ناریل کا پیڑ

مرسلہ: نویرہ عائشہ

کہتے ہیں کہ اب سے سینکڑوں برس پہلے ہندوستان کے ایک بادشاہ کے دل میں یہ خواہش ہوئی کہ وہ مصر کے شہنشاہ کو کوئی تحفہ بھیجے۔ لیکن سوال یہ تھا کہ تحفہ ہو تو کیسا ہو۔ بادشاہ نے اپنے درباریوں سے رائے لی۔ بادشاہ کی خواہش یہ تھی کہ تحفہ عجیب و غریب ہی نہ ہو بلکہ شاندار اور انوکھا بھی ہو۔ ایسا تحفہ جو کبھی کسی نے نہ بھیجا ہو۔ بادشاہ نے بڑے بڑے عالموں اور پنڈتوں کو بلایا اور ان سے رائے لی۔ آخر سب نے مل کر سوچا اور ان کی سمجھ میں ایک بات آگئی۔ وہ سب مل کر بادشاہ کے پاس گئے اور بولے:
’’مہاراج! ہم نے ایک ایسا انوکھا تحفہ سوچا ہے جو آج تک کسی نے نہ بھیجا ہوگا۔ ایک ایسا جہاز بنوائیے جو صرف ناریل کے درخت کی لکڑی کا بنا ہو اور اس کے اندر ناریل کی ہی مختلف چیزیں ہوں۔ ناریل کے علاوہ اس کے اندر کوئی چیز نہ ہو پھر اس کو مصر کے شہنشاہ کو بھیج دیجیے۔ یہ تحفہ کتنا پسند کیا جائے گا۔‘‘
بادشاہ کو یہ رائے پسند آئی۔ چند ہی روز میں ایک جہاز بن کر تیار ہوگیا۔ اس کے تختے سے لے کر سارا جہاز ناریل کے پیڑ کی لکڑی کا بنا تھا۔ ایک ناریل کے پیڑ کے تنے کا مستول بنایا گیا۔ ناریل کے اوپر جو جٹے ہوتے ہیں جن کو اکثر لوگ بیکار سمجھ کرپھینک دیتے ہیں اس کے باریک جٹوں کو بن کر اس کا بادبان تیار کرلیا گیا۔ موٹے جٹوں سے رسے بنائے گئے۔ سامان رکھنے کے لیے جو صندوق بنائے گئے وہ بھی ناریل کی لکڑی کے تھے۔ غرض جہاز کا سارا فرینچر ناریل کے کسی نہ کسی حصے کی لکڑی کا بنا۔ اب سوال کھانے پینے کے برتنوں کا تھا۔ ناریل کا خول جس کے اندر ناریل ہوتا ہے۔ وہ اس کام میں لایا گیا۔ اس خول کے اندر کاریگروں نے بڑا خوبصورت باریک کام کردیا اور ان کو پالش کرکے چمکدار بناڈالا۔ اس کے بعد پھر ناریل ہی کے ریشوں سے قالین، چٹائیاں، کمبل، جھاڑو، برش، صندوق، پنکھے، ٹوکریاں مختلف خوشبوؤں سے معطر ناریل کا تیل اور پانی، ناریل سے بنی ہوئی مٹھائیاں ناریل کے تیل سے بنا ہوا صابن، غرض بے شمار چیزیں بناکر اکٹھا کرلیں۔ اور یہ ناریل کا جہاز مصر کے شہنشاہ کو تحفے کے طور پر بھیجا گیا۔
مصر کا بادشاہ اس انوکھے تحفے کو دیکھ کر دنگ رہ گیا اور اس کو ہندوستان کے رہنے والوں کی عقل اور دانش کا قائل ہونا پڑا۔ اور دھیرے دھیرے دنیا کے اور لوگوں کو بھی معلوم ہوگیا کہ ناریل کتنا کارآمد پیڑ ہے۔ پھر تو آہستہ آہستہ ملایا، بونیو، سیلون اور افریقہ وغیرہ میں بھی ناریل کے درخت بوئے گئے۔ پہلے لوگوں کا خیال تھا کہ ناریل کے درخت صرف ساحلی علاقوں میں سرسبزہ رہ سکتے ہیں۔ لیکن پھر ملایا کے لوگوں نے ایسے تجربے کیے جس سے یہ ثابت ہوا کہ ساحلی علاقوں کے علاوہ کئی سو میل دور کے فاصلے پر بھی یہ درخت کامیابی سے بوئے جاسکتے ہیں۔ اب تو ناریل سمندر سے اور زیادہ دور کے علاقے میں بھی بویا جاتا ہے۔ لیکن ناریل کی پیداوار سرد ملکوں میں نہیں ہوسکتی۔ اس کے لیے گرم علاقے ہی موزوں ہوتے ہیں۔
ناریل کے درخت کی اونچائی اسی فٹ تک ہوتی ہے۔ اس کی جڑ کا قطر ایک فٹ سے ڈیڑپ فٹ تک ہوتا ہے۔ ناریل کا پیڑ جب لگایا جاتا ہے تو پانچ چھ سال تک پھل نہیں دیتا۔ اس کے بعد چھ ناریل فی درخت کے حساب سے پیدا ہوتا ہے۔ اس کے اگلے سال پھر چالیس ناریل پیدا ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ جب اس کی عمر دس سال ہوتی ہے تو اسی ناریل ہونے لگتے ہیں۔ ناریل کے درخت کے اوسط عمر ستر یا اسی سال کی ہے۔ بعض درخت سو سال تک پھل دیتے رہتے ہیں۔ جب ناریل پک جاتے ہیں تو آپ ہی درخت سے گڑپڑتے ہیں۔ عام طور پر ناریل رات کے وقت سے گرتے ہیں۔ یہ بھی اچھا ہے اس لیے کہ اگر دن کے وقت یہ گریں تو نہ جانے کتنوں کے سر پھوٹیں۔ لیکن بونے والے اس کے گرنے کا انتظار نہیں کرتے۔ وہ خود سمجھ جاتے ہیں کہ اب ناریل پک گیا اور وہ پیڑ پر چڑھ کر اسے توڑ لیتے ہیں اور نیچے پھینکتے جاتے ہیں۔ سوچئے اگر قدر نے اس کو اچھی طرح محفوظ نہ کردیا ہوتا تو نیچے گرتے گرتے اس کے ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتے۔ اسی لیے اس پر قدرت نے آدھے انچ کی لکڑی کی سخت تہہ چڑھا دی۔ لیکن اس کے بعد بھی اونچائی سے گرنے کے بعد یہ ٹوٹ سکتا تھا اس لیے قدرت نے اسے ریشے دار جٹوں سے ڈھک دیا ہے۔ تاکہ اس کو نقصان نہ پہنچ سکے۔
یہ ہے مختصر سی کہانی اس عجیب و غریب درخت کی۔ جس سے ان گنت چیزیں بنتی ہیں۔ لوگ کہتے ہیں کہ اگر کوئی چاہے تو اپنی ضروریات کی تمام چیزیں ناریل کے پیڑ سے حاصل کرسکتا ہے۔
——

 

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں