انسان روح اور جسم کا مرکب ہے، جس طرح جسم کو بیماری لگ جائے تو علاج کی ضرورت ہوتی ہے، اسی طرح اگر روح بیمار ہوجائے تو اس کا علاج بھی ضروری ہے۔ روح کو گناہ بیمار کردیتے ہیں۔ اس بیماری کا علاج احادیث مبارکہ میں بتایا گیا ہے۔
نبی اکرمؐ فرماتے ہیں بے شک ہر بیماری کی دوا ہوتی ہے اور گناہوں کی دوا استغفار ہے۔ اے لوگو! اللہ کی بارگاہ میں توبہ کیا کرو، بے شک میں بھی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں روزانہ سو بار توبہ کرتا ہوں۔‘‘ (مسلم)
انسان خطا کا پیکر ہے۔ اس سے کئی قسم کی بڑی چھوٹی خطائیں سرزد ہوجاتی ہیں، کبھی عملاً کرلیتا ہے اور کبھی سہواً۔ کبھی چھپ کر اور کبھی اعلانیہ، کبھی نفس کے دھوکے میں آکر اور کبھی شیطان کی چالوں میں پھنس کر۔ گناہوں کو مٹانے کے لیے توبہ کا سہارا لینا چاہیے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اسی کے بارے میں فرماتے ہیں ’’تمام ابن آدم خطائیں کرنے والے ہیں، اور خطائیں کرنے والوں میں سے بہتر وہ ہیں، جو توبہ کرنے والے ہیں۔‘‘ (کنز الاعمال)
توبہ کیسے کی جائے؟
اس کے لیے ایک چھوٹا اور آسان سا کام کرنا پڑے گا۔ اپنے گناہوں کو یاد کر کے، ان کا قرار کر کے، ان پر شرمندہ ہوجائیے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے سامنے سر جھکا دیجیے اور آئندہ ان گناہوں سے دور رہنے کا وعدہ کرلیجیے، یہی توبہ ہے۔
رسولِ اکرمﷺ نے توبہ کا تعارف کراتے ہوئے فرمایا: ’’ندامت توبہ ہے۔‘‘ (طبرانی)
توبہ کے لیے کسی وقت، جگہ اور کیفیت کی شرط نہیں، بلکہ یہ عمر کے کسی بھی حصے میں، کسی بھی وقت، کسی بھی جگہ اور کسی بھی حالت میں کی جاسکتی ہے۔ لیکن توبہ میں جلدی کرنی چاہیے کیوں کہ زندگی فانی ہے اس کا کوئی بھروسا نہیں۔
توبہ کی وسعت
اس کے بارے میں بھی ایک حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رحمت الٰہی کی وسعت وعظمت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:
’’اگر تم میں سے کوئی اتنے گناہ کرے کہ آسمان و زمین کے درمیان اس کے گناہ بھر جائیں پھر توبہ کرلے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرما لیتا ہے۔‘‘ (کنز العمال)
رحمت عالمؐ کا ارشاد گرامی ہے: ’’گناہوں سے توبہ کرنے والا ایسا ہے، جیسے اس نے کوئی گناہ نہیں کیا۔‘‘
دل آئینے کی مانند صاف ہو جاتا ہے۔ اگر انسان نیکیاں کرتا رہے تو دل کی نورانیت میں اضافہ ہوتا رہتا ہے اور اگر گناہ کرتا رہے تو دل کی نورانیت کم ہوتی رہتی ہے۔ اس کی تائید میں ایک حدیث بھی ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانِ مبارک ہے:
’’جب کوئی ایک گناہ کرتا ہے تو دل پر ایک سیاہ نشان لگ جاتا ہے، پھر اگر وہ توبہ کرلے تو وہ نشان مٹ جاتا ہے اور دل صاف ہو جاتا ہے، لیکن اگر وہ توبہ نہ کرے اور گناہ کرتا رہے تو سیاہ نشان بڑھتا رہتا ہے حتی کہ تمام دل سیاہی کی لپیٹ میں آجاتا ہے۔‘‘ (سنن ترمذی)
اس لیے اگر سیاہ دل کو سفید اور نورانی کرنا ہو تو توبہ ہی وہ عمل ہے، جس سے دل کی سیاہی ختم ہوتی ہے اور شفافیت ملتی ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ’’توبہ کرنے والے کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی تاجر قافلہ لے کر جنگل میں جا رہا ہو اور وہ دوپہر کے وقت تھک کر سو جائے، جب جاگے تو اس کا قافلہ، سامانِ تجارت، اونٹ وغیرہ نہ ملیں، وہ سارے جنگل میں ڈھونڈتا رہے پھر بھی نہ ملیں، پریشانی اور تھکن سے اسے پھر نیند آجائے ، دوسری بار جب جاگے تو اس کا قافلہ، سامانِ تجارت، اونٹ وغیرہ اس کے سامنے موجود ہوں تو وہ کتنا خوش ہوگا۔ اللہ تعالیٰ توبہ کی نیت سے اپنے دروازے پرواپس آنے والے پر اس سے بھی زیادہ خوش ہوتا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم)
وہ مالک کائنات بے نیاز ہوتے ہوئے بھی ہمارے لیے دروازہ رحمت کھولے ہوئے ہے اور اعلان فرما رہا ہے کہ ’’اے ایمان والو! اللہ کی بارگاہ میںسچی توبہ کرلو۔‘‘
اور ہم گناہ گار ہوکر اور اس کے محتاج ہوکر بھی اس کی بارگاہ میں حاضر نہیں ہوتے۔ لاکھوں گناہوں کا بوجھ سر پر اٹھائے ہوئے ہیں پھر بھی شرمندہ نہیں ہوتے۔ ہمیں اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے، اپنی زندگی پر غور کرنا چاہیے اور رب العالمین کی رحمت حاصل کرنے کے لیے توبہ کرنی چاہیے اس سے پہلے کہ موت کا وقت آجائے یا توبہ کا دروازہ بند ہوجائے۔lll