ناکامی

رضوانہ سید علی

چھٹی کی گھنٹی بجی تو سب نے سکھ کا سانس لیا۔ کیا قیامت کی گرمی تھی! ہاتھ پاؤں جھلسے جارہے تھے۔ لو کے گرم تھپیڑے جلائے ڈالتے تھے۔

اس وحشت ناک گرمی کے باوجود آج کا دن بڑا ہنگامہ خیز تھا۔ اسکول میں ایک نامور گلوکار کی تقریبِ موسیقی تھی اور آج ٹکٹ خریدنے کی آخری تاریخ تھی۔ اس نامور گلوکار نے ایک اہم معاشرتی خدمت کا بیڑہ اٹھایا تھا۔ وہ اسکولوں میں اپنی گلوکاری کے جوہر دکھلا رہا تھا تاکہ اسپتال کی تعمیر کے لیے رقم جمع کرسکے۔

اسے لاکھوں روپے مل رہے تھے۔ تاہم اعلیٰ مقاصد اور تفریحی پروگراموں کا جوڑ آج تک میری سمجھ میں نہیں آیا۔ گزرے دنوں میں تو میں یہ سن کر ہی چراغ پا ہوجایا کرتی تھی: ’’آئیے آئیے فلاں کا ناچ اور فلاں کا گانا۔کھیل تماشے اور چٹخارے صرف پانچ سو روپے میں۔ یقین جانیے، آپ کا یہ روپیہ صرف غریبوں کی فلاح پر خرچ ہوگا۔ ہم یہ سب کچھ صرف خدا کی خوشنودی کے لیے کررہے ہیں، ہماراذاتی لالچ کوئی نہیں۔ خود آئیے اور دوسروں کو بھی ترغیب دیجیے۔‘‘

بھئی واہ:

رند کے رند رہے، ہاتھ سے جنت نہ گئی

لیکن کوئی آخر کہاں تک اپنا خون جلائے؟ ویسے بھی وقت کے ساتھ ساتھ مزاج میں ٹھہراؤ آہی جاتا ہے۔ سمجھوتہ کرنے کی عادت سے پڑ جاتی ہے۔

شرکت کے لیے ٹکٹ کی قیمت دو سو روپے تھی۔ طالبات کا جوش و خروش دیدنی تھا۔ ایک ایک لڑکی نے دس دس بارہ بارہ ٹکٹ بخوشی خریدے۔ یوں گلو کار کی لاکھوں روپے فیس ادا کرنے کے بعد بھی اسکول کو اس سے چار گنا رقم بچ رہی۔ اب اسکول انتظامیہ سوچ رہی تھی کہ ہر سال ایسی دو تقریبات ضرور رکھی جائیں۔ آخر غیر نصابی سرگرمیاں بھی اہمیت رکھتی ہیں نا!

اس صورتحال سے ہمارا خون بھی سیروں بڑھ گیا۔ غیر نصابی سرگرمیاں جتنی زیادہ ہوں گی اسکول اتنا ہی اعلیٰ و معیاری کہلائے گا۔ معاشرے میں ایسے ’معیاری‘ اسکول کی استانیوں کا مقام بھی اونچا ہی ہوتا ہے۔ اسی لیے ہم استانیوں نے جوش و خروش سے ٹکٹ فروخت کیے۔ سارا دن اسی مصروفیت میں گزرگیا۔ چھٹی کی گھنٹی بجی تو سب نے اطمینان کا سانس لیا اور باہر نکل آئے۔

کچھ ہی دن پہلے گھنے اور اونچے درخت کاٹ دیے گئے تھے، اسی لیے سڑک کچھ زیادہ ہی تپ رہی تھی، تلوے جھلسے جارہے تھے۔ تھوڑے تھوڑے فاصلے پر استانیوں کے جتھے ٹیکسیوں کے انتظار میں کھڑے تھے۔ سڑک پر قیمتی کاروں کا ازدحام تھا۔ جونہی بچے دروازے سے باہر نکلتے ڈرائیور یا والدین لپک کر بیگ تھام لیتے اور بچے ٹھنڈی گاڑیوں کی آغوش میں جا چھپتے۔ ویسے اکا دکا استانیوں کے پاس بھی کاریں تھیں لیکن پرانے ماڈلوں کی کھٹارہ گاڑیاں!

