نصب العین سے انحراف

استاذ مصطفی مشہور ترجمہ: عبدالحلیم فلاحی

دعوتِ حق کی راہ سے انحراف کی متعدد صورتیں ہیں۔ ان میں سے بعض واضح اور نمایاں اور بعض پوشیدہ ہیں۔ انحراف نصب العین اور مقصد سے بھی ہوتا ہے اور فہم دعوت اور وسائل و طریقِ کار سے بھی۔

انحراف کی سب سے سنگین صورت نصب العین سے انحراف ہے اور اس سے چوکنا رہنا نہایت ضروری ہے۔ دعوتِ اسلامی کی راہ میں ہمارا مقصود اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اور اِس سے انحراف کے معنی ہیں غیر اللہ کو مقصود ٹھہرانا یا کم سے کم یہ کہ اللہ کے ساتھ دنیوی اغراض و مقاصد یا ذاتی خواہشوں کو شریک کرنا۔ نصب العین سے معمولی سا انحراف بھی اعمال کو بے قیمت اور ناپسندیدہ بنادیتا ہے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ شرک سے بے نیاز ہے اور وہ صرف اسی عمل کو قبول فرماتا ہے جو خالصتاً اُس کی رضا کے لیے انجام دیا گیا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ حق کی راہ پر چلنے کے لیے نیت کو خالص کرنا اور اس کو ہر طرح کے شائبے سے پاک کرنا ایک بنیادی امر ہے اور یہ معاملہ اتنا اہم ہے کہ بار بار اس کا جائزہ لینا اور اس سلسلے میں اطمینان حاصل کرنا انتہائی ضروری ہے۔ اس لیے کہ نفسِ انسانی کے ساتھ خواہشیں اور شیطان لگے ہوئے ہیں۔
ریا، غرور، تعلّی اور قیادت کی خواہش، اپنے آپ کو نمایاں کرنے کی خواہش اور دنیوی اغراض کے لیے منصب، جاہ و جلال اور اقتدار کی آرزو، اِن کے علادہ دوسرے دنیوی مقاصد یہ سب کے سب ایسے امراضِ قلب ہیں جو انسان کو اس کے نصب العین سے منحرف کردیتے ہیں۔ یہ امراض جسمانی امراض سے زیادہ خطرناک ہیں۔ اس لیے کہ جسمانی امراض کے اثرات انسان کی اس دنیا کی زندگی میں اس کے فانی جسم تک محدود ہوتے ہیں۔ لیکن دل کی بیماریاں انسانی روح کو متاثر کرتی ہیں اور ان کے اثرات دنیا سے لے کر آخرت تک دراز ہوتے ہیں۔ یہ امراضِ قلب انسان کی نیت میں فساد پیدا کرکے اس کے اعمال کو ضائع کردیتے ہیں۔
دل کے امراض سے کوئی انسان خالی نہیں ہے لیکن مومن ایمانی قوت، تقویٰ اور اللہ کی ہر آن موجودگی کے تصور کے ذریعے ہمیشہ اِن امراض کا مقابلہ کرتا رہتا ہے اور اُنہیں دباتا رہتا ہے۔ وہ ہر وقت اپنی نیت کو تازہ کرتا رہتا ہے اور اللہ کے یہاں ملنے والے اجر کو دنیوی اغراض پر ترجیح دیتا ہے۔ اس یقین کے ساتھ کہ اللہ تعالیٰ کے پاس جو اس کے لیے صلہ ہے وہ بہتر اور باقی رہنے والا ہے۔ اُس کے اندرون میں ہمیشہ خیروشر کی قوتوں کے درمیان ایک کشمکش برپا رہتی ہے اور مومن ہر وقت اپنے نفس کو سنوارنے کی جدوجہد میں لگا رہتا ہے تاکہ اُس کے ذریعے وہ اللہ سے قریب ہوسکے:

’’یقینا فلاح پاگیا وہ شخص جس نے نفس کا تزکیہ کیا اور نامراد ہوا وہ جس نے اُس کو دبادیا۔‘’ (الشمس:۹،۱۰)

’’جو لوگ ہماری خاطر مجاہدہ کریں گے اُنہیں ہم اپنے راستے دکھائیں گے، اور یقینا اللہ نیکو کاروں ہی کے ساتھ ہے۔‘‘ (العنکبوت: ۶۹)
نصب العین سے انحراف کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ انسان مکمل طور پر دنیوی اغراض ومقاصد کی طرف متوجہ ہوجائے اور اللہ کی ذات سے بالکل برگشتہ ہوجائے۔ بلکہ اِن اغراضِ دنیوی کی معمولی مقدار بھی اگر نیت میں جگہ پاجائے اور دل میں بیٹھ جائے تو یہ ایسا انحراف ہوگا جو اعمال کو ضائع کرنے اور اس کو اخلاص کے دائرے سے نکالنے کے لیے کافی ہے۔

چوں کہ نصب العین سے انحراف کی کمیں گاہ انسان کی نیت ہے اور نیت کی جگہ دل ہے اس لیے بسا اوقات اس کے اندر انحراف پیدا ہوجاتا ہے اور لوگ ایک طویل وقت گزارنے کے بعد اس وقت اس سے واقف ہوتے ہیں جب اس کی علامتیں سر اٹھانا شروع کردیتی ہیں اور بالکل نمایاں ہوجاتی ہیں جبکہ اس وقت تک وہ دوسروں کو بگاڑ چکا ہوتا ہے یا اپنے برے اثرات چھوڑ چکا ہوتا ہے، خاص طور پر جب وہ کسی ذمہ دارانہ منصب پر ہو۔ آخر کار ایسے امراض رکھنے والے لوگوں کو جماعت سے علاحدہ کرنا ضروری ہوجاتا ہے الا یہ کہ وہ لوگ باز آجائیں اور اپنے دلوں کو پاک کرلیں اور اپنی نیتوں کو خالص کرلیں۔
دعوتِ اسلامی کی راہ پر چلنے کے لیے اخلاص کی ضرورت و اہمیت کو ظاہر کرنے کے لیے بہت سی قرآنی آیتیں اور احادیثِ نبوی موجود ہیں۔ جن میں سے ہم بعض آیتیں یہاں بطورِ مثال پیش کررہے ہیں:

’’اے نبیؐ! ان سے کہو مجھے حکم دیا گیا ہے کہ دین کو اللہ کے لیے خالص کرکے اُس کی بندگی کروں،اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ سب سے پہلے میں خود مسلم بنوں۔‘‘
(الزمر: ۱۱،۱۲)

’’کہو میری نماز، میرے تمام مراسمِ عبودیت، میرا جینا اور میرا مرنا، سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے جس کا کوئی شریک نہیں۔ اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے۔‘‘
(الانعام: ۱۶۲، ۱۶۳)

’’اور اُن کو اِس کے سوا کوئی حکم نہیں دیا گیا تھا کہ اللہ کی بندگی کریں، اپنے دین کو اس کے لیے خالص کرکے، بالکل یکسو ہوکر۔‘‘ (البینۃ: ۵)
اور احادیثِ نبوی میں سے ’’انما الاعمال بالنیات‘‘ عمل کا دار و مدار نیتوں پر ہے، والی حدیث بہت مشہور ہے۔ یہ حدیث یہ بات اچھی طرح واضح کرتی ہے کہ عمل اور اس کی جزا پر نیت کس حد تک اثر انداز ہوتی ہے۔ ایک دوسری حدیث میں حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ تمہارے جسموں اور تمہاری صورتوں کو نہیں دیکھتا، بلکہ تمہارے دلوں کو دیکھتا ہے۔‘‘ (مسلم)

اسی طرح ابوموسیٰ اشعریؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے فرمایا: ’’رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا گیا کہ ایک شخص بہادری کے اظہار کے لیے جنگ کرتا ہے، دوسرا شخص حمیت کی بنیادپر جنگ کرتا ہے اور تیسرا شخص دکھاوے کے لیے جنگ کرتا ہے تو ان میں کس کی جنگ فی سبیل اللہ ہوگی؟ آپؐ نے فرمایا: جس نے اللہ کا کلمہ بلند کرنے کے لیے جنگ کی اسی کی جنگ فی سبیل اللہ شمار ہوگی۔‘‘ (متفق علیہ)

اخلاص کی اِسی اہمیت کے پیشِ نظر حسن البناءؒ نے دعوتِ اسلامی کی راہ میں چلنے کے لیے بیعت کے دس ارکان میں سے اس کو ایک لازمی رکن قرار دیا ہے۔ وہ اخلاص کے مفہوم کو ان الفاظ میں واضح کرتے ہیں۔ (اخلاص سے میری مراد یہ ہے کہ ہمارا ہر بھائی اپنے قول و عمل اور اپنی تمام تر جدوجہد کا مرکز و محور اللہ تعالیٰ کی ذات کو بنائے، اُسی کی رضا کا طالب ہو اور اسی سے حسنِ انجام کی لَو لگائے۔ اس کی نظر دنیوی فائدوں، ظاہری شکلوں، جاہ و منصب اور القاب و خطابات پر ہرگز نہ ہو۔ اس درجے کا اخلاص اپنے اندر پیدا کرکے ہی کوئی بھائی دنیوی مفاد اور اغراض و مقاصد کے بجائے فکر اور عقیدے کا سپاہی بن سکتا ہے۔ قرآن ایک مخلص مومن کی تصویر کشی اِن الفاظ میں کرتا ہے: ’’کہو میری نماز، میرے تمام مراسمِ عبودیت، میرا جینا اور مرنا سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے، جس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے۔‘‘ اور اِسی صورت میں ہمارا مسلمان بھائی ہمارے شعار (رضائے الٰہی ہمارا نصب العین ہے) اور (اللہ سب سے بڑا ہے اور اُسی کے لیے شکر و ثنا ہے) کا صحیح مفہوم سمجھ سکتا ہے۔

دعوتِ اسلامی کی راہ پر چلنے والے داعی کی اصل پہچان یہ ہے کہ وہ اپنے آخری سانس تک اللہ کے ساتھ کیے ہوئے عہد و پیمان کی اپنے عمل کے ذریعے تصدیق کرتا رہے اور اپنے موقف میں کسی طرح کی کوئی تبدیلی نہ آنے دے۔ ایسے لوگوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:

’’ایمان والوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جنھوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو سچا کر دکھایا ہے۔ ان میں سے کوئی اپنی نذر پوری کرچکا اور کوئی وقت آنے کا منتظر ہے۔ انھوں نے اپنے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔ (یہ سب کچھ اس لیے ہوا) تاکہ اللہ سچوں کو ان کی سچائی کی جزا دے اور منافقوں کو چاہے تو سزا دے اور چاہے تو اُن کی توبہ قبول کرلے۔ بے شک اللہ غفور و رحیم ہے۔‘‘ (الاحزاب: ۲۳، ۲۴)

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146