دنیا کے تقریباً تما معاشروں کا یہ رواج ہے کہ بزرگ اور والدین اپنے بچوں سے بہت سی خواہشات وابستہ کرلیتے ہیں۔ ان کی دلی آرزو ہوتی ہے کہ جو کام وہ نہیں کرسکے وہ ان کے بچے پورا کریں اور ان کا نام روشن کریں۔ یہی وجہ ہے کہ تعلیم یافتہ گھرانوں کے بزرگ گھر کے بچوں کی تعلیم و تربیت پر بچپن ہی سے توجہ دینی شروع کر دیتے ہیں۔ خیال رکھتے ہیں کہ گھر کا ماحول کوش گوار رہے تاکہ بچوں کے ذہنوں پر کوئی منفی اثر نہ ہو، کیوں کہ سب جانتے ہیں کہ ذہنی نشو نما کے لیے پرسکون ماحول کا ہونا انتہائی ضروری ہے۔ بالکل یہی معاملہ ملک و قوم کا بھی ہے وہ نئی نسل سے یہ توقع رکھتی ہے کہ وہ ملک و قوم کی ترقی کے لیے کام کرے گی اور اس کی ترقی کو بام عروج بخشے گی۔ اسی لیے سمجھ دار اقوام اپنے نوجوانوں کی تعلیم و تربیت کا نہ صرف خیال رکھتی ہیں بلکہ اس بات کا بھی خیا رکھتی ہیں کہ انہیں پرسکون اور پر امن ماحول بھی فراہم کیا جائے تاکہ وہ بہتر طور سے نصابی و غیر نصابی سرگرمیاں انجام دے سکیں۔
اب اگر ہمارے ملک کی بات کی جائے تو یہاں آبادی کا بیش تر حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے، انہیں ملک و قوم کے لیے اثاثہ تو تصور کیا جاتا ہے لیکن اس ’’اثاثے‘‘ کی دیکھ بھال نہیں کی جاتی۔ اس کی مثال ایسے دی جاسکتی ہے کہ ہم پودا لگانے کے بجائے اسے ہاتھ میں لیے بیٹھے رہیں اور امید بھی کریں کہ مستقبل میں یہ ہمیں پھل دے گا۔ پودا خرید کر لانا کمال نہیں ہے بلکہ اسے لگاکر دیکھ بھال کی جائے، اس پر دھیان دیا جائے تبھی ثمر کی توقع بھی کی جانی چاہیے۔ کچھ یہی حال ہمارے حکمرانوں کا بھی ہے۔ جلسوں کو کام یاب بنانے اور سیاست چمکانے کے لیے تو نوجوانوں کی ترقی، انہیں سہولتیں فراہم کرنے، روز گار مہیا کرنے کے وعدے اور نعرے ہیں لیکن یہ نعرے محض ’’نعروں‘‘ تک ہی محدود رہتے ہیں۔ حقیقتا ان وعدوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے کوئی کام نہیں کرتا۔ کسی کو خیال نہیں کہ وہ کن مشکلات سے دوچار ہیں۔ بے روزگاری، مہنگی تعلیم یا دیگر مسائل کی وجہ سے وہ انتشار اور مایوسی کا شکار ہیں جو انہیں ذہنی تناؤ میں مبتلا کر رہے ہیں۔
کہنے کے لیے تو ذہنی تناؤ ایک عام سا لفظ ہے۔ آج کل ہر دوسرا فرد اس میں مبتلا نظر آتا ہے لیکن نسل نو کا اس میں مبتلا ہونا ہمارے لیے لمحہ فکریہ بھی ہے اور ناقص پالیسیوں کا ثبوت بھی۔ ویسے تو لگ بھک پوری دنیا ہی کے نوجوان ذہنی تناؤ کا شکار ہیں لیکن یہ شرح ہمارے ملک میں کچھ زیادہ ہی ہے۔ اس کی چند بنیادی وجوہ وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم، نجی تعلیمی نظام، بے روزگاری، غیر حقیقی سماجی اور خاندانی توقعات وغیرہ ہیں، جن سے مایوسی کا گہرا احساس جنم لیتا ہے۔ یہاں اس امر کی وضاحت کرنا بھی ضروری ہے کہ معماران وطن صرف سہولتوں کے فقدان کی وجہ ہی سے ذہنی کوفت یا انتشار کا شکار نہیں ہیں بلکہ اس میں قصور وار والدین بھی ہیں۔