آٹو سے سفر کرنا ہم لوگوں کے لیے عیاشی سے کم نہیںکیونکہ دہلی جیسے شہر میں بسوں کے ذریعہ سفر کافی تکلیف دہ اور ٹائم ٹیکنگ ہے۔ ہم نے اس مسئلے کا حل یوں تلاش کیا کہ جو استانیاں قریب قریب رہتی تھیں، مل کر آٹو کرلیتیں۔ بیشتر ڈرائیور تو خاموش رہتے مگر کبھی کبھار ایسے ڈرائیوروں سے بھی پالا پڑجاتا جو ہماری اس چالاکی پر کھول اٹھتے اور خوب جلی کٹی سناتے۔

’’افوہ! آج کیاآٹو رکشہ کی ہڑتال ہے؟‘‘ نگہت نے جھنجھلا کر کہا۔

’’میں تو گرمی کی شدت سے بے ہوش ہوئی جارہی ہوں۔‘‘ عمارہ نے اعلان کیا۔

’’لو ایک آٹو آرہا تھا، مگر ادھر ہی روک لیا گیا۔‘‘ میں بھلا کیسے چپ رہ سکتی تھی۔

’’اف میرے خدا! کیا یہ بندہ گھر سے سیر کے لیے نکلا ہے؟ کیسے زن سے اڑا لے گیا۔‘‘

انہی تبصروں کے دوران ایک کھٹارہ سی ٹیکسی آتی دکھائی دی۔ ڈرائیور خاصا موٹا تھا۔ دور ہی سے نمایاں نظر آیا۔ ہم سب نے بے قراری سے ہاتھ ہلائے، ٹیکسی قریب آکر رک گئی۔ ہم اتنے خوش ہوئے کہ لپک کر اس میں بیٹھ گئے۔

بیٹھتے ہی حسبِ معمول ہماری زبانیں چلنے لگیں۔ دن بھر کی روداد سنائی جانے لگی۔ آج کے لطیفے ٹکٹوں کے لین دین سے متعلق تھے، سب سے بڑا لطیفہ یہ تھا کہ ایک بچی اپنی تین ماہ کی بہن کا ٹکٹ خریدنے کے لیے بھی روپے لائی تھی۔ ٹیکسی چلی جارہی تھی۔ راستے میں ایک ایسی سڑک بھی آتی تھی جسے اسکولوں کی منڈی کہنا چاہیے۔ ویسے تو اس سڑک پر تقریباً دس اسکول تھے مگر تین اسکول بالکل برابر برابر تھے۔ وہاں اتنی گاڑیاں ہوتیں کہ ٹریفک بار بار جام ہوجاتا۔ ہماری ٹیکسی کو کھڑے چند منٹ گزرے تو اس کا ڈرائیور سخت مضطرب ہوگیا اور اسٹیرنگ پر بے بسی سے ہاتھ مارنے لگا۔

’’یہاں ہمیشہ ایسی ہی بھیڑ ہوتی ہے، بس ابھی راستہ بن جائے گا۔‘‘ میں نے اسے تسلی دی۔

’’مگر مجھے بہت جلدی ہے۔‘‘ وہ بے چینی سے بولا: ’’میں تو ہسپتال جارہا تھا، آپ لوگوں کو دیکھ کر نجانے کیوں رک گیا۔ ویسے آپ کی منزل میرے راستے ہی میں تھی ورنہ شاید معذرت کرلیتا۔‘‘

اب میں اس بات کا کیا جواب دیتی؟ خاموش رہی۔ اب مجھے خیال آیا کہ اسکول کے قریب وہ پٹرول پمپ پر لمحہ بھر کے لیے رکا تھا اور ایک بوڑھے باوردی ملازم کو اس نے یہی کہا تھا کہ ہسپتال جارہا ہوں، وہاں سے گھر والوں کو لے کر گھر چلا جاؤں گا۔

وہ شاید کسی کو پیغام دے رہا تھا۔ مگر ہم لوگ اپنی باتوں میں مگن تھے، اس لیے کچھ زیادہ دھیان نہیں دیا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔

’’افوہ‘‘ اس نے ایک دفعہ پھر ہاتھ اسٹیرنگ پر مارا۔

’’کیا کسی کو دیکھنے اسپتال جانا ہے؟‘‘ عمارہ نے پوچھ ہی لیا۔

’’میرا بچہ کل شام چھت سے گر پڑا تھا۔ اس کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ گئی ہے۔‘‘ یہ سن کر ہم دم بخود رہ گئے۔ کچھ دیر بعد گاڑی مشکل سے چندانچ آگے کھسکی۔ وہ پھر بے چین ہوکر بول اٹھا: ’’یہاں تعلیم بھی امیرلوگوں کے لیے ہے اور صحت بھی انہی کے لیے۔‘‘

’’آپ کا بچہ کس ہسپتال میں ہے؟‘‘ میں نے دبے لفظوں میں پوچھا۔

’’وہ جو شہر کے آخر میں آتا ہے۔‘‘

’’پریشان نہ ہوں، خدا صحت دے گا۔‘‘

ڈرائیور آخر اپنی مہارت دکھاتے ہوئے اس سڑک سے ٹیکسی نکال ہی لے گیا۔ جب رفتار معمول پر آئی، تو وہ اپنی کہانی سنانے لگا:

