(نسوانیت برائے فروخت!! (سیروگیٹ مدرس یعنی کرائے کی کوکھ

سعدیہ اختر عندلیب، ہاسن

’’کرائے کی ماں‘‘ کے سلسلہ میں ابھی تک تو سب کچھ ہورہا ہے۔ کرائے کی ماؤں کے استحصال اور اس عمل کو تجارت کے طور پر چلانے ، ان خواتین کو تحفظ فراہم کرنے کے سلسلے میں کوئی ضابطہ نہیں ہے۔ جو بچے کرائے کی کوکھ سے جنم لیتے ہیں، ان کے حقوق واضح نہیں ہیں۔ غیر ملکیوں کی ایک بڑی تعداد ماؤں کے رحم کو کرائے پر لینے کے لیے آتی ہے اور وہ بچہ لے کر غائب ہوجاتے ہیں۔ ہم ہندوستان کو کرائے کے رحم کے حصول کے لیے سستا بازار بننے دینا نہیں چاہتے۔‘‘

یہ الفاظ یونین منسٹر برائے ویمن اینڈ چائلڈ ویلفیئر محترمہ رینوکا چودھری کے ہیں جو انھوں نے ۲۴؍جون کو کہے۔ انھوں نے مزید کہا: ’’حکومت سیروگیسی سے نمٹنے کے لیے ایک سال کے اندر اندر ایک قانون بنائے گی جس میں کرائے کی ماؤں اور ان سے جنم لینے والے بچوں کے حقوق بھی شامل ہوں گے۔‘‘

چند سال قبل گجرات کے ’’اڑند‘‘ ضلع میں تقریباً ایک درجن خواتین چہروں پر ماسک لگائے پریس کے سامنے آئیں اور بات کی۔ انھوں نے ماسک اس لیے پہن رکھے تھے کہ ان کی شناخت نہ ہوسکے۔ یہ سبھی خواتین وہ تھیں جنھوں نے دوسرے بے اولاد مردوں کے بچوں کو نو ماہ اپنے پیٹ میں پالا تھا اور پیدا ہونے کے بعد انہیں اس کے بدلے ایک سے دو لاکھ روپے ملے تھے۔ یہ خواتین خود بھی شادی شدہ تھیں اور ایک یا دو بچوں کی مائیں بھی تھیں۔

دراصل سائنس و ٹکنالوجی کے اس ’’ترقی یافتہ‘‘ دور میں ان وٹروفرٹی لائزیشن (آئی وی ایف) تکنیک کے ذریعے ان بے اولاد جوڑوں کو اولاد حاصل کرنے کا طریقہ مل گیا ہے جو قدرتی طور پر بچے پیدا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ اس کے ذریعے ایک مرد اور ایک عورت کے مادئہ منویہ کو ملاکر لیب میں جنین تیار کیا جاتا ہے۔ پھر اس جنین کو ایک عورت کے رحم کی ضرورت ہوتی ہے جو اسے اپنے پیٹ میں رکھ کر پرورش کرے اور پھر پیدا ہونے کے بعد اس جوڑے کو دے دے جس نے اسے لیب سے خریدا تھا۔ اور پھر وہ اسے اپنی اولاد مان کر صاحبِ اولاد ہوجاتے ہیں۔

آج گجرات اور مہاراشٹر کے کئی فرٹی لیٹی کلینک بے اولاد جوڑوں کو کرائے کی مائیں فراہم کررہے ہیں اور یہ تجارت کافی تیزی سے پھل پھول رہی ہے۔ اس میں خریدار دیسی بھی ہیں اور غیر ملکی بھی۔ یہاں سیروگیٹ ماؤں اور اولاد کے خواہش مند جوڑوں کے درمیان باقاعدہ قانونی معاہدہ ہوتا ہے تاکہ عورت بچہ دینے کے وعدے سے پھر نہ جائے۔ یہ ذمہ داری ڈاکٹر کی ہوتی ہے کہ سیروگیٹ ماں کو معاہدہ کے مطابق پورا پیسہ ملے۔ اس کے علاوہ حمل سے متعلق جملہ اخراجات بھی اولاد کا خواہش مند جوڑا ہی برداشت کرتا ہے۔ کرائے کی کوکھ کا یہ بزنس ملک کے کئی حصوں میں خوب ترقی کررہا ہے اور کئی فرٹی لٹی کلینک ’’سیروگیسی‘‘ پروگرام کھلے عام چلا رہے ہیں۔

سیروگیٹ ماؤں کے حصول کے لیے باقاعدہ اخبارات میں اشتہار بھی دیے جاتے ہیں۔ اس پروگرام کے تحت ۲۵ سے ۳۰ سال عمر کی خواتین کو ممبر بننے کے لیے مدعو کیا جاتا ہے اور اس کام کے لیے انہیں ایک لاکھ سے آٹھ دس لاکھ روپئے تک دیے جاتے ہیں۔ گجرات کے اڑند ضلع میں ضرورت مند پڑھی لکھی خواتین ڈیڑھ سے دو لاکھ روپئے کمارہی ہیں، جبکہ پونے کے کلینک اس طرح کی خواتین کو پورے کنٹریکٹ کا آٹھ سے دس لاکھ روپئے تک دلا رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سی خواتین جن میں غریب اور امیر سب شامل ہیں اس عمل کو ایک اچھے پیشے کے طور پر اختیار کررہی ہیں۔

قابلِ غور ہے کہ ایک رکشہ چالک کی بیوی چنڈی گڑھ کی نرمل نے اپنے شوہر کے علاج کے لیے محض پچاس ہزار روپئے کے بدلے اپنی کوکھ کرائے پر اٹھا دی تھی یہ ۱۹۹۷ء کا واقعہ ہے۔ اس وقت اس مسئلے پر کافی واویلا مچا تھا۔ جبکہ بریکی کی ایک محض سولہ سالہ لڑکی نے غربت سے تنگ آکر اپنی ماں اور خاندان کا پیٹ بھرنے کے لیے اپنی کوکھ میں کرائے کے بچے کو پالا اور ایسا اس نے دو بار کیا۔

سیروگیٹ مدر یا آئی وی ایف تکنیک کی اس تجارت نے خواتین ہی کی کوکھ کو کرائے پر نہیں اٹھایا بلکہ مردوں خصوصاً نوجوانوں کے لیے بھی ’مردانگی فروخت‘ کے نئے مواقع پیدا کردیے۔ اب اس طرح کے کلینک کی لیبارٹیریز میں جاکر اعلیٰ تعلیمی اداروں کے طلبہ جن میں جواہر لال نہرو یونیورسٹی، آئی آئی ٹی، آئی آئی ایم اور دیگر معیاری، اعلیٰ تعلیم کے ادارے شامل ہیں اپنے مادئہ منویہ کو فروخت کررہے ہیں۔ اس کے بدلے انھیں پچیس سے تیس ہزار روپئے تک حاصل ہوجاتے ہیں۔

یہ ایک عجیب وغریب صورتحال ہے جس کا تصور اب سے بیس سال پہلے نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اور اگر کوئی مرد یا عورت اس طرح کی بات کرتا تو اسے اخلاقی دیوالیہ پن اور سماجی بدکرداری کا مجرم گردانا جاتا۔ مگر اب حکومت اسے باضابطہ تجارت مان کر اس کے لیے قانون بنانے کی کوشش میں لگی ہے اور یہ سب عورت کے حقوق کے تحفظ کے نام پر کیا جارہا ہے۔

موجودہ زمانے میں عورت کی بدقسمتی یہ ہے کہ اس کی ہرچیز سامانِ تجارت قرار پاتی ہے۔ اس کے جسمانی حسن سے لے کر اس کی اداؤں تک کو سامانِ تجارت بنادیا گیا ہے۔ اخبارات میں اس کی مسکراہٹ اور دلبرانہ انداز تک تجارت کے فروغ کا ذریعہ بن گئے ہیں۔ ریمپ پر اس کی لہراتی،مٹکتی چال فیشن انڈسٹری کا سرمایۂ حیات ہیں اور اب اس کی نسوانیت خاص یعنی اس کے رحم کی بھی تجارت ہورہیہے۔ یہ جدید دور کے ’فیوض و برکات‘ ہیں جو ’جدید دور کی عورت‘ کو میسر آئے ہیں۔ ان تمام کا مقصد دولت کا حصول ہے اس لیے ہر اس چیز کو جائز ٹھہرایا جاتا ہے جس سے دولت کمائی جاسکے۔ کسی بھی عمل کے جائز ہونے کے لیے اتنا کافی ہے کہ اس سے وافر مقدار میں دولت میسر آتی ہو۔ یہی معاملہ سیروگیٹ مدرس کا بھی ہے۔ اس میں تو ’’بومنگ بزنس‘‘ پوشیدہ ہے۔ عورت کے لیے بھی، تکنیک ایجاد کرنے والوں کے لیے بھی اور اس میدان سے جڑے اسپتالوں اور لیبارٹریز کے لیے بھی۔ ایسے میں اگر کوئی ’دیوانہ‘ اخلاق و کردار اور سماجی اقدار و روایات کا ذکر چھیڑ دے تو وہ بیک ورڈ کا لقب پاکر سماج میں ’نکّو‘ بن جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اچھے اچھے لوگ بڑی سے بڑی واہیات حرکتوں کی بھی دبی زبان تک میں مخالفت کی ہمت نہیں جٹا پاتے۔ بزدلی اور خود غرضی ہی ہے جو آج ہمارے سماج کے تانے بانے بکھیر کر ہمیں اخلاقی دیوالیہ پن کی طرف دھکیل رہی ہے اور ہم ایک قسم کے سماجی بحران کی طرف بگ ٹٹ دوڑے جارہے ہیں۔

