اس نے ہچکچاتے ہوئے نوٹ میرے ہاتھ سے لے لیے۔
’’پی لونا!‘‘ میں اس کے تاثرات دیکھنا چاہتی تھی، لیکن وہ شائستگی سے بولا: ’’ابھی پانی پیا ہے، جب پیاس لگے گی، پی لوں گا۔‘‘
کوئی اسٹیشن قریب آرہا تھا۔ گاڑی کی رفتار مدھم پڑنے لگی۔ ڈبے میں ہلچل شروع ہوگئی تھی۔ کچھ مسافروں کو یہاں اترنا تھا۔ شاید کچھ نئی سواریاں بھی اندر آجائیں، میں اپنی جگہ سے ہٹ گئی۔ اس بچے نے بالٹی اپنی کمزور بانہہ پر اٹھالی۔ وزن سے اس کا جسم دوسری طرف جھک سا گیا۔ آنکھوں میں تہ در تہ سوچوں کا غبار لیے اس نے مجھے تشکر آ میز نگاہوں سے دیکھا، پھر گاڑی کے رکتے ہی وہ ڈبے سے باہر نکل گیا۔
میں اپنے بچوں کے پاس آبیٹھی۔ ان کے سرخ و سفید، صحت مند چہروں اور خوب صورت لباس پر توجہ مرکوز ہوئی تو وہ بچہ میرے ذہن میں سوال بن کر ابھرا۔ اس کا بے رونق چہرہ، اجاڑ آنکھیں، نامکمل لباس اور سب سے بڑھ کر اتنی چھوٹی سی عمر میں اس کا بڑے بوڑھوں جیسا تیکھا رویہ… کون جانے بیس پچیس کلو وزنی بالٹی اٹھانے والے، جھکے اور تھکے ہوئے بازو پر خاندان کے کتنے افراد کا بوجھ ہے؟ میں لاشعوری طور پر اس لڑکے کا اپنے بچوں سے موازنہ کرتی رہی۔ جرم کا احساس مجھے ڈسنے لگا۔ یوں محسوس ہوا جیسے اس بچے کی زبوں حالی کے ذمے دار ہم سب لوگ ہیں۔ وہ بچہ بھی حساس دل و دماغ رکھتا ہے، اس کے دل میں بھی معصوم خواہشیں ہمکتی ہوں گی… لیکن … لیکن وہ شاید بچپن کی حدیں پھلانگ کر وقت سے پہلے ایک بردبار کماؤ مرد بن گیاہے۔ حالات کی ستم ظریفی اسے ہی تو کہتے ہیں۔
بچوں نے کھانا مانگا تو میں اپنے خیالات سے چونکی۔ سیٹوں کے درمیان تھوڑی سی جگہ بناکر میں نے دو بڑے بڑے ٹفن کیریئر نکالے۔ قیمہ، پراٹھے، انڈے، بھنی ہوئی مرغی اور میٹھے چاول پلیٹوں میں باری باری ڈالنے لگی۔ واقعی بھابھی نے بڑا تکلف کیا تھا۔ کھانے کے دوران سب بچے چھینا چھپٹی کرنے لگے۔ وہ مزے سے قیمہ، انڈے نگل رہے تھے۔ ایک پل نچلے بیٹھنا انہیں آتا بھی کیسے؟ یہ ان کی عمر کا تقاضا تھا۔ سارے بچے ایسے ہی تو ہوتے ہیں۔ لیکن وہ بچہ! میں پھر سوچنے لگی۔
کھانا کھانے کے بعد کچھ دیر بعد کوئی دوسرا بوتلوں والا آگیا۔ یہ ایک ادھیڑ عمر مرد تھا۔ بچوں نے ضد کی۔ میںنے ڈانٹا لیکن وہ بھلا کیسے مانتے؟ گرمی بھی خوب تھی۔ آخر انہیں بوتلیں دلانی ہی پڑیں۔ بچے بوتلوں سے بھری بالٹی کے گرد جمع ہوکر اپنی اپنی پسند کا مشروب لیتے رہے۔ کتنی بے فکری تھی، انکے انداز میں! میرا جی چاہا وہ بچہ پھر سے آجائے تو میں اسے بوتل دلاؤں۔ ایک نہیں، بہت سی۔ اتنی کہ اس کی نگاہوں کی محرومیاں سیراب ہوجائیں۔
باقی راستہ جیسے تیسے کٹ گیا۔ خدا خدا کرکے ریل گاڑی اسٹیشن پر رکی۔ میںنے سامان سمیٹا۔ چھونے بڑے بچوں کو محتاط ہوکر ٹرین سے اترنے کی تلقین کی۔ مجھے یقین تھا کہ بھائی جان اسٹیشن پر آئے ہوں گے، چنانچہ باقی ذمہ داری ان کے سر ہوگی۔
