نام سے شخصیت و ذہنیت کی پہچان ہوتی ہے

عقیدت اللہ قاسمی

پرانی دلی ریلوے اسٹیشن سے سوئی والان میں واقع سہ روزہ دعوت کے دفتر میں ڈیوٹی کرنے کی غرض سے چلا جارہا تھا کہ چاندنی چوک فوارہ سے کچھ پیچھے ایک لڑکے نے سوال کیا۔ انکل جامع مسجد کدھر ہے؟ اپنے موڈ میں رواں دواں تھا زیادہ توجہ نہ دی۔ راستے کے موڑ بھی تھے ایک بار میں راستہ سمجھا دینا کچھ مشکل بھی تھا۔ یہ کہہ کر پیچھا چھڑانے کی کوشش کی۔ سیدھے آگے چلے جاؤ۔ بچے نے کیا سوچا ہوگا۔ چہرہ دیکھا ادھر ادھر دیکھا، پھر پوچھ لیا: انکل! کیا آپ ادھر ہی جارہے ہیں؟ اثبات میں جواب پاکر بچہ کچھ ساتھ لگا۔ بچہ کو ساتھ لگتے دیکھ کر موڈ بدلا۔ اب اس سے سوالات کا سلسلہ شروع کیا۔ بات چیت شروع ہوئی۔ نام پوچھا اس نے بتایا: ’’قمر عالم محمود‘‘۔
۱۲، ۱۳؍سال کا لڑکا تھا۔ کپڑے کچھ میلے کچیلے تھے۔ اس نے اپنا نام بڑے سلیقے سے تین لفظوں میں بتایا۔ تلفظ اور ادائیگی بھی اچھی تھی۔ ایک دم جھٹکا لگا۔ نظریں جما کر دیکھا تین لفظوں میں نام! روز مرہ کی زندگی میں اور آج کل کے حالات میں کم ہی دیکھنے و سننے کو ملتا ہے۔ دو لفظوں میں قمر عالم بھی بتاسکتا تھا۔ ایسا ویسا ہوتا تو قمرو یا کمو ہی ہوتا۔ یقینا کسی مہذب، علمی اور خوشحال گھرانے کا بچہ ہے۔ مگر کپڑے تو میلے ہی پہن رکھے ہیں۔
تجسس کی رگ پھڑکی، تفصیلات کرید کرید کر معلوم کرنا شروع کیا۔ اس نے بتایا مشرقی یوپی کے ضلع سلطان پور خودشہر ضلع ہیڈ کوارٹر کا رہنے والا تھا۔ باپ سرکاری ملازم ہیں کچھ دن پہلے گھر میں کوئی چیز گم ہوگئی تھی۔ والد کو بڑے بیٹے پر شک ہوا۔ خیال ہوا اس نے چرالی ہے۔ اور اب بتا نہیں رہا ہے، جھوٹ بول رہا ہے۔ مغلوب الغضب آدمی نے بچے کو خوب مارا، خوب مارا یہاں تک کہ بعد میں اسپتال میں داخل کرنا پڑا۔
اب پھر کوئی چیز گم ہوگئی تھی، اس بار شک کی سوئی قمر عالم محمود کی طرف گھوم گئی۔ تفتیش و انکوائری کی۔ چھپاتا یا چراتا تو بتاتا۔ باپ نے یقین نہیں کیا۔ آفس جانے کی جلدی تھی اعلان کردیا اگرشام کو چیز نہ ملی تو جو حشر بڑے بھائی کا ہوا تھا وہ تیرا کردوں گا۔بڑے بھائی کی پٹائی کانقشہ نظروں کے سامنے آگیا۔ اس کی یاد تازہ ہوگئی۔کرتا تو کیا کرتا۔ اسکول میں پڑھتا تھا اور کوئی راستہ سمجھ میں نہیں آیا۔ جیب خرچ کے لیے چار روپئے ملے تھے، اسکول جانے کی بجائے ریلوے اسٹیشن پہنچ گیا۔ دہلی آنے کے لیے ٹرین کھڑی تھی۔ چپکے سے بغیر ٹکٹ لیے ہی اس میں سوار ہوگیا۔ سفر میں کپڑے گندے میلے ہوگئے۔ راستہ میں بھوک لگی، چار روپئے کا کچھ لے کر کھالیا۔ دہلی تک پہنچا تو جیب کے علاوہ آنتیں بھی خالی ہوچکی تھیں۔
باپ کی شدت پسندی پر غصہ آیا ساتھ ہی خیال آیا۔ یہ ملک کی راجدھانی دہلی آگیا، اب ا س کا کیا ہوگا؟ نئی جگہ، نئے لوگ، کوئی اپنا نہیں۔ نہ جانے کس قسم کے لوگوں کے ہاتھ لگ جائے۔ اور اس کی زندگی کیا سے کیا ہوجائے۔ اس نے بتایا دور کے رشتہ کی ایک پھوپھی زاد بہن جامع مسجد کے پاس رہتی ہے۔ بہنوئی موٹر کا کام کرتے ہیں۔ کہا بھئی یہ دہلی ہے، دہلی کی جامع مسجد کو تم نے سلطان پور کی جامع مسجد سمجھ لیا۔ اتنی بنیاد پر کوشش کرنے سے سلطان پور میں کسی کاپتہ چلا لینا ممکن ہے، دہلی میں جہاں اوپر والا نیچے والے کو، دائیں والا بائیں والے کو نہیں جانتا یہاں ڈھونڈھ پانا تقریباً ناممکن ہے۔
بات کرتے خود سے مانوس کرتے طرح طرح کی باتیں سوچتے قمر عالم محمود کو ساتھ لے کر چلتا رہا۔ اس کے دماغ میں کوئی ایسی ویسی بات نہ آنے پائے، اس کوشش کے تحت جامع مسجد کے اندر گھمایا۔ ایک ایک چیز دکھائی۔ بتائی پھر موٹر پارٹس والوں سے اس کے بہنوئی کے سلسلہ میں انکوائری شروع کی کہیں سے کوئی نشاندہی نہیںہوئی۔ کئی دکانداروں نے کہانی سننے کے بعدکہا اسے ہمارے پاس چھوڑدو۔ ہم رکھ لیں گے۔ مگر ہر ایک کی بات سنی اَن سنی کرتے ہوئے آگے بڑھتا رہا، کہ یہی روح فرسا اندیشہ دل و دماغ پر سوار تھا اگر اسے یوں ہی چھوڑ دیا تو ایک اچھے گھر کا نونہال تباہ و برباد ہوجائے گا۔ موٹر پارٹس والے اس کوکالا پیلا کردیں گے۔ کوئی چائے والا یا ہوٹل والا برتن دھلوائے گا۔ بھوکا پیاسا رہے گا کسی طرح پیٹ بھرنے کی کوشش کرے گا کہیں سماج دشمن عناصر کے ہتھے چڑھ گیا تو اس کی زندگی برباد کرڈالیں گے۔ جیب تراشی، چھین جھپٹ ماری یا چوری کرائیں گے۔ ہاتھ پاؤں توڑ کر بھیک منگوائیں گے۔
کسی طرح دعوت کے دفتر پہنچے۔ محفوظ الرحمن مرحوم ایڈیٹر تھے۔ ان کو صورتحال بتائی۔ فرمایا اب تمہارا کیا منصوبہ ہے؟ کیا چاہتے ہو؟ عرض کیا : دماغ پریشان ہے کوئی فیصلہ نہیں کرپا رہا ہوں۔ گاؤں میں اپنے گھر لے جاکر نہیں رکھ سکتا۔ یہ وہاں سے بھی فرار ہوسکتا ہے۔ چاہتا ہوں کہیں پیار و محبت کے ساتھ پوری نگرانی میں اس کو رکھا جائے۔ اور اس کے گھر لیٹر لکھ دیا جائے، اس کے گھر والے آجائیںگے، لے جائیں گے۔
فرمایا جب تم اتنا سوچ رہے ہو تو اسے میرے حوالے کردو۔ ہمارا بیٹا دانش رحمن گڈو اس کا ہم عمر ہے،اس کے ساتھ ہمارے گھر رہے گا۔ مجھے کیا اعتراض ہوسکتا تھا۔ خواہش پوری ہورہی تھی۔ فوراً ساتھ لے گئے کہا جاؤ باتھ روم میں نہالو۔ اتنے میں گڈو کے کپڑے نکال کر رکھ دیے جو اس کو بالکل فٹ آگئے۔ کھانا کھلایا۔ وہ کچھ دیر گڈو اور چھوٹی سی شائستہ کے ساتھ کھیلا، بچوں سے مانوس ہوا۔ اسے کچھ اپنائیت کا احساس ہوا گھر میں ادھر ادھر گھومنے پھرنے لگا۔ ہر چیز کو بلاتکلف استعمال کرنے لگا۔
محفوظ الرحمن صاحب نے آکر بتایا ۔ تمہارا خیال بالکل صحیح ہے۔ اچھے کھاتے پیتے خوشحال گھرانے کا چشم و چراغ ہے۔ ابھی ہر گھر میں ٹی وی اور فریج جیسی چیزیں نہیں ہیں، اس عمر کا ہر بچہ ان چیزوں کو نہیں جانتا مگر اس کے گھر میں یہ سب چیزیں موجود ہیں۔ یہ ان کو جانتا اور استعمال کرتا ہے۔ اس لیے ہمارے گھر میں ہر چیز کو بلا تکلف اور کمالِ سلیقہ سے استعمال کررہا ہے۔
اس کے گھر کے پتہ پر خط لکھا۔پندرہ دن گزر گئے کوئی نہیں آیا۔ پھر رجسٹری کی کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ آخر ٹیلی گرام دیا، مگر سب بے سود رہا۔ بالآخر سلطانپور کے دعوت کے ایجنٹ کے بنڈل میں تفصیلی خط لکھ کر رکھا کہ یہ لڑکا آپ کے شہر کا ہے ولدیت اور پتہ یہ بتاتا ہے۔ ہمارے پاس ہے ہم اس کے گھر بار بار لکھ چکے ہیں، جواب نہیں مل رہا ہے، آپ پتہ کرکے اس کے گھر والوں کو بھیج دیں وہ اسے آکر لے جائیں۔
قریب دو ماہ بعد دو افراد نے گیٹ پر آکر پوچھا کیا دعوت اخبار کا آفس یہی ہے۔ معلوم کرنے پر پتہ چلا ان میں ایک قمر عالم محمود کے والد تھے۔ انھوں نے بتایا جب سے یہ فرار ہوا سارا گھر پریشان ہے۔ جس کو کہیں سے کوئی پتہ چلتا ہے اسے ڈھونڈنے کے لیے نکل کھڑا ہوتا ہے۔ کل کلکتہ میں دھکے کھانے کے بعد اپنے شہر پہنچا تھا، گلی کے نکڑ پر پان کے کھوکھے سے بیڑی وغیرہ لینے کے لیے رکا، چہرہ اترا ہوا تھا کسی نے پوچھا: کیا کہیں کچھ پتہ چلا؟ انکار کرنے پر طرح طرح کی باتیں ہونے لگیں۔ ایک صاحب نے مداخلت کرکے حقیقتِ حال جاننی چاہی۔ انھیں بات بتائی گئی تو کہنے لگے ابھی ابھی جمعہ کی نماز میں جامع مسجد میں اعلان کیا گیا ہے۔ ہمارے شہر کا کوئی بچہ دہلی میں ہے، آپ امام صاحب سے جاکر بات کریں، ممکن ہے آپ ہی کا بچہ ہو۔ امام صاحب نے آپ کے ایجنٹ سے ملوایا انھوں نے آپ کا خط دیا، ابھی گھر بھی نہیں پہنچا تھا، سیدھا دہلی کے لیے روانہ ہوگیا۔
وہ اپنے بیٹے کو اپنے ساتھ لے گئے۔ بچہ نے آگے کی تعلیم جاری رکھی۔ سرٹیفکیٹ حاصل کیا۔ پھر دہلی آکر کمپیوٹر انجینئرنگ کا کورس کیا، چند بار محفوظ الرحمن صاحب کے گھر بھی آیا۔ ایک بار محفوظ الرحمن صاحب نے بتایا تھا کہ وہ کمپیوٹر انجینئر بننے کے بعد آیا تھا، اس نے کہا تھا امریکہ کا ویزا مل گیا ہے۔ میں جارہا ہوں۔
ہمیشہ خیال آتا ہے اگر اس نے ایک اچھا نام اور وہ بھی تین لفظوں میں نہ بتایا ہوتا تو کتنے بچے پھرتے ہیں، اس کے بارے میں کوئی خیال بھی نہ آتا۔ حفیظؔ میرٹھی مرحوم نے اسی لیے تو کہا تھا:
نام اپنے ذروں کے بھی تم شمس و قمر رکھنا
کہ اس سے ذہنوں کی بلندی کا پتہ چلتا ہے
اللہ تعالیٰ نے خود اپنے بارے میں فرمایا ہے: وللّٰہ الاسماء الحسنی فادعوہ بہا۔’’ اللہ کے اچھے اچھے نام ہیں، اسے انہی ناموں سے پکارا کرو۔‘‘
اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اپنے نام اچھے رکھا کرو۔ ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: رسول اللہ ﷺ برے ناموں کو بدل کر اچھا نام رکھ دیا کرتے تھے۔ بخاری میں عبدالحمید بن جبیر بن ہاشم کی روایت ہے کہ سعید بن المسیب نے بتایا کہ ان کے دادا کا نام حزن تھا، رسول اللہ ﷺ نے سنا تو فرمایا: تم اپنا نام بدل کر سہل رکھ لو۔ انھوں نے کہا: میرے باپ نے میرا جو نام رکھا ہے میں اس کو نہیں بدلوں گا۔ ابن مسیب نے کہا: اس کے بعد سے ہمارے خاندان میں اب تک حزونت چلی آرہی ہے۔ (یہ اسی نام کا اثر ہے)
ایک خاتون نے اپنا نام مشرکین بتایا۔ اعتراض کرنے پر کہ یہ نام کیسے رکھ لیا۔ انھوںنے حقارت کے ساتھ دیکھتے ہوئے کہا ہوں ویسے ہی مولبی بنابیٹھا ہے، یو کران سریپھ میں ہے۔ (ویسے ہی مولوی بنا بیٹھا ہے، یہ قرآن شریف میں ہے) وہ بیچاری نہیں جانتیں مشرکین کا مطلب کیا ہوتا ہے اور قرآن شریف میں تو خنزیر، ابلیس، شیطان، فرعون،ہامان، اور قارون بھی ہے۔ یہ تو ہمیں دیکھنا ہوگا کہ نام کیا رکھیں، کیسا رکھیں۔ جو نام رکھ رہے ہیں اس کا مطلب کیا ہے، پہلے لوگ چھدا، منگلا، شبراتی اور بدھو وغیرہ اپنے بچوں کے نام رکھ لیتے تھے۔ اب کچھ پڑھنے لکھنے لگے ہیں تو پڑھائی ناقص ہے، خاص طور سے عورتوں کی پڑھائی کہ وہی عام طور سے بچوں کے نام رکھتی ہیں، اور انھیں ناموں و الفاظ کا مطلب معلوم نہیں ہوتا۔ بس کوئی لفظ اچھا لگا کسی دوسرے چھوٹے بڑے کا نام دیکھا اور رکھ لیا۔ یہ بھی نہیں دیکھا اصلی نام کیا ہے کیا یہ نام بگڑا ہوا تو نہیں ہے۔ اس کا کوئی مطلب بھی ہے یا نہیں اور مطلب ہے تو اچھا ہے یا برا۔ ریاض کے بھائی کا نام ریاس رکھ لیا۔ باسط کے بھائی کا نام باسد ہوگیا۔ دینو سینو بھی چلتے ہیں اور عبدالیاسین و عبدالنبی بھی دیکھے جاتے ہیں۔منشیرہ لفظ کسی ڈکشنری میں نہیںپایا جاتا۔ محشر کا مطلب ہے حشر کا میدان، اب کسی لڑکی کا نام محشر جہاں رکھنے کا کیا مطلب ہے۔ قرآن میں آگیا من تشاء جس کا مطلب ہے ’’جسے تو چاہتاہے‘‘ یہ تو ایک جملہ ہوگیا، اس میں نام کہاں سے آگیا؟ اس سے تو ذہنوں کی حالت اور ذہنیت کا پتہ چلتا ہے۔
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں