نسلی مسلمان اسلام کے بارے میں نہیں جانتے!

ٹوویگن پڈرسن

س: آپ کا اصل نام اور اسلامی نام؟

ج: میرا اصل آبائی نام ٹوویگن پڈرسن (Tovegunn Pedersen) ہے۔ اسلام قبول کرنے کے بعد اپنے خاوند کے حوالے سے شہناز خان بن گئی۔

س: آپ کب اور کہاں پیدا ہوئیں؟ اپنے والدین اور خاندان کے بارے میں ضروری معلومات فراہم کردیجیے۔

ج: میں ۱۲؍جون ۱۹۶۳ء؁ کو ایرنڈال ناروے میں پیدا ہوئی۔ میرے والدین کی شادی فروری ۱۹۶۲ء؁ میں ہوئی۔ شادی کے وقت میری والدہ کی عمر اٹھارہ سال، جب کہ والد کی ۲۵ سال تھی۔ میری والدہ کا تعلق ایک لادین خاندان سے تھا، جب کہ والد ایک کٹر مذہبی خاندان سے تھے، مگر دونوں عملاً لادین ہیں۔ میری والدہ نرس ہیں، جب کہ والد سمندری جہاز کے کیپٹن ہیں۔ افسوس کچھ عرصے سے دونوں میں علاحدگی ہوچکی ہے۔ میری ایک ہی بہن ہے وہ بھی لامذہب ہے۔ اس طرح آپ کہہ سکتے ہیں کہ میرا سارا خاندان ہی مذہب سے لا تعلق ہے۔

س: آپ کی تعلیم، غیر تعلیمی صلاحیتیں اور مشاغل وغیرہ؟

ج: میں نے مروجہ تعلیم کے بعد دو سال تک ایک کمرشل کالج میں تعلیم حاصل کی، پھر دو سال تک ایک نرسنگ اسکول میں تربیت لیتی رہی ۔ آج کل میں ایک سرکاری طبی ادارے میں نرس کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہی ہوں۔

س: آپ سب سے پہلے کب اور کیسے اسلام سے متعارف ہوئیں؟ کیا کوئی کتاب پڑھی یا کسی مسلمان سے ملاقات ہوئی؟

ج: میری عمر چودہ سال ہوئی تو عام روایت کے مطابق والدین نے کہا کہ مجھے Confifmation کی تیاری کے لیے متعلقہ پادری کے پاس جانا چاہیے۔ یہ عیسائی معاشرے کی محض ایک رسم تھی، اس سے زیادہ اس کی کوئی حیثیت نہ تھی، اس لیے لادین والدین بھی اپنے بچوں کو مذکورہ مشورہ دیتے تھے۔ معاً میرے ذہن میں آیا اور میرے دل نے گواہی دی کہ یہ محض ڈھونگ ہے، میں یسوع مسیحؑ کو خدا کا بیٹا نہیں مانتی، والدین کی لادینیت کے باوجود ہمارا ہمیشہ سے یہ عقیدہ رہا ہے کہ خدا ایک ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اس لیے میں نے پادری کے پاس جانے سے صاف انکار کردیا۔میں مطالعے کی ہمیشہ سے شوقین رہی ہوں اور ہر طرح کی اچھی کتابیں پڑھنا میرا پسندیدہ مشغلہ رہا ہے۔ چنانچہ میری خوش بختی ہے کہ ایک روز میں ایک لائبریری میں گئی اور وہاں میں نے اسلام کے بارے میں ایک کتاب دیکھی۔ میں نے وہ حاصل کی۔ اس کا مطالعہ کیا تو وہ گویا میرے دل کی باتیں کرنے لگ گئی۔ اس میں بتایا گیاتھا کہ کائنات کا ایک ہی خالق و مالک ہے اور کسی بھی درجے میں اس کا کوئی ہمسر نہیں۔ میں اس تعلیم سے بہت ہی متاثر ہوئی۔ میری مزید خوش قسمتی دیکھئے کہ انہی دنوں میرا تعارف ایک مسلمان خاندان سے ہوگیا۔ اسلام سے دلچسپی تو پیدا ہوہی گئی تھی۔ ان کی محبت اور توجہ نے مزید کشش پیدا کی اور میں نے اسلام کے بارے میں ان سے کرید کرید کر معلومات حاصل کیں اور جب ذہنی و قلبی طور پر مطمئن ہوگئی تو سولہ سال کی عمر میں کلمۂ شہادت پڑھ کر مسلمان ہوگئی۔

س: آپ نے کب اپنا مذہب ترک کیا اور کیوں؟

ج: چوں کہ میرے والدین کبھی بھی مذہبی نہیں تھے اور خود میں نے بھی کبھی عیسائیت پر یقین نہیں کیا تھا، اس لیے میں اس مذہب کو اپنا آبائی مذہب نہیں کہہ سکتی۔ میں نے اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے مثبت طور پر اسلام کی اخلاقی و معاشرتی تعلیمات سے متاثر ہوکر اس دین کو قبول کیا۔ میرے دل و دماغ نے گواہی دی کہ اسلام ایک سچا دین ہے اور اسے قبول کرنا ہی سب سے بڑی دانائی ہے۔

س: اسلام قبول کرنے کے بعد آپ کے دوستوں اور خاندان کا ردِّ عمل کیا تھا؟ آپ نے اس کا کیسے مقابلہ کیا؟

ج: میرے والدین اور خاندان کے دیگر لوگ سخت ناراض ہوئے۔ ان کا کہنا تھا کہ اسلام کا مزاج ہی ظلم پر استوار ہے اور خصوصاً اس مذہب میں خواتین کے ساتھ بہیمانہ سلوک روا رکھا جاتا ہے، چنانچہ جب میں نے اسلامی لباس اختیار کیا اور سر پر اسکارف باندھنے لگی، تو انھوں نے سخت مخالفت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کے رویے سے عورت کی آزادی سلب ہوکر رہ جاتی ہے۔ تاہم میری سہیلیوں نے میرے قبولِ اسلام پر کسی سنجیدہ ردِّ عمل کا اظہار نہ کیا، ان کے خیال میں یہ محض ایک جذباتی ابال ہے، جو ایک آدھ سال میںٹھنڈا ہوجائے گا۔

غرض تین برس تک میرے اپنے خاندان اور ماحول سے شدید کشمکش رہی، حتی کہ انیس سال کی عمر میں میں نے ایک مسلمان سے شادی کرکے الگ گھر بسا لیا۔

س: اسلام قبول کرنے کے بعد آپ نے اپنی روز مرہ کی زندگی میں کیسی تبدیلیاں محسوس کیں؟

ج: اسلام قبول کرنے کے بعد میں نے اللہ تعالیٰ کی توفیق سے بہت سی تبدیلیاں پیدا کیں یا خود بخود ہوگئیں، اسلامی شعار اختیار کرنے اور حلال و حرام کا خیال رکھنے کے بعد سارے غیر مسلم دوستوں کو تج کر مسلمان حضرات سے تعلقات استوار ہوئے۔ میرے سسرال کا سارا خاندان مسلمان تھا، ان سے بالکل نئی نہج پر تعلقات بنے۔

یورپی معاشرت میں خاص تبدیلی تو یہ ہے کہ میں مستور لباس پہنتی ہوں، کلبوں میں نہیں جاتی، خاتونِ خانہ کی حیثیت سے گھر پر زندگی گزار رہی ہوں، نمازوں کے اوقات کے ساتھ ساتھ معمولات استوار ہوگئے ہیں، میرے ارد گرد لوگ گرمیوں کی دوپہر میں نیم عریاں لباس پہن کر ساحل سمندر پرمستیاں کرتے ہیں، لیکن میں مکمل لباس زیب تن کرکے مطمئن و مسرور اپنے کاموں میں مصروف رہتی ہوں۔

س: آپ کے خیال میں آپ کے سابق مذہب عیسائیت اور اسلام میں بنیادی فرق کیا ہے؟

ج: موجودہ عیسائیت اور اسلام میں فرق یہ ہے کہ آپ ہر کام کرنے میں اس وقت تک مکمل آزاد ہیں جب تک آپ کا ہمسایہ پریشان نہ ہو، بالخصوص جنسی اعتبار سے یہ معاشرہ مادر پدر آزاد ہے، کسی نوعیت کی کوئی قدغن نہیں اور جنسی تعلق کے حوالے سے کوئی ذمہ داری نہیں، جب کہ اس کے برعکس اسلام معاشرتی اور جنسی حوالے سے بہت سی پابندیاں نافذ کرتا ہے، اسلام میں جنس تو خالص شوہر اور بیوی تک محدود ہے اس سے ہٹ کر اس کا کوئی تصور نہیں ہے، اسلام مرد و خواتین کی مخلوط محفلوں کی اجازت نہیں دیتا، جب کہ یورپین معاشرت اس کے بغیر بالکل نامکمل ہے۔

پھر اسلام خاندانی نظام کا تحفظ کرتا ہے، جب کہ یورپ اس سے محروم ہوچکا ہے۔ اسلام نے خاندانی نظام کے تحفظ کے لیے متعدد اصول وضع کر رکھے ہیں، جب کہ عیسائی معاشرہ اس نوع کے ضوابط سے آزاد ہے۔مختصراً یہ کہا جاسکتا ہے کہ میرا اپنا دین اسلام چوبیس گھنٹے کا مذہب ہے، جب کہ عیسائیت ہفتے میں صرف دو گھنٹے کے لیے بیدار ہوتی ہے وہ بھی کسل مندی کے ساتھ۔

س: آپ کے نزدیک یورپین معاشرے اور اس کی قدروں کی کیا خامیاں ہیں اور اسلام کے وہ کون سے روشن پہلو ہیں جنھوں نے آپ کو سب سے زیادہ متاثر کیا؟

ج: یورپین معاشرے کی خامیاں اور اسلام کی خوبیاں بیان کرنے کے لیے تو مجھے باقاعدہ ایک کتاب لکھنی چاہیے۔ مختصراً عرض کرتی ہوں کہ مغرب میں ’’آزادی بلاذمہ داری اور پابندی‘‘ کا پرچار کیا جاتا ہے، جب کہ اسلام انسانوں کو ’’آزادی مع ذمہ داری‘‘ کا پابند کرتا ہے اور صحیح اور غلط کے معاملے میں مکمل راہنمائی بھی فراہم کرتا ہے۔

س: آپ کے خیال میں عہد حاضر میں تبلیغ اسلام کا صحیح ترین طریقہ کیا ہے؟

ج: میرے نزدیک تبلیغ اسلام کا مناسب ترین طریقہ یہ ہے کہ ہم شعوری طور پر صحابہ کرامؓ اور قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں کی زندگیوں کا مطالعہ کریں اور تبلیغ دین کے حوالے سے ان سے راہنمائی حاصل کریں، لوگوں کو بتائیں کہ وہ روحانی اور اخلاقی اعتبار سے بیمار ہیں اور اسلامی اقدار و اخلاق ہی ان امراض کا علاج کرسکتے ہیں۔ انہیں قائل کریں کہ اسلام ہی گھر اور معاشرے کے مسائل کو حل کرسکتا ہے اور اسلامی قوانین ہی ساری انفرادی و اجتماعی قباحتوں کو ختم کرسکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی بہت ضروری ہے کہ خواہ مخواہ مغرب کی خامیوں کا ذکر کم کیا جائے اور مثبت انداز میں اسلام کی خوبیوں کو زیادہ اجاگر کیا جائے۔

س: اسلام کے ساتھ پیدائشی اور نسلی مسلمانوں نے جو سلوک روا رکھا ہے، اس پر آپ کیا تبصرہ کریں گی؟

ج: یہ امر واقعی تکلیف دہ ہے کہ بہت سے نسلی مسلمان اپنے رویے سے باعمل مسلمانوں کے لیے پریشانی کا باعث بنتے ہیں، چنانچہ اکثر لوگ مجھ سے سوال کرتے ہیں کہ یہ پرانی مسلمان عورتیں تو ننگے سر آزادانہ گھومتی ہیں، پھر تم سر کو اسکارف سے کیوں باندھے رکھتی ہو؟ پھر یہ بات بھی خاصی تعجب خیز ہے کہ بہت سے نسلی مسلمان اسلام کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتے اور جب کسی دینی عنوان پر ان سے کوئی سوال کیا جاتا ہے تو معذرت کرنے کے بجائے ایسا غلط سلط جواب دے دیتے ہیں جو بعض اوقات دینی تعلیمات کے بالکل ہی برعکس ہوتا ہے۔ شاید اسی لیے ہم جیسے لوگ جو اسلام کو شعوری طور پر سمجھتے ہیں اور اس کی تعلیمات پر عمل کرتے ہیں، انہیں تو طنزاً ’’بنیاد پرست‘‘ اور ’’تنگ نظر‘‘ کہا جاتا ہے، لیکن یہ پرانے بے عمل مسلمان ’’ماڈرن‘‘ اور ’’لبرل‘‘ کہلاتے ہیں۔

س: ایشیائی مسلمانوں کے لیے آپ کا پیغام؟

ج: میں دیکھتی ہوں کہ ایشیائی پر جوش مسلمان ہیں، جو اسلامی حوالے سے اپنا کردار ادا کرنے میں لگے ہیں، ان میں سے بعض مسلمان تو اسلام کے بارے میں بہت اچھا علم رکھتے ہیں اور محض سنی سنائی رسمی باتوں کو سینے سے لگائے ہوئے ہیں، ان میں سے اکثر وہ ہیں جو قرآن کا ایک لفظ بھی نہیں سمجھتے اور محض اس کے متن کی تلاوت کرنے کو کافی جانتے ہیں۔ میرے نزدیک یہ اوقات کا ضیاع ہے۔ میرا مشورہ ہے کہ براہِ کرم شریعت اور حدیثِ نبوی کا علم حاصل کیجیے اور قرآن کو سمجھ کر پڑھئے اور اس کی تعلیمات پر عمل بھی کیجیے۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں