۲۰۱۴ء کو میں دبئی انٹرنیشنل سٹی کی ایک مسجد میں عشاء کی نماز پڑھ کر بیٹھا ہوا ہوں، شدید گرمی کا موسم ہے،رطوبت تکلیف دہ حد تک بڑھی ہوئی ہے، مسجد کی چھت ٹین کی ہے جس پر پنکھے لگے ہوئے ہیں، دیواریں ندارد ہیں، دنیا کے مختلف ملکوں سے تعلق رکھنے والے بیشتر محنت پیشہ لوگ یہاں نماز پڑھنے آتے ہیں، یہ عارضی مسجد ہے، اور پچھلے کئی برسوں سے عارضی ہے، کسی دن اس کی بھی باری آئے گی اور اس مقام پر ایک عالیشان ایرکنڈیشنڈ مسجد تیار ہوجائے گی، دھول سے اٹی ہوئی دریوں کی جگہ شاندار قالین اور گرم ہوا پھینکتے ہوئے پنکھوں کی جگہ اے، سی اور چھت میں جگمگاتے ہوئے قمقمے لگ جائیں گے۔
میرے ذہن کے سامنے بار بار ایک منظر آرہا ہے جو تھوڑی دیر قبل ایک واقعہ کی صورت میں پیش آیا، میں فورڈ ایکسپلورر ڈرائیو کرتے ہوئے انٹر نیشنل سٹی میں داخل ہوا، ٹریفک زیادہ تھی، اس لیے گاڑیوں کی رفتار سست تھی اور گاڑی والوں کی طیبعت میں جھنجلاہٹ تھی، اتنے میں دیکھتا ہوں کہ میرے سامنے والی بھاری بھرکم جیپ کے آگے ایک سائیکل سوار آگیا، وہ سڑک کراس کر رہا تھا، جیپ کا ڈرائیور موبائل پر کسی سے بات کرنے میں مصروف تھا اس لیے اس نے دھیان نیں دیا کہ سامنے زیبرا کراسنگ ہے، سائیکل جیپ کے کونے سے ٹکرائی اور الٹ گئی، جتنی دیر میں وہ سنبھلتا سائیکل جیپ کے پیچھے پہیے کی زد میں آگئی اور سائیکل سوار نے اپنا پیر کھینچ لیا، سائیکل کا حلیہ بگڑ چکا تھا، اس پر دو تھیلوں میں کھانے کے ٹفن تھے، جو سڑک پر بکھر گئے تھے، میرا اندازہ تھا کہ جیپ والا رکے گا لیکن وہ رکا نہیں، سائیکل سوار بے بسی کی تصویر بنا بیچ سڑک پر پاؤں پکڑے بیٹھا تھا۔ اس کی جان بچ گئی تھی مگر پیر میں کچھ چوٹ تو ضرور آئی تھی۔
میں سڑک پر بیچ کے ٹریک پر تھا اور حادثہ میرے سامنے پیش آیا تھا۔ میں نے اپنی گاڑی روک دی، پیچھے گاڑیوں کی لائن لگ گئی، باقی دونوں ٹریکوں پر گاڑیاں حسب معمول چلتی رہیں، گاڑی میں بیٹھے لوگ سیاہ شیشوں کے پیچھے سے ہی جھانک کر دیکھ لیتے۔ شیشہ اتارنا بھی گوارا نہیں تھا، مبادا اندر کا درجہ برودت متاثر ہوجائے گا۔ فٹ پاتھ پر چلنے والے دو چار لوگ البتہ دوڑ پڑے انہوں نے سڑک پر بکھرے برتن جمع کئے، سائیکل کے ڈھانچے کو ایک طرف کیا اور سائیکل سوار کو سہارا دے کر اٹھانے لگے۔ میں کچھ لمحے رکا، پھر میں نے بھی ٹریک بدلا اور جائے وقوعہ سے آگے نکل گیا۔
یہ حادثہ ایک گھنٹہ قبل پیش آیا، اور اب وہ منظر بار بار میری نگاہوں کے سامنے گھوم رہا ہے، میرا ضمیر مجھے کچوکے لگا رہا ہے۔ حادثہ تمہارے سامنے پیش آیا، پھر تم نے اپنا فرض کیوں نہیں ادا کیا؟ تم اس گاڑی والے کو روک سکتے تھے، تم فوراً گاڑی کا نمبر نوٹ کر کے پولیس کو فون کرسکتے تھے۔ اس غریب کی سائیکل کا معاوضہ تو اسے مل جاتا، تم کو چاہئے تھا کہ اتر کر اس غریب کو سہارا دیتے، دیکھتے اسے چوٹ تو نہیں لگی ہے۔ اس کا بکھرا ہوا سامان سمیٹنے میں مدد کرتے؟ لیکن اس کے لیے تم کو ایرکنڈیشنڈ گاڑی سے اترنا پڑتا، گرمی اور رطوبت کا سامنا کرنا پڑتا، گھر پہنچنے میں کچھ تاخیر بھی تو ہو جاتی۔
مجھے محسوس ہوا کہ زندگی کی آشائشوں نے میرے دل سے قوت احساس کو سلب کرنا شروع کر دیا ہے، ایرکنڈیشن کی ٹھنڈی ہوا نے من کی دنیا کو بھی منجمد کر دیا ہے۔ میں تو ایسا نہیں تھا، کسی کو مصیبت میں دیکھ کر دوڑ پڑنا میرا شیوہ تھا، دبے قدموں یہ بدلاؤ کب اور کیسے آگیا؟ میرے خانہ دل سے انسانوں کا غم کب خاموشی سے رخصت ہوگیا۔ مجھے یاد آیا کہ فیروز آباز کے اسٹیشن پر ایک مسافر کی جیپ سے چور بٹوہ اڑا کر بھاگا، وہ غریب بے بسی سے چور چور چلانے لگا، میں نے چور کو بھاگتے ہوئے دیکھ لیا، اس غریب کی پکار پر میں تنہا ہی دوڑ پڑا اورپلیٹ فارم سے کافی دور اس کو جاپکڑا، اور جب بٹوہ اس سے لے کر اس غریب کو دیا تو اس کی جان میں جان آگئی۔ مجھے یاد آیا کہ اس وقت میں اے سی کمپارٹمنٹ میں نہیں بلکہ چالو ڈبے میں سفر کر رہا تھا۔ گرمی شدید تھی، ٹرین میں بھیڑ بہت تھی، اس وقت ہر اسٹیشن پر گاڑی سے اتر کر ڈبے میں بیٹھے عورتوں اور بوڑھوں کی خالی بوتلیں لے کر ان میں پانی بھر لانے کا لطف ہی کچھ اور تھا۔ اے سی کمپارٹمنٹ میں سفر کرنے والے یہ لطف کیا جانیں، وہ تو انسانوں سے بہت فاصلے پر ہوتے ہیں۔
آج مجھے من کی دنیا خالی خالی سی لگ رہی ہے، یہ احساس مجھے گھر پہنچ کر نہیں ہوا تھا، بلکہ اب اور اس مسجد میں ہو رہا ہے، جہاں پنکھے کی ہوا پسینہ خشک کرنے میں ناکام ہے، کیوں کہ یہ نان ایر کنڈیشنڈ مسجد عام انسانوں کی جگہ ہے، یہاں نماز پڑھنے والوں کے پاس سے عود و عنبر کی مہک نہیں بلکہ پسینے کی بھبھکے اٹھتے ہیں، کسی گردن پر غرور کی اکڑ نظر نہیں آتی، ہر بندہ عاجزی کی تصویر ہوتا ہے، خواہ اس کی وجہ غربت ہی کیوں نہ ہو۔
گلف میں رہتے ہوئے لگتا ہے کہ زندگی کے ہر خطے کو ایرکنڈیشنڈ کی ہواؤں نے یخ بستہ کر رکھا ہے، گھر ہو یا آفس کہیں گرمی کا ذرا سا احساس نہیں ہوتا، گاڑی بھی ایرکنڈیشنڈ ہے اور شاپنگ مال بھی۔ باہر کے درجہ حرارت کا اندازہ صرف حرارت نما اسکرینوں سے ہوتا ہے۔ آج جب کہ میں اس مسجد میں بیٹھا ہوں اور گرمی سے میرے تن کارواں رواں پریشان ہے، مجھ پر یہ انکشاف ہو رہا ہے کہ ایرکنڈیشن سے نکلنے والی ٹھنڈی ہوا انسان کے تن کو ٹھنڈک ضرور دیتی ہے، لیکن من کی دنیا میں پہنچ کر وہ باد سموم بن جاتی ہے، اور سب کچھ خاکستر کر دیتی ہے، پھر وہاں احساس کا کوئی پودا مشکل سے ہی اگ پاتا ہے۔
مجھے یہ احساس زیاں اس مسجد میں ہو رہا ہے، جہاں پنکھے گھوم گھوم کر گرمی پھیلا رہے ہیں، جس دن یہ مسجد ایرکنڈیشنڈ ہوجائے گی، کچھ کھو جانے کا یہ احساس کہاں جاکر حاصل ہوسکے گا۔
ایر کنڈیشن کی ایجاد اور اس کے پھیلاؤ نے انسانی اخلاقیات پر کیسے اثرات مرتب کیے ہیں، ان پر گفتگو کے لیے تو کافی غور و فکر اور انسانی زندگی کا گہرا مطالعہ درکار ہے، میں تو احساس کے محض ایک تجربہ سے گزرا ہوں، اور اس سے میں صرف اس ایک نتیجہ پر پہنچ سکا ہوں کہ انسان کو اپنی زندگی میں ہمیشہ ایک نان ایرکنڈیشنڈ ایریا رکھنا چاہیے جہاں اس کے ضمیر کو زندگی کی کچھ سانسیں لینے کا موقع مل سکے۔lll