ریل سے اتر کر میں نے پلیٹ فارم پر نگاہ ڈالی۔ بھائی جان کہیں بھی نظر نہ آئے۔ میں گھبرا گئی۔ رش خاصا تھا، لیکن حواس مجتمع کرتے ہوئے باری باری بچوں کو اتارا، پھر سامان اٹھوایا، اور پلیٹ فارم ہی پر ایک بک اسٹال کے پاس بھائی کا انتظار کرنے لگی۔ بچے یہاں بھی شرارت سے باز نہ آئے۔ کبھی سامان پر چڑھ جاتے، کبھی اسٹال کی طرف لپکتے۔ جازی اچانک نلکے کی جانب دوڑگیا۔ پپو اور فری کے ہاتھوں میں ککو اور جمی کے ہاتھ میں پکڑا کر میں جازی کو پکڑنے لپکی۔ اسے کان سے پکڑ کر واپس لائی تو ایک پان بیڑی والے کے پاس مجھے وہی بوتلوں والا نوخیز لڑکا نظر آگیا۔ غیر ارادی طور پر میں تیزی سے اس کے پاس پہنچی۔ بچے کی پشت میری طرف تھی اور وہ خوانچے والے سے دو روپے کی بیڑیوں کے بنڈل لے رہا تھا۔ آگ کی ایک لپک تھی جو سرسے اٹھی اور میرے تن بدن میں پھیل گئی۔ اتنا کم عمر بچہ اور تمباکو نوشی! مجھے خیال آیا کہ یہ انہی روپوں کی بیڑیاں خرید رہا ہے جو میں نے کوک پینے کے لیے اسے دیے تھے۔ لیکن میرے اصرار کے باوجود اس نے بوتل نہیں پی تھی، اس لیے کہ اسے تو بیڑیاں خریدنی تھیں۔
دکھ اور کرب کے ملے جلے احساس نے مجھے آتش زیرپا کردیا۔ یہ بچے کسی ہمدردی کے مستحق نہیں ہوتے۔ ان کی شکلوں سے انسان دھوکا کھا جاتا ہے۔ مجھے سخت غصہ آرہا تھا۔ وہ بیڑی کے کئی پیکٹ لے کر مڑا۔ میں اس کے عین سامنے کھڑی ہوگئی۔
’’بدتمیز! ذلیل… میں نے تجھے روپے بوتل پینے کے لیے دیے تھے، مگر تو بیڑیاں خرید رہا ہے، اتنی سی عمر میں نشہ کرتا ہے؟‘‘ میں اس کے کان مروڑتے ہوئے چیخی: ’’بتا یہ انہی روپوں کی لی ہیں ناں جو میں نے تجھے شریف اور معصوم سمجھ کر دیے تھے۔‘‘
وہ چپ چاپ کھڑا تھا۔ میرے ڈانٹنے سے بھڑکا نہیں۔ اس کے چہرے پر کرب کے آثار نمایاں ہوئے۔ میں نے اُس کا کان چھوڑ دیا اور آواز میں نرمی پیدا کرتے ہوئے کہا: ’’تم ابھی بہت چھوٹے ہو، اتنی کم عمر میں بیڑی نہیں پینی چاہیے۔ یہ سینہ جلا ڈالتی ہے۔‘‘
’’یہ میں نے اپنے لیے نہیں خریدیں۔‘‘ اس نے تھوک نگلتے ہوئے بھرائی سی آواز میں جواب دیا۔
’’تو اور کس کے لیے خریدی ہیں؟‘‘ میں سٹپٹا کر بولی۔
’’اپنے باپ کے لیے۔‘‘ وہ بغیر آنسوؤ کے رودیا۔
’’تیرا باپ نشہ کرتا ہے تو خود تو بھی کرتا ہوگا۔‘‘ میں نے بے رخی سے کہا۔ ’’میں تو نہیں … وہ … وہ… بہت نشہ کرتا ہے۔ بیگم صاحبہ! ہر وقت بیڑی پیتا رہتا ہے اور جب بیڑی نہ ملے تو میری ماں کو مارتا ہے … میں نے … میں نے آپ کے روپے سے اس کے لیے بیڑیاں خریدی ہیں، یوں ایک، دو روز تو وہ میری ماں کو نہیں مارے گا… میں اپنی ماں کو پٹتے نہیں دیکھ سکتا…‘‘ اس کی آواز حلق میں گھٹ کر رہ گئی اور ویران آنکھوں میں نمی امنڈنے سے پہلے وہ تیز تیز قدم اٹھاتا وہاں سے چلا گیا۔
حقیقت بدگمانی کے اندھیروں میں زیادہ دیر نہیں چھپ سکتی۔ اس نوعمر لڑکے کے الفاظ کی سچائی میرے دل کا غبار دھوگئی۔ بے رحم حالات کے نشیب و فراز میں آزمائش کے مرحلوں سے گزر کر کسی کے لیے قربانی دینا بڑا ہی کٹھن کام ہے۔ اسے میں دل ہی دل میں سراہے بغیر نہ رہ سکی۔
——