جب سے بچہ ہوش سنبھالتا ہے اسے ریس کے گھوڑے کی طرح بنا سوچے سمجھے بس ’’دوڑنے‘‘ اور ’’جیتنے‘‘ کا سبق رٹوایا جانے لگتا ہے۔ تعلیم کی اہمیت یا باشعور بننے کے بجائے ’’فرسٹ‘‘ آنے پر زور دیا جاتا ہے۔ یہ بنا سوچے سمجھے کہ ہر بچے کا ذہن، قابلیت اور صلاحیتیں دوسرے سے الگ ہوتی ہیں۔ یہی بچے جب کسی وجہ سے کسی مضمون میں پیچھے رہ جائیں تو والدین کی جانب سے ان پر اتنی سختی یا ڈانٹ ڈپٹ کی جاتی ہے کہ ان کی تمام صلاحیتیں آہستہ آہستہ ختم ہوتی جاتی ہیں اور خود اعتمادی کو زنگ لگتا جاتا ہے۔
کچھ والدین کے لیے ان کا نام نہاد ’’اسٹیٹس‘‘ اتنا اہم ہوتا ہے کہ وہ بچوں کی مرضی کے برخلاف ان کے لیے اپنے من پسند شعبے کا چناؤ کرتے ہیں، انہیں اس بات سے کوئی سروکار نہیں ہوتا کہ اس طرزِ عمل سے وہ کس قدر ذہنی تناؤ کا شکار ہوتے ہیں، جو آگے چل کر ان کی جسمانی صحت بھی متاثر کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کسی زمانے میں بلڈ پریشر یا دل کے امراض صرف عمر رسیدہ افراد میں ہوتے تھے لیکن آج نوجوان بھی ان امراض میں مبتلا نظر آتے ہیں بلکہ وقت کے ساتھ اس تعداد میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
امید کی جاتی ہے کہ نسل نو ہمارا نام روشن کرے گی لیکن ذرا سوچیں کہ جب تک انہیں گھر اور ریاستی سطح پر آگے بڑھنے کے لیے پرسکون ماحول فراہم نہیں کیا جائے گا تب تک وہ کیسے آگے بڑھے گی؟ آج کل ہر دوسرا نوجوان ذہنی کوفت و انتشار کا شکار ہے، کوئی مہینگی تعلیم سے پریشان ہے تو کوئی اسناد کا پلندہ ہاتھوں میں لیے نوکری کی تلاش میں در در کی ٹھوکریں کھا کر تھک چکا ہے، تو کسی کو گھر والوں کی کفالت کی فکر ہے، ہر گزرتے دن کے ساتھ نوجوانوں کی پریشانیوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ نہ یہاں پارک آباد ہیں، نہ صح تمند تفریح کے مواقع میسر ہیں جہاں جاکر دماغ کو ترو تازہ کیا جاسکے۔ ایسے حالات میں نوجوان انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کو غنیمت جان کر ان کے ذریعے ترو تازہ ہونے کی کوشش کرتے ہیں مگر ایک حالیہ سروے میں معلوم ہوا ہے کہ ہر وقت آن لائن رہنے والے نوجوانوں میں ڈپریشن کے شکار ہونے کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔ یعنی پریشانیوں سے فرار کا جو راستہ نسل نو نے اپنایا ہے، اس سے بظاہر تو دماغ تازہ ہو جاتا ہے لیکن یہ ذہنی صحت متاثر کرنے کا باعث بن رہا ہے۔ صحت مند نوجوان ملک و قوم کو بام عروج پر پہنچا سکتے ہیں، اس لیے ضروری ہے کہ انہیں پرسکون ماحول فراہم کیا جائے تاکہ وہ خود اعتمادی کے ساتھ آگے بڑھ سکیں۔lll