یہاں شیطان دوست لوگ برائیوں کو ایسے حسین پیرایوں میں بیان کرتے اور لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں کہ نہ صرف وہ برائی نظر نہیں آتی بلکہ ایک ’خیر کثیر‘ اور بڑی نیکی نظر آنے لگتی ہے۔ اس سیروگیسی یا کرائے کی کوکھ کو بھی ایسا حسین بناکر پیش کیا جارہا ہے کہ عام نظر اس طرف جاتی ہی نہیں کہ ایک عورت خواہ غربت سے مجبور ہوکر یا محض اپنے معیار زندگی کو بلند کرنے اور دولت کمانے کے لیے اپنی کوکھ کو کرائے پر دے تو یہ اس کی کتنی بڑی توہین اور اس کا کتنا بڑا استحصال ہے۔

سیروگیسی کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ یہ پڑے ’’پنیہ‘‘ اور نیکی کا کام ہے کہ آپ ایک ایسے خاندان کو جو بے اولاد تھا آپ اولاد فراہم کرنے میں ’’مدد‘‘ دے کر اسے خوشیاں فراہم کردیتے ہیں۔ ’دوسروں کو خوشیاں فراہم کرنا ہی تو اعلی زندگی کا مشن ہے۔‘‘ لیکن حقیقت کچھ اور ہے یہ تو وہ خوبصورت جملہ ہے جو سرمایہ دار تاجر نے اس طرح بنا ہے جس طرح مکڑی اپنے شکار کو پھنسانے کے لیے بنتی ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ وہ ہر اس طریقے کو خوبصورت اور ’پنیہ‘ بناکر پیش کرے گا جو اس کے لیے دولت کمانے کا ذریعہ ہوگا اور اس کے لیے وہ اپنے شکار کو بھی حسین چارہ پیش کرے گا۔

چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اس سیروگیسی کو تعلیم یافتہ خواتین کے لیے ’’آسان اور نیچرل پیشہ‘‘ بتایا جارہا ہے حالانکہ یہ آسان اور زیادہ مال کمانے کا ذریعہ تو ان لوگوں کا ہے جو اس بزنس میں لگے ہیں۔ عورت تو محض اس میدان میں آلۂ کار ہے۔ ایک ایسی آلۂ کار جسے اپنی عزت و وقار تک کا شعور نہیں۔ اسے ایک قومی تجارت کا بھی بہترین ذریعہ قرار دیا جارہا ہے کہ اس سے ’’ریپروڈکٹیو ٹورزم‘‘ کو زبردست بڑھاوا ملے گا اور کثیر زرِ مبادلہ ہمیں حاصل ہوگا جس سے ہماری معیشت کو ترقی ملے گی۔ جی ہاں اس طرح، جس طرح ’سیکس ٹورزم‘ سے ہمارے ملک کو معاشی ترقی حاصل ہورہی ہے۔

سیروگیسی کی حمایت کرنے والے اسے غربت کا بھی تریاق بتاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس طرح کئی غریب خاندانوں کی عورتیں اپنی بنیادی ضروریات کی تکمیل کرسکتی ہیں۔ مگر ہائے غریبی ہائے۔ غریب عورت یہاں بھی ’’چھٹ جائے گی بے چاری‘‘ کیونکہ یہاں ڈیمانڈ پڑھی لکھی اور صحت مند خواتین کی ہے۔ اور اس طرح کی خواتین اب کافی تعداد میں میسر بھی ہیں۔ ایسے میں غریب خواتین کے لیے جس طرح رزرویشن کوئی فائدہ نہیں پہنچائے گا اسی طرح سیروگیسی کا پیشہ بھی ان کی غربت کے ازالہ میں کام نہ آسکے گا۔

اس کے لیے ایک دلیل یہ بھی دی جاتی ہے کہ ہمارے ملک میں غربت و افلاس ہے۔ یہاں ایک عورت چند روپیوں کے بدلے اپنی اولاد بیچ دیتی ہے۔ کئی لوگ پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے جسم کا خون بیچ دیتے ہیں اور کئی لوگ غربت سے جنگ لڑنے کے لیے اپنا گردہ فروخت کردیتے ہیں۔ ایسے میں ایک عورت اگر کسی کا بچہ اپنے پیٹ میں پال کر چند لاکھ روپئے کما لیتی ہے تو اس میں کیا حرج ہے؟ جی ہاں! اس میں کچھ بھی حرج ان لوگوں کے لیے نہیں ہے جو پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے اولاد کو فروخت کردینے، خون بیچ دینے اور گردہ بیچ دینے کو جائز تصور کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم تو غربت ہی کو جائز تصور نہیں کرتے اور ہمارا خیال ہے کہ ہر باشعور انسان اس کی تائید کرے گا۔ خون، گردہ اور اولاد فروخت کرنے کے واقعات اور وہ حالات جنھوں نے بے چارے انسان کو اتنا مجبور کردیا ہمارے سماج کی پیشانی پر کلنک ہیں اور ان کلنک واقعات کو سیروگیسی کے لیے جواز کے طور پر پیش کرنا خود ایسے بیماروں کی ذہنیت کی علامت ہے، جو ان سب شرمناک واقعات کو جائز ٹھہراتے ہیں۔ ہم تو ایک ایسے سماج کا تصور رکھتے ہیں اور اس کی تشکیل چاہتے ہیں جہا ںامیرو غریب کے درمیان کا فاصلہ بہت کم ہو اور ہر انسان باعزت زندگی گزارتے ہوئے اپنی زندگی کی بنیادی ضروریات کی تکمیل کرسکے۔

یونین گورنمنٹ نے سیروگیسی سے نمٹنے کے لیے قانون بنانے کی پیش کش کے ذریعہ یہ ثابت کردیا ہے کہ اس نے اس عمل کے قانونی، اخلاقی اور سماجی جواز کو قبول کرلیا ہے اور اب وہ عورت کے خلاف ایک اور استحصالی عمل کو قانونی جواز فراہم کردے گی اور یہ سب عورت کے تحفظ کے نام پر کیا جائے گا۔ حکومت، غیر سرکاری اداروں اور میڈیکل سے جڑے اداروں نے اس سے متعلق اشوز کی بھی خاکہ سازی شروع کردی ہے۔ جس میں سردست مالی استحصال، خواتین کی صحت سے متعلق معاملات اور اس کے تجارتی امور سے متعلق شقیں شامل ہیں۔ اسی طرح عمر کی حد اور یہ بات بھی شامل ہوگی کہ ایک عورت کتنی مرتبہ اپنی کوکھ کرائے پر اٹھا سکتی ہے۔ ظاہر ہے اس میں حکومت کی سب سے بڑی ترجیح وہی ہوگی جس کا ذکر انھوں نے پہلے کیا ہے کہ وہ ہندوستان سیروگیسی کے لیے ’’سستا مارکیٹ‘‘ نہیں بننے دیں گی۔ ظاہر ہے کہ ابھی ایک عورت کو آٹھ دس لاکھ روپے تک مل رہے ہیں۔ ہوسکتا ہے قانون بن جانے کے بعد بیس پچیس لاکھ روپئے تک ملنے لگیں۔ اس طرح حکومت اس پر ٹیکس لاگو کرکے اپنے لیے روینیو حاصل کرنے کے نئے مواقع پیدا کرلے گی مگر وہ عورتوں کو استحصال سے بھی بچا پائے گی یہ دیکھنا ابھی باقی ہے۔

ابھی تو حکومت، افراد اور اداروں کی نظر ’’ریپروڈکٹیو ٹورزم‘‘ اور اس کے مالی و تجارتی فیوض و برکات پر ہے مگر سماجی اور اخلاقی نقطۂ نظر سے اس کے کیا اثرات ملکی معاشرے پر پڑیں گے اس کا کوئی خیال نہیں ہے۔ اور ہمارے نزدیک سب سے بڑا اور قابلِ تشویش اشو یہی ہے جس کو مکمل طور پر نظر انداز کیا جارہا ہے۔ عورت کی مکمل تجارت کا یہ نیا انداز کیا گل کھلائے گا کچھ نہیں کہہ سکتے۔ سوائے اس کے کہ:

آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا؟

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں