نبیﷺ دعوتی اور تربیتی طریقوں میں دانائی اور حکمت کو پیش نظر رکھتے تھے۔ نبیﷺ کوئی ایسا لفظ زبان سے نہیں نکالتے اور نہ کوئی ایسا طریقہ اختیار فرماتے جس سے مخاطب کوئی غلط تاثر قبول کرلے، اس کے اندر بے اطمینانی کی کیفیت پیدا ہو یا وہ کسی ردّ عمل کا شکار ہوجائے۔
نبیؐ اس بات کا پورا پورا خیال رکھتے کہ اگر کسی کی کوتاہی علم میں آجائے تو اسے اس اندازسے نہیں ٹوکتے کہ اسے برا محسوس ہو یا اس کے جذبات کو ٹھیس لگے۔ چنانچہ آپؐ اس کے لیے کسی مناسب موقع کا انتظار کرتے۔ انفرادی طور پر متنبہ کرنے کے بجائے کسی مجمع کو خطاب کرتے ہوئے آپؐ اس کی کوتاہی کی طرف اشارہ فرمادیتے۔ غلطی کرنے والے کو احساس ہوجاتا اور وہ اس کو چھوڑ دیتا اور اسے یہ بھی محسوس نہ ہوپاتا کہ یہ بات خاص طور سے مجھ ہی سے کہی جارہی ہے۔ گویا کہ براہِ راست سمجھانے کے بجائے اجتماعی طور پر سمجھانے کا طریقہ اختیار فرماتے۔
ایک بار رسولِ خدا ﷺ کو معلوم ہوا کہ کچھ لوگوں نے آپؐ کی بتاہی ہوئی عبادات کو کم سمجھ کر اس میں غلو کرنے کا تہیہ کرلیا ہے۔ کسی نے کہا کہ میں کبھی گوشت نہیں کھاؤں گا، کسی نے عزم کیا کہ میں کبھی شادی نہیں کروں گا۔ کسی نے کہا میں بستر پر نہیں سوؤں گا۔ جب آپؐ کے علم میں یہ بات آئی تو آپؐ نے ان سے براہِ راست گفتگو کرنے کے بجائے لوگوں کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ’’کیا بات ہے کہ کچھ لوگ ایسی ایسی باتیں کرتے ہیں، حالانکہ میں روزہ بھی رکھتا ہوں اور افطاربھی کرتا ہوں، سوتا بھی ہوں اور نماز کے لیے کھڑا بھی ہوتا ہوں۔ گوشت بھی کھاتا ہوں اور شادیاں بھی کرتا ہوں۔ پس جو شخص میری سنت کو پسند نہیں کرتا وہ مجھ سے نہیں۔‘‘ (متفق علیہ)
اس سے ایک فائدہ یہ بھی ہوا کہ عام حضرات کے سامنے بھی اسلام کا صحیح طرزِ فکر آگیا۔ لوگوں کو غلو پسندی کے بجائے اعتدال کی راہ معلوم ہوگئی۔
اگر کبھی اس کی ضرورت محسوس فرماتے کہ غلطی پر براہِ راست متنبہ کردیا جائے تو تنہائی میں نہایت دل سوزی اور محبت کے انداز میں سمجھاتے تاکہ مخاطب کسی احساسِ کمتری کا شکار بھی نہ ہو، اور اپنی اصلاح بھی کرلے۔
ایک بار ابن ابو سلمہ ؓ اپنے بچپن میں آپؐ کے ساتھ کھانا کھارہے تھے۔ ان کا ہاتھ پلیٹ میں کبھی ادھر پڑتا، کبھی اُدھر۔ وہاں دوسرے لوگ موجود نہیں تھے۔ اور برقت ٹوکنا بھی زیادہ بہتر تھا۔ اس لیے آپؐ نے فی الفور ابن ابوسلمہؓ کو متنبہ کیا مگر منفی انداز میں نہیں بلکہ نہایت پیار بھرے لب و لہجہ اور مثبت انداز میں فرمایا۔ مزید یہ کہ آپؐ نے صرف اسی کوتاہی پر نہیں ٹوکا بلکہ کھانے کے بنیادی آداب بیان فرمائے کہ ابن ابوسلمہؓ کو یہ بھی محسوس نہ ہوا کہ آپؐ میری غلطی پر مجھے ٹوک رہے ہیں۔ بلکہ وہ یہ سمجھے کہ مجھے کھانے کے آداب بتارہے ہیں۔ اس لیے آپؐ نے پہلے دوسرے آداب بتائے اور آخر میں یہ ادب بیان فرمایا کہ پلیٹ میں اپنی طرف سے کھانا چاہیے۔ آپؐ نے فرمایا: اے بچے (جب کھانا کھاؤ تو سب سے پہلے) اللہ کا نام لیا کرو۔ داہنے ہاتھ سے کھایا کرو اور اپنی طرف سے کھایا کرو۔‘‘ (بخاری و مسلم)
کبھی ایسا بھی ہوتا کہ آنحضور ﷺ کسی غلطی کی طرف توجہ مبذول کرانے کے لیے زبان سے کچھ نہ کہتے بلکہ اشارہ فرمادیتے اور غلطی کرنے والے کو اپنی غلطی کا احساس ہوجاتا۔ بعض موقعوں پر یہ اشارہ زبانی ہدایت سے زیادہ مؤثر اور نصیحت آموز ہوتا۔ ایک بار حضرت فضلؓ سواری پر آنحضورﷺ کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک عورت آئی۔ حضرت فضلؓ اس عورت کی طرف دیکھنے لگے۔ اور وہ عورت حضرت فضلؓ کو دیکھنے لگی۔ آنحضرت ﷺ نے اپنے ہاتھ سے حضرت فضلؓ کا چہرہ دوسری طرف کردیا۔ (بخاری)
اسی موقع پر زبان سے کوئی بات کہنا مصلحت و حکمت کے خلاف تھا۔ اس کے لیے اللہ کے رسولﷺ نے نہایت حکیمانہ طریقہ اختیار فرمایا۔ یقینا حضرت فضلؓ کو اپنی کوتاہی کااحساس بھی ہوا ہوگا اور آنحضورﷺ کے حکیمانہ طریقہ توجہ کا اچھا اثر بھی پڑا ہوگا۔
دعوت و تربیت کے سلسلہ میں آپؐ کی ایک خاص حکمت یہ بھی رہی ہے کہ زیادہ لمبی بات، اکتا دینے والے وعظ سے گریز فرماتے۔ مدعا کو بیان کرنے کی کوشش کرتے۔ تاکہ سننے والے کے ذہن میں بات اچھی طرح بیٹھ جائے اور اگر آدمی ازبر کرنا چاہے تو آسانی سے ازبر ہوسکے۔ آپؐ کے مختصر جملوں میں معانی کا ایک سمندر پنہا ںہے۔ اصطلاح میں اس طرح کے کلمات کو ’’جوامع الکلم‘‘ کہا گیا ہے۔ مثلاً:
’’بہترین معاملہ وہ ہے جس کا عزم کرلیا گیا ہو۔‘‘
’’بہترین علم وہ ہے جو نفع بخش ہو۔‘‘
’’بہترین سیرت انبیاء کی سیرت ہے۔‘‘
’’بہترین مال داری دل کی مالداری ہے۔‘‘
’’ہر آنے والی چیز قریب ہے۔‘‘
تمام مومنین کو چاہیے کہ اہلِ خانہ کی تربیت میں سیرتِ نبویؐ کے ان روشن پہلوؤں کو اپنائیں۔
——