جون کا مہینہ تھا، دوپہر کا وقت اور شدت کی گرمی۔ مگر ڈرل ماسٹر صاحب ان سب سے بے نیاز اپنے فرائض کی تکمیل میں مصروف تھے۔ ان کو تنخواہ ڈرل کرانے کی ملتی تھی اس لیے اس چلچلاتی دھوپ میں بھی وہ لڑکوں سے ڈرل کرا رہے تھے، یہ دوسری بات ہے کہ وہ خود سائے میں کھڑے تھے۔
ڈبل مارچ کا حکم سنتے ہی لڑکوں نے میدان میں دوڑنا شروع کر دیا۔ ابھی میدان کا ایک چکر بھی پورا نہ ہوا تھا کہ رمیش یکایک گر پڑا۔ ڈرل ماسٹر نے یہ دیکھتے ہی زور سے ہالٹ کہا اور پسینے میں شرابور لڑکے رک گئے، ان کے چہرے تمتما رہے تھے۔ رمیش زمین پر خاموش پڑا تھا۔ ماسٹرصاحب دو لڑکوں کی مدد سے اسے اٹھا کر برآمدے میں لے آئے، اس کا سارا بدن بھیگ رہا تھا اور آنکھیں بند تھیں۔ ایک لڑکا دوڑ کر پانی لے آیا اور دو تین لڑکے اپنی کاپیوں سے اس پر ہوا کرنے لگے۔ ماسٹر صاحب پانی کے چھینٹے اس پر دے رہے تھے۔ یہ خبر فوراً اسکول میں پھیل گئی۔ ہیڈ ماسٹر صاحب بھی آگئے، چند منٹ بعد رمیش کو ہوش آیا۔ ہیڈ ماسٹر صاحب نے بڑی شفقت سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اسے تسلی دی اور پھر اپنے تھرماس سے برف کا پانی نکال کر اسے پلایا۔ اتنے میں چپراسی آگیا۔ ڈرل ماسٹر اور دو لڑکے رمیش کو چھوڑنے اس کے گھر چلے گئے۔ اس اچانک بے ہوشی کی بنا پر اس کے نام سے اسکول کا بچہ بچہ واقف ہوگیا۔
بہاریؔ بھی اسی لائن میں رمیش سے دو لڑکوں کے بعد تھا۔ رمیش کی یہ ناز برداری ہوتے دیکھ کر وہ سوچنے لگا کاش وہ رمیش کی جگہ ہوتا۔ اسی کی طرح ہیڈ ماسٹر صاحب اس کے سر پر بھی ہاتھ پھیرتے، اپنی تھرماس سے پانی پلاتے اور اسکول کے تمام لڑکے اس سے واقف ہوجاتے۔ کاش یہ خوش قسمتی رمیش کے بجائے اس کے حصے میں آتی۔ اسے اپنی بدقسمتی پر افسوس ہونے لگا اسے رہ رہ کر رمیش پر رشک آرہا تھا۔
رشک اس کے لیے نیا نہ تھا۔ جماعت میں بھی اسے اپنے ساتھیوں پر اکثر رشک آتا تھا۔ حساب کے گھنٹے میں جب ماسٹر صاحب سوال بول کر ٹہلنے لگتے تھے اور سارے لڑکے تیزی سے اس کے حل میں مصروف ہوجاتے تو بہاری بھی پوری توجہ سے سوال نکالنے لگتا۔ اس کی ہمیشہ یہ کوشش ہوتی کہ وہ سوال حل کر کے سب سے پہلے کھڑا ہوجائے اور جب جواب بالکل قریب ہوتا تو یکایک اسے کامتا اور ونود کھڑے نظر آتے اور یہ دیکھتے ہی اس کے سوال کی دنیا اجڑ جاتی اور اسے اپنا دل آپ ہی آپ بیٹھتا ہوا محسوس ہونے لگتا۔ اس نے ہر بار سعی کی کہ وہ سب سے پہلے کامیابی حاصل کرسکے۔ مگر اس کامیابی کے حصول میں ہر بار صرف چند لمحوں کی تاخیر ہو جاتی اور اسے محسوس ہوتا جیسے کامیابی اس کے قریب آکر اس کی گرفت میں آنے سے پہلے ہی کسی شریر بچے کی طرح اسے منہ چڑھا کر یکایک بھاگ جاتی ہے۔ ماسٹر صاحب کامتا اور ونود کو شاباشی دیتے اور شنکر اور کالی چرن کو ڈانٹتے، شنکر اور کالی چرن کا سوال ہمیشہ غلط ہوتا۔ لیکن ان کو اس کی کوئی پروا نہیں تھی۔ نہ ہی وہ اس خفگی سے متاثر تھے۔ حالاں کہ ماسٹر صاحب ہمیشہ ان دونوں کو کوہ نور اور شنکر کا نام لے کر شرم دلاتے۔ پورے درجے میں یہی چاروں نام حساب کے گھنٹے میں گونجا کرتے تھے۔ بہاری کا نام نہ اچھے طلبہ میں آتا نہ ہی اس کا شمار بروں میں تھا۔ یعنی اس کی حیثیت کسی لحاظ سے بھی قابل ذکر نہ تھی۔ حساب کے گھنٹے کے علاوہ انگریزی، جغرافیہ سائنس، ہندی غرضے کہ ہ رگھنٹے میں وہ ایک گم نام شخصیت کی طرح اپنا وقت گزارتا تھا۔ اچھے لڑکے شاباش پاتے تھے اور برے لڑکے بینچ پر کھڑے نظر آتے تھے۔ بنچ پر کھڑے ہوکر بھی ان بدشوق لڑکوں کی انفرادیت نمایاں رہتی۔ مگر اس کی کوئی بھی انفرادیت نہیں تھی، وہ کوئی امتیازی حیثیت نہیں رکھتا تھا۔
بہاری تاریخ میں اپنے آپ کو بہت تیز سمجھتا تھا۔ اسے شیر شاہ کا انتظامِ حکومت، اکبر کا سنہری دور، خلجی اور بلبن کے حملے، شیواجی کی بغاوت اور پانی پت کی لڑائیوں پر کافی عبور تھا اور بطلِ حریت سلطان ٹیپو کی شخصیت سے تو وہ اس درجہ متاثر تھا کہ اس کی بارعب اور پرشکوہ تصویر اس کی نظروں میں سما گئی تھی۔ اکثر اسے اپنے پر گمان ہونے لگتا کہ جیسے وہ خود سلطان ٹیپو ہے اور گھوڑے پر سوار فوج کی رہ نمائی کر رہا ہے۔ اس کی شمشیر برہنہ دشمنوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ رہی ہے اور اس کی فوج زندہ باد کے نعرے لگا رہی ہے۔ لیکن تاریخ پر اتنا عبور کرتے ہوئے بھی نہ جانے کیوں اسے ان حملوں اور لڑائیوں کے سن یاد نہیں ہوتے تھے۔ اس سلسلے میں اس کا خیال تھا کہ تاریخی واقعات یاد رکھنا ضروری ہیں۔ اگر سال یاد نہ بھی ہوں تو اس سے تاریخی واقعات پر کوئی اثر نہیں پڑتا اور نہ تاریخی حقائق بدلے جاسکتے ہیں۔ مگر تاریخ کے ماسٹر صاحب تو سنوں کو تاریخی حقائق سے زیادہ اہم سمجھتے تھے اور اسی لیے ان کی نظر میں بہاری کی کوئی وقعت نہیں تھی اور انھوں نے کبھی اس کا نام عزت و احترام سے نہیں لیا۔ البتہ ان کا یہ فقرہ سن کر:
’’یوں تو دنیا میں لاکھوں انسان پیدا ہوتے اور مرتے ہیں مگر حقیقی زندگی ان ہی لوگوں کی ہے جو مرنے کے بعد بھی زندہ رہتے ہیں اور ان کے کارناموں کی وجہ سے دنیا ان کو کبھی فراموش نہیں کرتی ہے۔‘‘
اس کا دل چاہنے لگا کہ وہ بھی کوئی ایسا کارنامہ انجام دے کہ اس کا نام رہتی دنیا تک زندہ رہے مگر ابھی تو اسے اسکول کے سب لڑکے بھی نہیں جانتے ہیں۔ کلاس ماسٹر صاحبان تک کی نظر میں ابھی تک وہ کوئی اہمیت حاصل نہیں کرسکا ہے۔ یہ خیال آتے ہی وہ بے حد غمگین ہو جاتا، اس کا معصوم دل پاش پاش ہو جاتا اور اس کی یہ بے ساختہ تمنا اس کے لاشعور میں دم توڑ دیتی اور وہ اپنے ناخن دانتوں سے چبانے لگتا۔
بہاریؔ اپنے ماں باپ کا اکلوتا بیٹا تھا۔ وہ تین بہنوں کے بعد اس وقت پیدا ہوا تھا جب کہ اس کے ماں باپ لڑکے کی پیدائش سے قطعی ناامید ہوچکے تھے۔ اس لیے اس کی پرورش بڑے لاڈ پیار سے ہو رہی تھی۔ ماں اسے راجہ بیٹا کہتی تھی۔ اس کے باپ نے بھی جو کہ ریلوے کے دفتر میں ایک معمولی کلرک تھا، اس سے بلند توقعات وابستہ کرلی تھیں۔ وہ اکثر اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا کرتا:
ایشور نے چاہا تو میرا بیٹا میرا نام روشن کرے گا۔ وہ بہت بڑا آدمی ہوگا۔ اور باپ کا یہ جملہ سن کر بہاری کو ایسا لگتا جیسے وہ بہت بڑا آدمی ہوگیا ہے اور سوچتے سوچتے اسے یاد آجاتا جیسے اس کے اسکول میں آنے والے وزیر تعلیم، جن کی آمد پر اسکول کو دلہن کی طرح سجایا گیا تھا دروازے بنائے گئے تھے، جھنڈیاں لگائی گئی تھیں اور کتنے مہمان بلائے گئے تھے، اسکول کے دروازے پر بینڈ بج رہا تھا، جب وزیر تعلیم آئے تھے تو کس طرح گولے چھوڑے گئے، لوگوں نے زندہ باد کے نعرے لگائے تھے، کتنے ہار ان کے گلے میں ڈالے گئے تھے اور وہ کس طرح مسکر امسکرا کر سب کے سلام کا جواب دے رہے تھے۔ خیالات کی ان ہی بھول بھلیوں میں بھٹک کر وہ خود کو وزیر تعلیم سمجھنے لگتا۔ سر سے پاؤں تک پھولوں میں لدا اور اس تصور ہی سے اس کے چہرے پر مسکراہٹ دوڑ جاتی اور اس کا باپ اس فردوسی مسکراہٹ کو دیکھ کر اس کی پیشانی فرطِ محبت سے چوم لیتا۔
لیکن جب بہاری تنہا ہوتا تو اس کے ذہن میں ایک عجیب سی ہلچل مچ جاتی اور بڑا بننے کی بے پناہ خواہش کے باوجود وہ اپنے آپ کو گندم کے اس دانے کی طرح سمجھتا جس کی سینکڑوں بوریاں روزانہ ادھر سے ادھر جاتی ہیں اور اگر راستے میں کوئی دانہ بوری سے نکل کر گر جاتا ہے تو کوئی اس کی طرف توجہ بھی نہیں دیتا، ایک حقیر سا دانہ! اس مرحلے پر اس کے دماغ میں ایک نئی خواہش ابھرتی، ایک نیا تصور پیدا ہوتا کہ وہ سڑک پر گیہوں کے اس حقیر دانے کی طرح کیوں گرے۔ اگر اسے سڑک پر گرنا ہی ہے تو اس طرح گرے کہ لوگ ٹھٹک جائیں، اس کے چاروں طرف بھیڑ لگی ہو، اس کے خون کے دھبے اس طرح سڑک پر پھیل کر اس کی موت کا اعلان کریں کہ دیکھنے والوں کے بے ساختہ آنسو آجائیں اور اخبار میں اس کا نام موٹے موٹے حروف میں چھپے اور اخبار میں نام کی اشاعت اسے زندہ وجاوید بنا دے کہ ہر کس و ناکس اس کے نام سے واقف ہوجائے۔ وہ اپنی اس شاندار موت پر خود بخود مسکرانے لگا۔ اخبارات کے موٹے موٹے حروف تیزی سے اس کی نگاہوں کے سامنے ناچنے لگے۔ اور وہ اس خوب صورت موت کے حسین تصور میں ڈوب گیا۔ یکایک ماں کی آواز نے اسے چونکا دیا۔
’’راجہ بیٹے کھانا کھالو۔‘‘
اس وقت اسے ماں کی یہ آواز بالکل اچھی نہ لگی اور نہ ہی اسے کھانے میں مزہ آیا۔ اخبار کے موٹے موٹے حروف کی لذت ان کھانوں میں بالکل نہ تھی اس لیے اس نے جھنجھلا کر چند لقمے کھاکر کھانا اپنے سامنے سے ہٹا دیا اور ماں اصرار ہی کرتی رہ گئی۔
عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ بڑا بننے کی خواہش بھی اسی تیزی سے بڑھتی ر ہی۔ مگر یہ جذبۂ بے اختیار کام نہ آیا اور میٹرک پاس کرنے کے بعد بہاری اپنے باپ کے ایک مہربان افسر کی سفارش سے محکمہ تعمیرات میں جونیئر کلرک مقرر ہوگیا۔ اس نازک دور میں اس آسانی سے ملازمت مل جانے پر اس کے باپ نے خدا کا شکر ادا کیا اور ست نرائن کی کتھا بڑے دھوم دھام سے کرائی۔ مگر بہاری کو اس ملازمت پر ذرا بھی خوشی نہ ہوئی اور اس کے ’’بڑے بننے‘‘ کے تمام تصورات اس ملازمت کے ملتے ہی خود بخود سرنگوں ہوگئے۔
کلرک کی زندگی یوں بھی کامیاب نہیں ہوتی اور پھر بہاری جیسے بڑا بننے کا خواب دیکھنے والے انسان کے لیے تو یہ زندگی بالکل ہیبے کیف تھی، اسے دفتری ماحول پسند نہ تھا مگر مجبوراً وہ آئین اور ضوابط میں جکڑی ہوئی قیدیوں کی سی زندگی گزار رہا تھا۔ اکثر اس کے دل میں یہ جذبہ پیدا ہوتا کہ اس کا نام اخبار میں چھپے۔ کیوں؟ اور کیسے؟ یہ اس کی سمجھ میں نہ آتا۔ افسانہ یا مضمون لکھ کر بھی تو اخبار میں نام شائع ہوسکتا ہے لیکن دو ہفتے کی مسلسل کوشش کے بعد بھی وہ ایک صفحہ تو کجا ایک سطر بھی نہ لکھ سکا۔البتہ ایک دستہ کاغذ ضرور ضائع ہوگیا اور اخبار میں نام چھپنے کی تمنا اسے چتا میں جلتی ہوئی لاش کی طرح معلوم ہونے لگی۔ اس نے اپنے آپ کو بہلایا، طرح طرح سے دلاسے دیے کہ شہر میں ہزاروں لاکھوں آدمی ہیں ان میں سے ہر ایک کا نام تو اخبار میں نہیں چھپتا۔ ہر شخص تو مشہور نہیں ہے اور ان ہی لاکھوں انسانوں میں سے ایک میں بھی ہوں۔ اگر ان کی طرح میرا نام بھی اخبار میں نہیں چھپتا تو نہ چھپے۔ اس طرح اس نے اپنے آپ کو بڑی حد تک مطمئن کر لیا تھا کہ ایک دن اس نے اس اخبار میں پڑھا کہ اسی کے محلے کے لالہ بنواری لال رئیس ایک ہائی اسکول نادار طلبہ کی تعلیم کے لیے کھول رہے ہیں، جس میں مفت تعلیم دی جائے گی اور اس کے سارے اخراجات لالہ جی خود برداشت کریں گے اور اس نیک کام کے لیے انھوں نے اپنی نصف جائداد وقف کر دی ہے۔ اخبارات میں نہ صرف لالہ جی کا نام چھپا تھا بلکہ ان کی تعریف میں ہر اخبار نے کچھ نہ کچھ لکھا تھا اور بعض اخبارات نے تو ان کی تصویر بھی شائع کی تھی۔ لالہ جی کی تصویر دیکھ کر نہ جانے کیوں اس کے دل پر گھونسا سا لگا۔ یہ بڈھے لالہ جی اپنی دولت کے بل بوتے پر زندہ وجاوید ہوگئے اور وہ رہ گیا۔ دوسرے دن جب اس کی نظر لالہ جی پر پڑی تو اسے ایسا لگا جیسے لالہ جی اسے دیکھ کر مسکرا رہے ہیں اور ان کے پوپلے چہرے پر جھریاں اس سے کہہ رہی ہیں۔
’’بہاری! تم بچپن سے اس بات کے لیے بیتاب ہو کہ تمہارا نام اخبارات میں شائع ہو۔ میں نے تمہارے دل کے اس چور کو کئی دن ہوئے دیکھ لیا تھا اور اصل بات تو یہ ہے کہ میں نے یہ سب ڈھونگ صرف اس لیے رچایا ہے کہ تم جلو، کڑھو اور حسد کے مارے تمہارا زندہ رہنا مشکل ہوجائے۔‘‘
لالہ جی کی فاتحانہ نگاہی کی وہ تاب نہ لاسکا اور ان کے چلے جانے کے بعد اس نے ایک موٹی سی گالی لالہ جی کو دی۔ یہ گالی اس بات کی غماض تھی کہ وہ زندگی بھر لالہ جی کی طرح نہیں بن سکتا اور نہ ہی اس کے پاس کبھی اتنی دولت ہوسکتی ہے کہ وہ لالہ جی کی طرح اپنی جائداد وقف کر دے اور اس کی تصاویر اخبارات میں شائع ہوں۔
بہاری کو نوکر ہوئے دوسرا ہی سال ہوا تھا کہ یکایک شہر میں ہیضہ پھوٹ پڑا۔ کیوں کہ اس کا محلہ سارے شہر میں سب سے زیادہ گندا تھا اسی لیے ہیضے کا پہلا شکار بھی اس کے محلے کا جمن تانگے والا ہوا۔ جمن تانگے والے کے مکان سے چھٹا مکان سکسینہ بابو (اسسٹنٹ سیکریٹری محکمہ مال کا تھا۔ ان کو جب اس کا علم ہوا تو انھوں نے فورا کارپوریشن کو اطلاع دے دی اور متعدی بیماریوں کے ہسپتال میں ٹیلیفون کر دیا۔ محلے کی مناسب صفائی ہوجائے یہ سوچ کر انھوں نے اخبار والوں کو بھی اس سے مطلع کر دیا۔ گھنٹے بھر کے اندر اندر ہسپتال کی ایمبولینس آگئی اور کارپوریشن کے آدمی فنائل اور ڈی ڈی ٹی محلے کی نالیوں میں ڈالنے لگے، سارا محلہ جمع ہوگیا۔ جمن کو اسٹریچر پر ڈال کر ایمبولینس میں رکھا گیا ایک فوٹو گرافر نے اسی حالت میں اس کی تصویر بھی کھینچ لی۔ شام کو جب بہاری دفتر سے واپس آرہا تھا تو اس نے اخبار والے کو چیختے سنا:
شہر میں ہیضہ پھوٹ پڑا۔
قندھاری بازار میں پہلا حملہ۔
شام کا تازہ اخبار پڑھیے۔
اپنے محلے کا نام سنتے ہی بہاری چونک پڑا۔ وہ کبھی اخبار نہیں خریدتا تھا مگر آج اس نے محض اس لیے اخبار خرید لیا کہ اس میں اس کے محلے کا نام چھپا تھا۔ اس نے جلدی سے اخبار پر نظر ڈالی، آخری صفحے پر نہ صرف خبر ہی شائع ہوئی تھی اور جمن تانگے والے کا نام چھپا تھا بلکہ اس کے نیچے وہ تصویر بھی تھی جو اخباری فوٹو گرافر نے اسٹریچر پر پڑے ہوئے جمن کی کھینچی تھی۔ تصویر دیکھنے کے بعد وہ آپ ہی آپ بڑبڑایا۔
’’کون توقع کرسکتا تھا کہ اس تانگے والے کا نام بھی کبھی اخبار میں شائع ہوگا۔ مگر قسمت کے کھیل ہیں کہ نہ صرف نام بلکہ اس کی تصویر بھی اخبار کی زینت بنی اور جمن مرتے مرتے بھی نام کر ہی گیا۔‘‘
کاش! اس کی جگہ میں ہوتا تو آج اس کے بجائے میری تصویر شائع ہوتی۔ آخر مرنا تو ایک دن سب ہی کو ہے پھر اسی انداز میں موت کیوں نہ ہو۔ یکایک وہ اس تصویر سے لرز گیا کہ اب اسے ہیضہ ہوگیا تو؟ مگر اس بیماری میں مرنا فضول ہے۔ اب بات پرانی ہوگئی، وبا میں ہر مرنے والے کا نام نہیں چھپاکرتا ہے اور اسے جمن، اسکول والے ونود اور کامتا کی طرح نظر آنے لگا جو ہمیشہ اسے شکست دیتے تھے۔ پھر وہ سوچنے لگا مگر جمن بیچارہ اپنی تصویر دیکھ ہی نہ سکا۔ کاش وہ اچھا ہو جاتا اور مزہ تو جب ہے کہ آدمی مرے بھی نااور اس کا نام بھی ہوجائے۔ اگر جمن زندہ ہوتا تو وہ اسے ضرور مشورہ دیتا کہ وہ اپنی یہ تصویر فریم کرا کے اپنی کوٹھڑی میں لگائے تاکہ اس کے پاس ہر آنے جانے والا اسے دیکھ سکے۔ وہ خیالات کی ان ہی بھول بھلیوں میں الجھا ہوا سڑک پار کر رہا تھا کہ اسے زور سے دھکا لگا۔ ایک عجیب سی تکلیف ہوئی۔ جب اسے ہوش آیا تو وہ ہسپتال کے ایک بستر پر پڑا تھا۔ اس کے پیر پر پٹیاں بندھی ہوئی تھیں اور اس میں شدید درد ہو رہا تھا۔ درد کی شدت نے اسے یاد دلایا کہ جب وہ سڑک پار کر رہا تھا تو اس کے قریب موٹر کی آواز آئی تھی اور پھر اسے دھکا لگا تھا۔ شاید وہ موٹر سے کچل گیا ہے۔ اس کے سامنے ایک ادھیڑ عمر کا آدمی اسٹول پر بیٹھا ہوا اسے دیکھ رہا تھا۔ نظریں چار ہوتے ہی اس نے بہاری کے سر پر پڑی شفقت سے ہاتھ پھیرا اور کہنے لگا۔
’’شریف نوجوان! مجھے افسوس ہے کہ آپ میری موٹر سے کچلے گئے۔ یقین مائیے اس میں میرے ڈرائیور کا کوئی قصور نہیں۔ اس نے ہارن بجایا مگر آپ ہارن کی آواز سن کر بھی نہیں ہٹے۔ اس نے موٹر کاٹ کر نکالنا چاہی اور آپ بجائے آگے بڑھنے کے پیچھے ہٹ گئے اور بریک لگانے کے باوجود موٹر نہ رک سکی۔ لیکن آپ کی حالت تشویش ناک نہیں ہے۔ معمولی چوٹ ہے آپ ہفتے عشرے میں گھر جانے کے قابل ہوجائیں گے۔ میر انام کشور شرما ایڈووکیٹ ہے۔ ہسپتال میں آپ کی آسائش کا میں نے پورا انتظام کر دیا ہے۔ کل شام کو میں پھر آؤں گا۔ اگر کوئی ضرورت ہو تو فرما دیں اور مجھے اپنا پتہ بتا دیجیے تاکہ میں آپ کے گھر والوں کو اطلاع دے دوں۔ مگر بہاری کا درد تیزی سے بڑھتا جا رہا تھا، بڑی مشکل سے وہ اپنا پتہ بتا سکا اور پھر وہ تکلیف سے کراہنے لگا۔ اس کی تکلیف دیکھ کر نرس نے اسے کوئی خواب آور دوا کھلا دی اور اس پر غنودگی طاری ہوگئی۔
دوسرے دن اس کے ماں باپ، بہنیں، بہنوئی، سب ہی ہسپتال میں آگئے۔ کل کے مقابلے میں آج اس کی طبیعت کافی اچھی تھی۔ سب نے اسے اطمینان دلایا کہ وہ جلد از جلد اچھا ہوجائے گا۔ شام کو وکیل صاحب کچہری سے لوٹتے ہوئے اس کے پاس آئے اور تسلی و تشفی دینے کے بعد کہنے لگے۔
’’مسٹر بہاری! یہ تو آپ جانتے ہیں کہ اس حادثے میں میرے ڈرائیور کا کوئی قصور نہیں ہے بلکہ آپ کو بچانے میں اس نے اس زور سے بریک لگایا تھا کہ موٹر کو کافی نقصان پہنچا، دوسری بات یہ ہے کہ اگر اسے عدالت نے سزا بھی دے دی تو آپ کو کیا فائدہ ہوگا۔ میں بطور تلافی آپ کو پانچ سو روپے دینے کو آمادہ ہوں اور اس کے بدلے میں آپ عدالت میں وہی بیان دیں گے جو میں کہوں گا۔
مگر بہاریؔ، وکیل صاحب کی بات سننے کے بجائے ان کے ہاتھ میں لپٹے ہوئے تازہ اخبار کو گھور رہا تھا۔ وکیل صاحب نے یہ محسوس کرتے ہی بہاری سے سوال کیا:
’’کیا بات ہے مسٹر بہاری؟‘‘
’’کیا یہ آج کا تازہ اخبار ہے؟‘‘ بہاریؔ نے سوال کیا۔
جی ہاں! کیوں کیا بات ہے؟ وکیل صاحب نے پوچھا۔
’’کوئی خاص خبر؟ بہاری نے بے چینی سے پوچھا۔ اسے توقع تھی کہ وکیل صاحب اس استفسار کے جواب میں کہیں گے کہ اخبار میں اس حادثے کا بھی ذکر ہے مگر وکیل صاحب نے بے پروائی سے جواب دیا۔
’’نہیں کوئی خاص خبر نہیں، میں آپ کے لیے اخبار چھوڑ جاؤں گا۔‘‘
’’نہیں نہیں۔ اخبار چھوڑنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ میں تو سمجھا تھا کہ آج کے اخبار میں اس حادثے کی خبر بھی ہوگی اور میرا نام بھی اخبار میں چھپا ہوگا۔‘‘ بہاری نے بڑی سادگی سے کہا جس میں حسرت بھی سموئی ہوئی تھی۔
یہ سن کر وکیل صاحب چونکے اور انھوں نے مسکرا کر پوچھا:
’’کیا آپ چاہتے ہیں کہ یہ خبر اخبار میں شائع ہو اور آپ کا نام بھی اخبار میں چھپے؟‘‘
بے ساختہ بہاری کے منہ سے نکلا:
’’زخمی ہونے کے باوجود اخبار میں نام نہ چھپنا تو واقعی میرے لیے تکلیف دہ ہے۔‘‘
’’اوہ! تو یہ بات ہے‘‘ وکیل صاحب نے کاغذ اور قلم بہاری کو دیتے ہوئے کہا:
’’اس کاغذ پر آپ اپنا نام اور پتہ لکھ دیں اور یہ بھی لکھ دیں کہ آپ کی خواہش ہے کہ یہ خبر اخبار میں شائع ہو اور آپ کا نام بھی چھپے۔ میں آج ہی یہ خبر بغرض اشاعت اخبار میں بھیج دوں گا۔‘‘
بہاری نے وکیل صاحب کے کہنے کے مطابق کاغذ پر اپنا نام اور پتہ لکھنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی تحریر کر دیا کہ اس کی خواہش ہے کہ اس کا نام بھی اخبار میں چھپے۔
بہاری کو پندرھویں دن عدالت میں لنگڑاتے ہوئے جانا پڑا۔ عدالت پہنچ کر اسے معلوم ہوا کہ حادثے والے دن موٹر خود ایڈووکیٹ صاحب چلا رہے تھے۔ مجسٹریٹ کے سامنے وہ وکیل صاحب کے جرحی سوالات سن کر گھبرا گیا اور جب وکیل نے اس سے سوال کیا:
’’اور مسٹر بہاری کیا آپ کی یہ خواہش نہیں تھی کہ آپ کا نام اخبار میں چھپے، تو بہاری کے لیے انکار کرنا ناممکن ہوگیا اور اس نے اعتراف کرلیا۔ اس اعتراف کے بعد مجسٹریٹ نے خود اس سے مسکراتے ہوئے پوچھا:
’’کیا آپ یہ سمجھتے تھے کہ جو لوگ موٹر سے کچل جاتے ہیں یا اسی قسم کے دوسرے حادثوں کا شکار ہوتے ہیں ان کا نام اخبار میں ضرور شائع ہوتا ہے؟‘‘
’’جی ہاں اب تک تو میں یہی دیکھتا آیا ہوں۔ یہ اتفاق ہے کہ میرا نام اخبار یں شائع نہیں ہوا۔‘‘ بہاری نے بچوں کی سی معصومیت کے ساتھ مجسٹریٹ کو جواب دیا۔
اور یہ جواب سن کر مجسٹریٹ نے چند ہی منت بعد فیصلہ سنا دیا۔ وکیل صاحب باعزت بری کردیے گئے اور بہاری کو عدالت نے کوئی ہرجانہ نہیں دلایا۔دوسرے دن اخباروں میں نمایاں طریقے پر یہ خبر شائع ہوئی:
’’ایڈووکیٹ بری ہوگئے۔‘‘
’’کشور شرما ایڈووکیٹ کے خلاف جو مقدمہ بے احتیاطی سے موٹر چلانے کے سلسلے میں چل رہا تھا، آج اس کا فیصلہ سنا دیا گیا۔ ایڈووکیٹ صاحب باعزت طور پر بری کردیے گئے۔ نوعیت کے اعتبار سے اس مقدمے کا سب سے دلچسپ پہلو یہ تھا کہ بہاری نامی ایک ۲۲ سالہ نوجوان جان بوجھ کر صرف اس لیے موٹر کے نیچے آگیا تھا کہ اس کا نام اخبار میں شائع ہوجائے گا اور اس شہرت کے بھوکے نوجوان نے عدالت میں بیان دیتے ہوئے اس کا اعتراف بھی کرلیا۔‘‘
اخبار پڑھنے کے بعد بہاریؔ نے اپنا منہ اخبار سے چھپا لیا اور سوچنے لگا کہ اب وہ اپنا منہ دنیا کو کیسے دکھا سکے گا۔