’’صحت کیا ہوگی، بہن جی؟ ڈاکٹر کہتے ہیں ریڑھ کی ہڈی کو سہارا دینے کے لیے اسٹیل کی پلیٹیں لگیں گی۔ ان کے لیے تیس ہزار روپے لاؤ۔ میرے پاس جو تھوڑے بہت روپے تھے، وہ گاؤں سے یہاں لانے اور دوا دارو پر خرچ ہوگئے۔ میں نے کہا کہ آپ پلیٹیں لگادیں، میں کہیں سے روپے کا بندوبست کرکے لاتا ہوں۔ مگر ڈاکٹر کہتے ہیں، روپے پہلے لاؤ۔ میں نے کل سے آج تک کہا ںکہاں دھکے نہیں کھائے، زکوٰۃ کمیٹی کے دفتر تک گیا، مگر وہاں سے بھی جواب مل گیا کہ فنڈز ختم ہوچکے ہیں۔‘‘

ہم تینوں دہشت زدہ سی ہوکر ایک دوسرے کو دیکھ رہی تھیں۔ ایک بے بس باپ کے لہجے کی سچائی ہمارا دل دہلا رہی تھی۔

’’بس اب میں سیدھا اسپتال جاکر بچے کو گھر لے جاؤں گا۔ میری تو دعا ہے کہ یا اللہ! اس بچے کو اٹھالے یا اپنے کرم سے ٹھیک کردے۔ اس کی تکلیف اب ہماری برداشت سے باہر ہے۔‘‘

اپنے بچے کی موت کی دعا مانگنے والے ایک باپ کا کرب کن حدوں کو چھورہا تھا، اس کا ہمیں بخوبی اندازہ تھا، مگر ہم نے ایک دوسرے سے آنکھیں چرالیں۔

’’کیا میں اسے تین ہزارروپئے بھی نہیں دے سکتی؟‘‘ میں نے خود سے سوال کیا۔ ’’اگر دے دیے تو یہ حرکت کہیں میرے شوہر کو ناگوار نہ گزرے؟ میں اکثر انہیں ایسے جرمانے ڈالتی رہتی ہوں مگر وہ رقم عموماً پانچ یا چھ سو روپئے کی حد تک ہوتی ہے۔ حالات نے ہمیں بھی تو شکنجے میں کس رکھا ہے۔ دونوں میاں بیوی بڑی محنت کے بعد جو کماتے ہیں اس کا بڑا حصہ گھر کے کرائے، بلوں اور بچوں کی تعلیم پر صرف ہوجاتا ہے۔ بچت کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

عمارہ کی منزل آگئی تھی، وہ چپ چاپ اتر گئی، کچھ دیر بعد ہمارے گھر بھی آگئے۔ میں بھی کچھ نہ کہہ سکی، مگر جانے کیوں اترتے ہی ٹیکسی کا نمبر دیکھ لیا۔ میرے ہمراہ نگہت بھی تھی۔ کہنے لگی ’’کاش میرے پاس اتنی رقم ہوتی کہ میں اس آدمی کی مدد کرسکتی، آج کل میرے شوہر بھی یہاں نہیں ہیں۔‘‘

میں بھلا کیا کہتی؟ میرے شوہر تو یہیں موجود تھے مگر پھر بھی … میں بوجھل قدموں سے گھر میں داخل ہوئی۔ سیڑھیاں چڑھے چڑھتے مجھے اپنے ضمیر کی طرف سے اتنی پھٹکار پڑی کہ میں بے حال ہوگئی۔ ’’جھوٹی، مکار، بہانے تراش، پندرہ سو روپے تو گھر میں موجود تھے، وہی اٹھا کر دے دیتی، پہلے کبھی تیرے میاں نے کچھ کہا ہے، جو آج کہتے؟ مگر تجھ میں اتنا حوصلہ ہی نہیں …

میں نے ہاتھ منہ دھویا اور کپڑے تبدیل کیے، تو اتنے میں فون بج اٹھا۔ دوسری جانب عمارہ تھی۔ کہنے لگی : ’’آپا! آپ نے ڈرائیور سے اس کا پتا لیا تھا؟‘‘

’’نہیں۔‘‘

’’افوہ! مجھے تو امید تھی کہ آپ ایسا ضرور کریں گی۔ میں نے گھر آکر امی سے بات کی ہے، وہ ڈرائیور کی مدد کرنا چاہتی ہیں۔‘‘

یہ سن کر میرا خون سیروں بڑھ گیا۔ میں نے جھٹ سے کہا:’’عمارہ! ابھی تو وہ ہسپتال ہی میں ہوگا۔ ہم اسے تلاش کرتے ہیں۔‘‘

اگلے ایک گھنٹے تک ہم اس اسپتال میں پہنچ گئے، جس کا نام ڈرائیور نے بتایا تھا۔ وہاں اس وارڈ میں گئے جہاں حادثانی مریض ہوسکتے تھے۔ مگر کسی ایسے بچے کا سراخ نہ ملا جو ریڑھ کی ہڈی ٹوٹنے کے بعد ہسپتال آیا ہو۔ میں مایوس ہونے لگی تو اچانک مجھے پٹرول پمپ کا وہ ملازم یا دآیا جس سے بچے کا باپ گفتگو کررہا تھا۔ ہم فوراً واپس گھر پہنچے۔ میں نے بیٹے کو موٹر سائیکل پر دوڑایا کہ جاؤ پٹرول پمپ پر ایک بوڑھا سا آدمی ہوگا، اسے ٹیکسی کا نمبر بتاکر ڈرائیور کے گھر کا پتا پوچھ کر آؤ۔ کافی دیر بعد وہ ناکام لوٹ آیا۔ کہنے لگا کہ قریب ہی ٹیکسی کا اڈہ بھی تھا، وہاں بھی پوچھا مگر اس نمبر کی ٹیکسی وہاں کھڑی نہیں ہوتی۔

خدا خدا کرکے شام ہوئی۔ میاں کے آتے ہی پوری روداد انہیں کہہ سنائی اور ساتھ ہی اصرار کیا کہ میرے ساتھ پٹرول پمپ تک چلیں، میں اس بوڑھے کو پہچان لوں گی۔

پہلے تو وہ چپ رہے، پھر بولے ’’ایسے فیصلے فوراً کیے جاتے ہیں۔ جب تم وقت پر مدد نہ کرسکیں تو، اب یہ لاحاصل کوششیں کرنے کافائدہ؟

عمارہ اور نگہت کا خیال تھا کہ یہ ایک امتحان تھا، جس میں ہم بری طرح ناکام ہوگئے۔ ہمیں آئینہ دکھایا گیا ہے کہ ہم فقط باتیں بنانا ہی جانتے ہیں، عمل سے کوسوں دور ہیں۔

موسیقی کی تقریب بے حد کامیاب رہی۔ لوگوں کا جوش دیکھ کر خود گائیک بھی دم بخود تھا۔ بچے بوڑھے، جوان، ماں باپ، بہن بھائی، سب بے خود ہوئے جارہے تھے۔ گلوکار اتنا متاثر ہوا اور اس نے ایسے وجد آفریں گیت پیش کیے کہ پورا ہجوم دیوانہ وار ناچنے لگا۔ لوگ ناچ رہے تھے، پنڈال جھوم رہا تھا، چاند تارے رقصاں تھے اور قمقمے خندہ زن۔ یوں لگتا تھا جیسے پوری کائنات پرکیف اور سرور طاری ہو لیکن ہم استانیاں ڈیوٹی کے نام پر مجبوراً دم بخود کھڑی تھیں۔

اسٹیج پر رقص کناں لوگوں میں اچانک مجھے ایک ہیولا دکھائی دیا … ایک شخص پھٹی پھٹی آنکھوں سے اس رقصاں ہجوم کو گھور رہا تھا، اس کے بازوؤں میں ایک سات آٹھ سال کا بچہ بے دست و پا لٹک رہا تھا جس کی کھلی آنکھوں میں بے پناہ درد منجمد تھا۔ اس کے زرد چہرے پر صرف ایک سوال لکھا تھا … مبلغ ۳۰۰۰۰ روپئے کا سوال۔ وہ زندہ لاش اپنے گرد پھیلے اس رقص دیوانگی کو بحسرت و یاس تک رہی تھی۔

میں نے جھرجھری لے کر آنکھیں بند کرلیں۔ کافی دیر بعد ڈرتے ڈرتے آنکھیں کھولیں، ہیولا وہیں موجود تھا۔ اب اس کی آنکھیں مجھ پر جمی تھیں اور ان میں جیسے خون اترا ہوا تھا۔

میں نے گھبرا کر ادھر ادھر دیکھا، سب لوگ اپنے آپ میںمگن تھے۔ میں چپکے سے کھسک کر گھر کی طرف بھاگ لی۔

آج تک میری آنکھیں سڑک پر دوڑنے والی ہر ٹیکسی کا نمبر دیکھتی ہیں مگر مجھے وہ نمبر دوبارہ کبھی دکھائی نہیں دیا۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں