دانش کے ابو بازار سے کیلے لائے تو اس کی امی نے اسے کھانے کے لیے دیتے ہوئے کہا: چھلکے راستے میں مت پھینکنا‘‘ دانش اپنے ہاتھوں میں کیلے لیے اپنی امی کی نصیحت کو سنی ان سنی کرتا ہوا گھر سے نکلا اور کیلے کھاکر چھلکے بیچ راستے میں پھینک دیے۔ پھر وہ انتظار کرنے لگا کہ کوئی راہ گیر وہاںسے گزرے اور پھسل کر گر جائے۔ مگر اس وقت سڑک سے کوئی راہ گیر نہیں گزر رہا تھا کچھ دیر انتظار کرنے کے بعد دانش بور ہوگیا اور گھر واپس آگیا۔
دانش کا بڑا بھائی جو اپنے کمرے میں پڑھائی کر رہا تھا، اس کے سامنے میز پر پانی کا ایک گلاس رکھا ہوا تھا۔ دانش اچھل کود کرتا ہوا وہاں سے گزرا تو دھکا لگنے سے پانی کا گلاس گر پڑا اور اس کے بھائی کی کتاب گیلی ہوگئی۔ یہ دیکھ کر اس کا بھائی چیختا ہوا دانش کی طرف بڑھا۔ ڈر کے مارے دانش گھر سے نکل کر بھاگا۔ گھر سے باہر راستے میں اسی نے کچھ دیر پہلے کیلے کے چھلکے پھینکے تھے مگر بدحواسی میں وہ یہ بات بھول گیا اور دوڑتا ہوا اسی جگہ جاپہنچا۔ پھر جیسے ہی اس کا پیر کیلے کے چھلکے پر پڑا وہ زور سے پھسل کر گر پڑا اس کا سر کسی پتھر سے ٹکرا گیا اور سر سے خون بہنے لگا۔ کہنی اور گھٹنے میں بھی چوٹ آئی۔
دانش کا بھائی جو اس کے پیچھے دوڑتا آرہا تھا۔ وہاں پہنچا اور اسے اٹھا کر اندر لے گیا دانش زور زور سے رو رہا تھا۔ اسے اپنی ماں کی بات نہ ماننے کی سزا مل چکی تھی۔
اس واقعے سے ہمیں سبق لینا چاہیے کہ ہم ہمیشہ اپنے بڑوں کا کہنا مانیں اور جس بات سے وہ منع کریں اس سے رک جائیں۔