قارئین کو یہ سن کر حیرت ہوگی اور یقیناً طبیعت کو تکدر بھی محسوس ہوگا کہ کل امریکی صدر جوبائڈن نے ’’سیم سیکس میریٹل لا‘‘ پر دستخط کردیے۔ اس کے ساتھ ہی اب امریکہ میں مرد مرد سے اور عورت کسی عورت سے قانونی طور پر شادی کرسکیں گے۔ امریکی صدر نے اس قانون کو نفرت کے خلاف کامیابی قرار دیا اور محبت کا دفاع بتاتے ہوئے اس پر دستخط ثبت کردیے۔ اس موقع پر امریکہ کی دونوں سیاسی پارٹیوں کے اعلیٰ رہنما موجود تھے اور اپنی خوشی کا میڈیا کے سامنے اظہار کررہے تھے۔ اس قانون کو امریکہ میں جنس کی بنیادپر چل رہے تنازعات کا خاتمہ تصور کیا جارہا ہے۔ اس قانون سے امریکہ میں مقبول ہوتی ’سیم سیکس‘ شادیوں کو قانونی تحفظ حاصل ہوگیا اور اس جنس کے دیوانوں کو قرار آگیا جسے وہ اپنی کامیابی قرار دے رہے ہیں۔ اس موقع پر امریکی سینٹ کے میجورٹی لیڈر نے کہا: ’’ان ملینس افراد کا شکریہ جنھوں نے اس تبدیلی کی کوشش کے لیے سالوں سال صرف کیے اور ان ساتھیوں کا بھی شکریہ جنھوں ے اس کے لیے جدوجہد کی۔‘‘اس موقع پر امریکی سینٹ کی اسپیکر نینسی پلوسی بھی موجود تھیں اور انھوں نے بھی اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے تبدیلی کے خواہش مندوں کے صبر اور ان کے ’’پیٹریاٹزم‘‘ کی ستائش کی۔ اس قانون کے مطابق انٹرریشییل شادیوں کو بھی منظوری مل گئی۔ 1967ء میں امریکی سپریم کورٹ نے انٹر ریشییل شادی کی درخواست کو رد کردیا تھا۔
امریکہ کا یہ نیا قانون جسے وہاں کے حکمراں اور عوام دونوںہی ’’بڑی تبدیلی‘‘ گردان رہے ہیں حقیقت میں نہ صرف امریکہ کے لیے ’’بڑی تبدیلی‘‘ ہے بلکہ پوری دنیا کے لیے بڑی تبدیلی ہے۔ اس کی ایک حیثیت تو یہ ہے کہ اب امریکہ میں مرد مرد سے اور عورت عورت سے شادی کرسکیں گے اور نسل انسانی کی تباہی کا سامان کریں گے اور دوسری اہمیت یہ ہے کہ اب یہ ’تبدیلی‘ دنیا کے دیگر ممالک اور خطوں میں بھی لانے کی عالمی جدوجہد کا آغاز ہوگا اور دیر سویر یہ ’تبدیلی‘ وسعت اختیار کرتے ہوئے دنیا کے سامنے نئے چیلنجز اور نئے مسائل پیش کرے گی۔ اس ’تبدیلی‘ کے ذریعہ جو سب سے بڑا بحران پیدا ہونے والا ہے وہ نسل انسانی کی بقاء کا بحران ہوگا، اس لیے کہ انسانی نسل کو باقی رکھنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے جو نظام تخلیق کیا ہے وہ مرد و عورت کی شادی ہے جس سے نسل انسانی کا سلسلہ جاری ہوتا ہے۔
پورا مغرب اس وقت انسانی آبادی کے بحران میں مبتلا ہے اور انسانوں کی گھٹتی آبادی کے تناسب نے ایسی سنگین صورتِ حال اختیار کرلی ہے کہ مغرب کو اپنی ترقی کو باقی رکھنے کے لیے مطلوب انسانی وسائل اندر سے دستیاب نہیں ہیں اور وہ باہر سے انسانی وسائل کو درآمد کرنے کے لیے لوگوں کو شوق دلا رہے ہیں۔ اسی طرح شادی کے ادارے کے بحران نے وہاں نسل انسانی کو فطری رفتار سے بڑھنے کےامکانات کو اس قدر کمزور کردیا ہے کہ وہاں کے افراد دیگر ممالک میں، خصوصاً غریب ممالک میں، جاکر ’’سیروگیٹ مدرس‘‘ کی خدمات حاصل کرنے پر مجبور ہیں۔ وہ وہاں جاکر کرائے کی ماؤں سے بچے پیدا کرواکر اپنے ملک لے جاتے ہیں۔ ہندوستان بھی ان ممالک میں سے ایک ہے جہاں لوگ ’’سیروگیسی‘‘ کے لیے آتے ہیں چنانچہ ہمارے ملک میںاس سے متعلق ایک باقاعدہ قانون بنا ہوا ہے۔
امریکہ میں پاس ہونے والا یہ نیا قانون کتنا ہی حسین بناکر پیش کیا جائے اور امریکی سماج کے لیے سیاسی، سماجی اور معاشرتی اعتبار سے کتنا ہی اہم کیوں نہ ہو، امریکی سماج کے اخلاقی بحران بلکہ دیوالیہ پن کو ظاہر کرتا ہے اور اس کا تاریک ترین پہلو یہ ہے کہ اب امریکہ اور مغربی طاقتیں اس اخلاقی قباحت کو پوری دنیا میں پھیلانے کی کوشش مزید تیز کردیں گی۔ یہ بات واضح ہے کہ امریکی طرز کے اخلاقی دیوالیہ پن کے شکار افراد پوری دنیا میں اس کے لیے کوشاں ہیں اور ہندوستان میں بھی ہیں۔ چنانچہ عین اس دن جب یہ قانون امریکہ میں قانونی شکل لی، اسی دن سپریم کورٹ آف انڈیا نے مرکزی حکومت کو ’’سیم سیکس یونین‘‘ پر اس کا موقف جاننے کے لیے نوٹس جاری کیا۔
چیف جسٹس آف انڈیا کی سربراہی والی ایک بینچ نے 46 سالہ ایک ہندوستانی کی درخواست پر یہ جاری کیا جس نے امریکہ میں 2010 میں سیم سیکس شادی کی تھی۔ یہ دونوں پونے کے رہنے والے ہیں۔ دونوں نے’’ہندو میرج ایکٹ‘‘ 1955 کے تحت شادی کے رجسٹریشن کی درخواست دی اور رد ہوجانے پر فارن میرج ایکٹ 1969 کے تحت درخواست دی اور وہاں سے بھی رد کردی گئی۔اب یہ معاملہ سپریم کورٹ میں ہے۔ اس پر حکومت کا موقف اور سپریم کورٹ کا فیصلہ ہندوستان میں اہمیت کا حامل ہوگا۔
یونیفارم سول کوڈ:ڈرنے کی ضرورت نہیں!
یونیفارم سول کوڈ،جو برسر اقتدار پارٹی کا انتخابی وعدہ بھی ہے اور نظریاتی ایجنڈہ بھی، اب تیاری کے مرحلے سے نکل کر پارلیمانی راہ پر آگیا ہے۔ اب سے پہلے اس سلسلے میں مرکزی اور ریاستی سطح پر کمیٹیاں بنا کر قانون کا خاکہ تیارکرنے کا طویل عمل انجام دیا جارہاتھا۔ حال ہی میں انجام پذیرہونے والے ریاستی انتخابات میں بھی یونیفارم سول کوڈ کی گونج سنائی دیتی رہی مگر9/ دسمبر کو اسے پرائیویٹ بل کے طور پر پارلیامینٹ کے ایوان بالا میں پیش کیا گیا۔ ہو سکتا ہے کہ یہ برسر اقتدار پارٹی کی جانب سے ایک ٹرائل ہو اوربعد میں اسے اپنے منصوبے کے مطابق مضبوط انداز میں پیش کیا جائے۔ اس کی قانون سازی میں کیا اہمیت ہوگی اس پر کچھ کہے بنا، اب یہ دیکھنا ہے کہ اپوزیشن پارٹیاں اس پر کیا رخ اور اسٹریٹجی اختیار کرتی ہیں اور آخر کار یہ ملک اور اہل ملک کو کیا دیتا ہے۔
اب تک میڈیا میں یہی تصور دیا جاتا رہا ہے کہ اس کا فائدہ مسلمان اٹھاتے ہیں۔ اس بات کو جس رنگ و آہنگ اور فرقہ وارانہ اندازمیں ہیش کیاجاتا رہاہے اس سے بھی صاف ہے کہ اس کا اصل ھدف مسلمانوں ہی کو بنانے کی سوچ ہے، حالانکہ اس میں ملک کی بے شمار تہذیبی، علاقائی، لسانی اور قبائلی اکائیاں شامل ہیں۔ مسئلہ صرف مسلمانوں کا نہیں ان تمام اکائیوں کا ہے جو اب تک پرسنل لا سے مستفید ہوتی رہی ہیں۔
حقیقت یہی ہے کہ اس کی مخالفت میں سب سے زیادہ ملک کے مسلمان ہی پیش پیش بھی رہے ہیں۔ اس کے مذہبی، تہذیبی اور سیاسی اسباب ہیں۔ اکثریت کے درمیان اقلیتیں ہمیشہ اور ہر جگہ حساس اور اہنے مذہب اور اپنی تہذیب و ثقافت کو لیکر اندیشوں کا شکار رہتی ہیں اور یہ فطری بات ہے الا یہ کہ کسی ملک کا نظام حکومت و سیاست ملک کے شہریوں کو اس بات کی عملی ضمانت فراہم کردے کہ وہ ہر حال میں محفوظ ہیں۔ بد قسمتی سے ہندوستان کے سیاسی، سماجی اور مذہبی حالات کے چلتے ہندوستان میں ایسا نہیں ہوسکا۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جب بھی یونیفارم سول کوڈ کی بات آئی، مسلمان ہمیشہ اس کی مخالمت میں کھڑے ہوئے اور اس مخالفت کی وجہ وہی سیاسی، سماجی اور مذہبی اسباب تھے، جنھوں نے ان کے اندر حساسیت اور اندیشوں کی نفسیات پیدا کی اور اب جبکہ ملک میں ایک ایسی پارٹی پرسر اقتدار ہے جومذہبی اعتبار سے مسلمانوں کو اپنا مخالف اور مسلمان اسے اپنا مخالف تصور کرتے ہیں، یونیفارم سول کوڈ کی آہٹ ان کے لئے اس بات کا اندیشہ ظاہر کر رہی ہے کہ ان کا مذہب اور ان کی تہذیب پر خطرات کے بادل منڈلا رہے ہیں۔
اس موقع پر ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اگر یونیفارم سول کوڈ آتا ہے تو آئے۔ ہم تو اسے روک نہیں سکتے اور ملک کی وہ عوام جو اس سے فائدہ اٹھاتی رہی ہے اور جن کا بھی وہ معاملہ ہے انہیں بھی آگے آنا چاہیے۔ اسی طرح اگر ملک کی دیگر سیاسی پارٹیاں اسے ملک کے لئے غلط اور نقصان دہ سمجھتی ہیں تو انہیں بھی اپنا سیاسی رول ادا کرنا چاہئے۔ اس ملک میں جمہوریت اور قانون کے تحفظ کی ذمہ داری تمام شہریوں کی ہے محض ایک اقلیت سے اس بات کی توقع کرنا کہ ملک میں جمہوریت اور قانوں کی جنگ لڑے گی، درست نہیں ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ خوف مسئلہ کا حل نہیں ہے۔ حل کبھی خوف کی کیفیت میں نہیں نکالا جاسکتا۔ مسائل کا حل ہمیشہ جرات و ہمت کی صورت اور کیفیت میں ہی نکالا جاسکتا ہے۔ خوف کی نفسیات تو انسانوں کو قبل ازوقت ہی ناکارہ بنادیتی ہے اور مخالف کی سب سے پہلی کوشش یہی ہوتی ہے کہ وہ دوسرے کو خوف میں مبتلا کردے اور وہ صورت حال سے مقابلے کی ہمت سے محروم ہو جائے۔ اس لیے ہم کہتے ہیں کہ اگر ملک میں یونیفارم سول کوڈ آتاہے تو ہمیں اس سے قطعاً خوف زدہ یا مایوس ہونے کی ضرورت نہیں بلکہ یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ جب یہ آئے گا تو ہمیں اس وقت کی صورت حال میں اپنے مذہب،عقیدے اور تہذیبی اقدارکو، اگر ان پر کوئی چوٹ پڑتی ہےتو،کس طرح تحفظ فراہم کرنا ہے۔